انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابی مہم سے پاکستان کا تذکرہ غائب کیوں ہوا؟

’ظلم کا بدلہ، ووٹ سے۔۔۔‘ اس نعرے کی گونج انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابات کے دوران سنائی دے رہی ہے مگر اس سب کے درمیان پاکستان کا نام غائب ہے اور اس جانب کسی کی شاید توجہ نہیں ہے۔ کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اپنا بیانیہ کیوں تبدیل کیا ہے؟
IOK
BBC

’جیل کا بدلہ، ووٹ سے۔۔۔ ظلم کا بدلہ، ووٹ سے۔۔۔ جبر کا بدلہ، ووٹ سے۔‘

انڈین پارلیمان یعنی لوک سبھا کے لیے ہونے والے عام انتخابات کے دوران انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں اس نوعیت کے نعرے پہلی بار سُنائی دے رہے ہیں۔

گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ہونے والے انتخابات میں کشمیر کے سیاسی رہنما تعمیر و ترقی، انڈیا، پاکستان دوستی اور مسئلہ کشمیر کے حل جیسے معاملات کو اپنی انتحابی مہمات کا مرکز و محور بناتے رہے ہیں۔

تاہم اس بار ایسا نہیں ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ خطے کی بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن مہم کے دوران لوگوں کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف اپنی ناراضی کا اظہار ووٹ کے ذریعے کرنے کو ضرور کہہ رہے ہیں۔

کشمیر کی تین پارلیمانی نشستوں میں سے سرینگر کی نشست کے لیے ووٹنگ 13 مئی کو ہو چکی ہے جبکہ مزید دو نشستوں کے لیے انتخابات کے اگلے دو مرحلوں میں ووٹنگ ہو گی اور ووٹنگ کا عمل مئی کے آواخر تک مکمل ہو جائے گا۔

سرینگر کی سیٹ پر ہونے والے الیکشن میں ووٹنگ کی شرح 38 فیصد رہی جو 2019 میں ہونے والے آخری پارلیمانی الیکشن کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے ووٹنگ کی شرح میں اضافے کو کشمیر سے متعلق مودی حکومت کے فیصلوں کی توثیق قرار دیا ہے۔ لیکن بعض کشمیری ووٹر اسے توثیق نہیں جمہوری طریقے سے کیا گیا ’احتجاج‘ قرار دیتے ہیں۔

Kashmir
Getty Images

کشمیر کا روایتی سیاسی بیانیہ کیا تھا؟

کشمیر کی سب سے پُرانی اور بڑی سیاسی جماعت ’نیشنل کانفرنس‘ کا سیاسی بیانیہ دہائیوں سے کشمیر کے انڈیا سے الحاق سے متعلق آئینی شقوں اور یقین دہانیوں سے تھا جس میں اہم آرٹیکل 370 بھی تھا۔

جبکہ روایتی طور پر علیحدگی پسندوں کا مرکز روایتی طور پر انتخابات کے بائیکاٹ کے گرد گھومتا تھا۔ انتخابات کے بائیکاٹ جیسی روایت سنہ 2002 تک قائم رہی جب انڈیا کے سابق وزیرِ داخلہ مفتی محمد سید نے ایک نئی سیاسی جماعت ’پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی‘ کے بینر تلے اقتدار حاصل کرکے مسائل حل کرنے کا ایک متوازی بیانیہ متعارف کروایا۔

کشمیر کی سیاست میں رواں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحدوں کو آمد و رفت اور تجارت کے لیے کھولنے، کشمیر کے لیے سیلف رُول (یعنی مقامی نمائندوں کا انتخاب) اور جنوب ایشیا میں امن اور ترقی جیسے نعرے مقبول ہوئے۔

لیکن بظاہر 2019 میں انڈیا نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے پورے جموں کشمیر کو انڈیا کے آئینی نظام میں دیگر ریاستوں کی طرح ہی ضم کر دیا تو کشمیر کا روایتی سیاسی بیانیہ محض ایک نعرہ بن کے رہ گیا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق فی الوقت روایتی سیاسی جماعتیں لوگوں سے کسی مخصوص سیاسی بیانیے پر ووٹ نہیں مانگ رہیں بلکہ سبھی رہنما ووٹرز سے بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے کو کہہ رہے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی نے یہی حکمتِ عملی سنہ 2014 میں اپنائی تھی لیکن مفتی سید نے بعد میں بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔

