میرا جگری یار!

تو جناب عالی یہ کہانی کہہ لو کہ آپ بیتی بلکہ روداد سمجھ لو ۔ میں بنت وحید بچپن سے ہی دوستیوں سے کترانے والی لڑکی ہوں۔ مجھےایسا لگتا ہے کہ دوستی صرف کہنے سے نہیں بلکہ نبھانے سے دوستی کہلانے کے لائق ہوتی ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ آج تلک اسی وجہ سے میں لوگوں سے کوسوں دور بھاگتی ہوں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں نے دوست نہیں بنائے، میں نے دوست بنائےجو مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہیں اور جن پر میں جان چھڑکتی ہوں۔ پر ایسا ہوتا ہے نہ کہ ان تمام چاہنے والوں میں ایک شخص آپکے بہت قریب ہوتا ہے وہ آپکو سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے کیونکہ وہ آپکو سمجھتا ہے ، آپ جیسی وائب رکھتا ہے۔ میری زندگی میں بھی ایسی ایک سہیلی ہے جس کو میں اپنے دل کی ہر بات بتا سکتی ہوں اور مجھے وہ اپنے دل کی بات بتا سکتی ہے۔آج سے تقریباً دس سال پہلے سے ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ جان پہچان دوستی میں بدل گئی۔ سکول کی گاڑی میں اکھٹے جانا، اکٹھے ہی واپس آنا، راستےمیں خوب مستی کرنا ، اک دوسرے کو جگتیں سنانا اور مزاق بنانا ، زندگی اتنی خوشگوار تھی کہ آج بھی آنکھیں موند کر بس انہی لمحات میں کھو جانے کا من کرتا ہے۔ سفر میں آخری سٹاپ میرا تھا اور وہ مجھ سے پہلے اتر جاتی تھی اور اسکے جانے کے بعد سے چھٹی کے وقت اس کے آنے تک میرا ایک پل بھی ہنستے ہوئے نہیں گزرا تھا اور اسکی یہ وجہ تھی کہ میں نے سکول میں کوئی دوست ہی نہیں بنایا تھا، میری تو ساری دنیا ہی وہی تھی۔ میں نے سکول کے دس سال ضائع کر دیئے بس اس ڈر سے کے شاید میرا مزاج ان سے نہ ملے اور ہوا بھی ایسے کہ پہلے پانچویں جماعت میں پھر آٹھویں جماعت میں ایک ایک کرکے سب مکتب کے مطلبی ساتھی چھوڑتے گئے۔ پھر بس یہی مان لیا کہ سرکار اپنا کوئی نہیں کیونکہ ہنستے تھے تو فقط بس میں، کھیلتے تھے تو فقط بس میں اور یادیں ہیں تو فقط بس کی۔ وہ مجھ سے ایک سال آگے تھی سو دسویں کے بعد اس نے کالج میں لے لیا داخلہ اور میں اس سے ایک سال کےفرق میں بہت پیچھے رہ گئی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اسکے کالج کی ٹائمنگ کے چکر میں وہ کبھی بس میں آتی تھی اور کبھی نہیں اور یقین جانئے پچھلے پانچ سال جو اسکے ساتھ گزرے تھے ان نے ایسی عادت ڈال دی تھی کہ اس کے بغیر تو سفر ناممکن سا تھا۔ بس اس کے اسٹاپ پر پہنچ کر نظریں میری کھڑکی سے باہر بس اسکا چہرہ تلاش کرتی تھیں ، لیکن وہ بس میں نہیں آتی تھی۔ یہ بات ہے ۲۰۱۸ کی پھر ایک روز کیا ہوا کہ جس کالونی میں ہم رہتے تھے وہ وہاں سے بھی شفٹ ہوگئے اور بس میں ملاقات کے چانسز بھی ختم۔ خیر یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ جب تلک دل میں دوریاں پیدا نہیں ہوتی تب تلک انسان چاہے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، دور نہیں ہوتا۔ اس کے جانے سے پہلے میں شاید پہلی مرتبہ اسکے گھر گئی تھی جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ میں دوستیوں سے کتراتی تھی اسی وجہ سے بس باہر ملنا ملانا، آنا جانا ٹھیک رہتا تھا اس لئے کسی کے گھر جانے کی عادت بھی نہیں تھی مگر اس کے گھر گئی تھی تاکہ آخری بار مل سکوں اور غالباً یہ بات ۲۰۱۹ کی ہے۔ بس وہ یہاں سے چلی گئی اور جو کھلنا کھلانا تھا میرا وہ بھی ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ ڈرتے ڈرتے کالج میں داخلہ لیا کہ جانے دل لگے گا کہ نہیں لگے گا لیکن شاید اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں زندگی جینے کے طور طریقے سیکھ جائوں۔ شروع شروع میں تو بس وقت گزاری کی ، لوگ ساتھ ہوتے تھے کبھی نہیں ہوتے تھے پھر اک دن کچھ لوگ ایسے آئے زندگی میں جنکو جب بھی یاد کروں ،اچھے دن ہی یاد آتے ہیں لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہی اچھا وقت بس میں بھی میسر آتا رہا تھا۔ کالج کے بعد گھنٹہ اسٹاپ پر بس کا انتظار بنا کسی دوست کے، اور گھر تک کا گھنٹے تک کا سفر بغیر اس کے بہت اداس سا ہوتا تھا پر اللہ اللہ کر کے گزر گیا۔ دو سال کالج کے ختم ہو گئے لیکن اس سے رابطہ مستقل رہا، البتہ مزاج میں بہت سی تبدیلیاں آئی۔ شوخی رہی نہ مستی۔ ایسے مزاج بدلے کے جینا بھول گئے۔ اب زندگی اگر نام ہے کبھی خوشی کبھی غم کا تو جناب ہم بھی کبھی بہت ہنسے تو کبھی روئے بہت۔دو سال کالج کے اور ایک سال یونیورسٹی میں داخلے کا انتظار ، یہ بھی اس سے بات کر کے ہی گزرے، کبھی میسج کر لیا تو کبھی کال جو کہ بہت کم ہوا کرتا تھا پر صاحب رابطہ تھا۔ نہ اس نے کبھی کوئی بات مجھ سے چھپائی نہ ہی میں نے، بس اس کی ایک عادت بڑی پریشان کرتی تھی وہ ایک دم بات کر کے مہینہ غائب ہو جاتی تھی، سوشل میڈیا سے اسے چڑ ہونے لگی تھی سو اس نے اپنے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس ختم کر دیئے سو ایک لمبہ عرصہ بنا بات کے بھی گزرا۔ پھر کسی طرح اس سے رابطہ کیا کہ جناب زندہ ہو کے نہیں؟ خیر اسکو تنبیہہ کی کہ یہ کام دوبارہ نہ کرنا کیونکہ اس نے تو ساری دنیا سے ہی تعلق ختم کرنے کی ٹھانی ہوئی تھی پر ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ مجھ سے رابطہ رکھا ہوا تھا۔ بس ایک ہی جگہ ایسی تھی کہ جہاں ہم اکثر گپ شپ کر لیتے تھے۔ کچھ غم بتا دیئے کبھی کبھی کچھ چھپا لیئے اور یہی باتیں کرتے کرتے اکثر فجر ہو جایا کرتی تھی۔ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد اس نے کہا کہ دوست بنانا بہت سارے اور میں نے کہا سب مطلبی ہی ملنے ہیں تمہارے جیسا تو نہیں ملنا سو مجھ کو نہیں بنانے دوست۔ سب ٹائم پاس کرتے ہیں بھول جاتے ہیں اس لىئے یونیورسٹی میں بھی کوئی دوست نہیں بنایا۔ اس سے اب بھی رابطہ رہا تھا بس ہوتا کم کم تھا۔ شوخیوں میں کمی محسوس تو ہوتی تھی لیکن وہ کہتی تھی میچورٹی ہے بس زندگی یہی ہے۔ بلکہ ایسا کہوں کہ یکدم مزاج میں بہت تبدیلی آ گئی تھی ، جذبات کا اظہار ۔۔۔ نا ممکن کوئی اچھی بات ناممکن، کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ کوئی بات ہے وہ بتاتی نہیں ہے لیکن وہ کوئی بات چھپاتی نہیں تھی سو یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ ہاں اتنا ضرور ظاہر تھا کہ اب اسے ہنسنا بولنا اور وہ اکسائٹڈ ہونا بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ پھر بھی بات چیت ہوتی تھی۔ اکثر بہت سنجیدہ۔ اتنی سنجیدہ کہ دل کرتا تھا کوئی گڑہ کھودے اور میں اس میں لیٹ جائوں۔ سنجیدگی اتنی پختہ ہونے لگی کے بدل گیا سب کچھ۔ اتنا بدل گیا کہ ایک دن بحث ہو گئی اور ہم ناراض ہو گئے۔ ناراض ہوئے لیکن کہیں دل ہی دل میں کہتے رہے منا لیتے ہیں ایک دوسرے کو لیکن اس نے ایک ہی جگہ جہاں سے بات ممکن تھی وہ بھی ختم کر دی اور پھر مجھے اسکی بات بہت یاد آئی کہ "اب مجھے ڈھونڈنا مت"۔ میری تو اب بھی کوشش یہی ہے کہ اتنا لمبا اور اتنے عرصے کا ساتھ ایسے ختم نہ ہو، بس ایک جگہ ہی تو رابطے کی امید تھی وہ بھی نہیں رہی ۔ بس رہ گیا ہے تو اسکا پیار اب بھی دل میں رہ گیا ہے اور اسکی اچھی یادیں رہ گئیں ہیں۔ ﷲ کرے کے وہ جہاں بھی ہو، خوش ہو اور پر سکون ہو(آمین) کیونکہ اس جیسے دوست نصیب والوں کو ہی ملتے ہیں اور مجھے اپنے نصیب سے کوئی گلہ نہیں۔

Samra Waheed
About the Author: Samra Waheed Read More Articles by Samra Waheed: 11 Articles with 7678 views I am outgoing, dedicated, and open-minded. I get across to people and adjust to changes with ease. I believe that a person should work on developing t.. View More