Kashmir
BBC

نئے بیانیے کی تلاش

سارہ حیات شاہ نے دس سال قبل جن نعروں سے متاثر ہو کر نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اُن میں سب سے اہم آرٹیکل 370 کو محفوظ کرنا تھا۔

لیکن آج وہ کہتی ہیں کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران لوگ اس قدر خوفزدہ ہوئے ہیں کہ بڑے سیاسی نعروں کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا، پاکستان کی دوستی اور خودمختاری تو اہم مسائل ہیں، لیکن نوجوانوں کی گرفتاریاں اور اظہار رائے پر پابندیاں فی الوقت بڑے مسئلے ہیں۔ ووٹ میں طاقت ہے، اسی لیے لوگ جمہوری طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔‘

اُن کی پارٹی کے سرینگر سیٹ پر اُمیدوار آغا رُوح اللہ نے بھی لوگوں سے ’عزت، آبرو، خودمختاری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ سے متعلق نعروں پر ووٹ مانگے تھے۔

پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کے سرینگر سیٹ پر اُمیدوار وحید الرحمٰن پرّہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے بنیادی نظریات جو بھی ہوں، اس وقت اہم یہ ہے کہ لوگوں کو خاموشی توڑنے پر آمادہ کیا جائے۔ پانچ سال کے دوران لوگ سہم چکے ہیں، وہ ڈرے ہوئے ہیں، انھیں یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ جمہوری طریقے سے احتجاج کرنا ممکن ہے۔‘

Kashmir
BBC

بائیکاٹ سیاست کا خاتمہ

کشمیر میں ماضی میں ہونے والے انتخابات کے دوران علیحدگی پسند گروپ الیکشن کے بائیکاٹ کی کال دیتے تھے اور روایتی طور پر عوام کی اکثریت پولنگ مراکز کا رُخ کرنے سے گریز کرتی تھی لیکن پچھلے پانچ برسوں کے دوران مسلح تشدد اور پُرتشدد مظاہروں میں نمایاں کمی کے بعد اب بائیکاٹ کی سیاست ماضی کی بات لگتی ہے۔

اس ضمن میں اس بار معنی خیز تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے ایک بیان میں انتخابات کے بائیکاٹ کو موجودہ حالات میں کشمیریوں کے لیے ’مُضر‘ قرار دیا ہے۔

اسی دوران جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ اُن کے کارکنوں نے موجودہ الیکشن میں ووٹ ڈالے اور اُن کی جماعت آئندہ اسمبلی الیکشن میں شرکت بھی کرے گی۔

مگر انھوں نے یہ سب کرنے کے لیے شرط یہ رکھی کہ اگر انڈین حکومت اُن کی جماعت پر لگی پابندی کو ختم کرکے اُن کے رہنماؤں کو قید سے رہا کر دے تو ایسا ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے بیانیے میں آنے والی اِس بڑی تبدیلی کو بی جے پی ’مودی حکومت کی کرشمہ ساز قیادت کا نتیجہ‘ قرار دے رہی ہے۔

بی جے پی کے ایک مقامی رہنما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کانگریس بائیکاٹ کو برداشت کرتی تھی، وہ علیحدگی پسندوں کی انڈیا مخالف سیاست کو برداشت کرتی تھی۔ لیکن مودی جی نے اینٹی انڈیا سیاست کو ختم کرکے دکھا دیا۔‘

’ظلم کا بدلا ووٹ سے‘ جیسے نعرے کیوں مقبول ہو رہے ہیں؟

Kashmir
BBC

دو مرتبہ رُکنِ اسمبلی رہنے والے انجینیئر رشید کو پانچ سال قبل ’دہشت گردی کی فنڈنگ‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ وہ فی الوقت دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ انھوں نے بارہمولہ سیٹ کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے منظور کر لیے گئے ہیں۔

بارہمولہ سیٹ کے لیے سابق وزیرِ اعلیٰ عمرعبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے رہنما سجاد غنی لون کے درمیان براہ راست مقابلہ تھا، لیکن انجنئیر رشید کی غیرمتوقع انٹری نے بارہمولہ سیٹ کے لیے ہو رہی انتخائی لڑائی کو دلچسپ موڑ دیا ہے۔

انجینیئر رشید کی الیکشن مہم اُن کے 25 سالہ بیٹے ابرار رشید چلا رہے ہیں۔ اُن کی مہم میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہو رہی ہے اور دیگر انتخابی امیدواروں کی طرح انھیں بھی حلقے میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔

ابرار رشید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں کوئی سیاستدان نہیں ہوں۔ میرے والد جیل میں ہیں جبکہ میرے سالانہ امتحانات اگلے ماہ ہونے ہیں۔ میں مجبور ہوں، کیونکہ بابا نے جیل سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔

’مجھے لوگوں سے کہنا ہے کہ اگر وہ ایک مخلص لیڈر کو آزاد کروانا چاہتے ہیں تو وہ ان کو ووٹ دے کر کامیاب کریں۔‘

ابرار کی ریلیوں میں ’جیل کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ جیسے نعرے گونجتے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں کہ ’انجنئیر رشید کی مقبولیت کی وجہ اُن کا قید میں ہونا ہے اور اُن کے بیٹے کی فریاد کے ساتھ لوگ ریلیٹ کر پاتے ہیں، کیونکہ کشمیر میں ایسی شاید ہی کوئی بستی ہو گی جہاں لوگوں کو قید و بند کا سامنا نہ رہا ہو۔‘

کیا کشمیر کی سیاست سے پاکستانی فیکٹر ختم ہوگیا؟

معروف صحافی اور تجزیہ نگار ظفرچوہدری اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔

بی بی سی کے ساتھ ایک ٹیلی فونک گفتگو میں ظفر چوہدری نے بتایا کہ ’جب تک لائن آف کنٹرول ہے، تب تک پاکستان یہاں کی سیاست کو متاثر کرسکتا ہے۔‘

تاہم اُن کا کہنا ہے کہ ’2019 میں جو کچھ ہوا اُس نے کشمیر کے سبھی سیاسی نظریات کو حاشیے پر دھکیل دیا ہے، اور اب سیاسی رہنما الیکشن میں محتاط لہجہ اختیار کرتے ہیں اور چھوٹی موٹی ایمپاورمنٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہاں ایک طبقہ پاکستان کے ساتھ جانے کی بات کرتا تھا (مسلح گروپ اور علیحدگی پسند سیاستدان)، ایک طبقہ انڈیا اور پاکستان کے کنٹرول والے دونوں کشمیری خطوں میں آزادی کی بات کرتا تھا جبکہ ایک اور طبقہ (انڈین موقف کی حمایت کرنے والے سیاسی گروپ) اندرونی خودمختاری کی بات کرتا تھا۔ پانچ سال پہلے فقط ایک اعلان سے یہ سب کچھ اِریلونٹ ہوگیا۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’مقامی سیاسی گروپ نہیں چاہتے کہ اُن کے کارکن کسی مصیبت میں پڑجائیں، اسی لئے وہ انڈیا۔پاکستان تعلقات، مذاکرات اور سیلف رُول کی بجائے جمہوری حقوق اور دوسرے مقامی اِشوز پر بات کررہے ہیں۔

’اس کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیر کی سیاست میں سے پاکستانی فیکٹر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا، کیونکہ جموں کشمیر کو دو ملکوں میں بانٹنے والی لائن آف کنٹرول ابھی موجود ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ مسئلہ دو ہی صورتوں میں واقعی ختم ہوجائے گا۔ ’ایک تو یہ کہ آپ لوگوں سے ہی پوچھیں اور وہ خود انڈیا کے ساتھ جانے پر راضی ہوں لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا ممکن ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انڈین افواج کنٹرول لائن کو عبور کرکے اُس کشمیر کو بھی اپنے ساتھ ملالیں۔‘

مگر وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں جیوپولیٹکس کو دیکھنا ہے، کوئی ٹکراوٴ ہوا تو انڈیا کو آخر پر مسئلہ مذاکرات سے ہی حل کرنا پڑے گا اور دہائیوں سے مذاکرات ہی تو کشمیری چاہتے ہیں۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.