ہاشم پورہ: قتل عام سے کچھ لمحے پہلے بنائی گئی تصاویر

فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے اگر مئی 1987 میں ہونے والے اس واقعے سے کچھ دیر پہلے یہ تصویریں نہ لی ہوتیں تو مارے جانے والے لوگوں کے ان آخری لمحوں کے بارے میں شاید کسی کو پتہ نہیں چلتا۔
 

image
میرٹھ کے ہاشم پورہ میں 31 سال پہلے ہونے والے قتل عام میں دلی ہائی کورٹ نے تمام ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ فوٹو جرنلسٹ پروین جین نے اگر مئی 1987 میں ہوئے اس واقعے سے کچھ دیر پہلے یہ تصویریں نہ لیں ہوتیں تو مارے جانے والے لوگوں کے اس آخری لمحوں کے بارے میں شاید کسی کو پتہ نہیں چلتا۔
 
image
21 سال کے پروین جین کو دفتر کی طرف سے کام کے لیے میرٹھ بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے ٹیکسی لی اور میرٹھ پہنچ گئے۔ پولیس وائیرلیس میسیج پر پتہ چلا کہ ہاشم پورہ نام کی جگہ پر فوج کا سرچ آپریشن ہو رہا ہے تو وہ وہاں پہنچ گئے۔ وہاں پر پولیس اور پی اے سی کی مدد سے فوج کا تلاشی کا آپریشن جاری تھا۔
 
image
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پروین نے کہا، ’لوگوں کو دستوں سے پیٹا جا رہا تھا۔ ان کے (مارنے والوں کے) ہاتھ میں ہاکی سٹکس تھیں۔ اوپر (چھتوں پر) عورتیں رو رہی تھیں کہ ہمارے پتی کو بچاؤ، بچوں پر رحم کرو۔ لیکن کوئی سن نہیں رہا تھا اور لوگ مارنے میں لگے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہاتھ اٹھائے نوجوان وہاں سے گزر رہے تھے۔‘
 
image
پروین جین کہتے ہیں، ’گھروں میں عورتیں رو رہی تھیں کہ ہمارے مردوں کو، بچوں کو چھوڑ دو ان پر رحم کروں۔ آرمی نے گھروں پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ تلاشی چل رہی تھی۔ فوج نے پولیس اور پی اے سی کی مدد سے محلے کو گھیر لیا تھا۔‘
 
image
پروین جین نے بی بی سی کو بتایا کہ، ’انہیں (پکڑے گئے لوگوں کو) گلیوں سے نکالا جا رہا تھا۔ فوج اور پی اے سی ان کے ساتھ تھی۔ انہیں گھیرنے اور پیٹنے کے بعد فوج نے انہیں پولیس اور پی اے سی کے حوالے کر دیا۔ ہمیں لگا کہ بس اب سب ختم ہو گیا۔ ہمیں لگا کہ انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ ہم شام کو واپس دلی آ گئے۔ لیکن اسی دن انہیں گولی مار دی گئی تھی۔ 42 لوگوں کی موت ہوئی۔‘
 
image
پروین جین کہتے ہیں، ’پولیس نے مقامی میڈیا کو (علاقے سے) باہر کھڑا کر دیا تھا۔ میں جھاڑیوں کے پیچھے چھپا تھا۔ میں لگاتار تصویریں کھینچ رہا تھا۔ میں دو تین بار پکڑا بھی گیا۔ انہوں نے میری پٹائی کی۔ میں نے اس سے پہلے 1984 فسادات کو کوور کیا تھا۔ اس لیے مجھے ایسی صورت حال کا تجربہ تھا۔ پیٹنے کے بعد وہ مجھے باہر پھینک دیتے، میں پھر واپس گھس جاتا تھا کہ کیسے تصویریں کھینچی جائیں، کہاں سے اینگل آئے گا۔ لیکن میڈیا تھوڑا ڈرا ہوا تھا۔
 
image
پروین جین کے مطابق انہیں تھپڑ، مکے، اور لاتوں سے مارا گیا۔ ان سے کہا جاتا کہ وہ علاقے سے دور چلے جائیں۔ پروین کہتے ہیں، ’کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔ شاید فوج کو بھی نہیں پتہ تھا کہ انہیں مار دیا جائے گا۔
 
image
پروین جین کہتے ہیں، ’میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جن لوگوں کی میں تصویریں کھینچ رہا ہوں وہ مارے جائیں گے۔ مجھے آج بھی ان کا رونا یاد آتا ہے، کہ مجھے چھوڑ دو۔ ان دنوں ایک ایک کیمرا فریم کر کے شوٹ کرنا پڑتا تھا۔ میں نے تقریباً ایک رول تصویریں (30-35) کھینچی ہوں گی۔
 
image
پروین جین کہتے ہیں، ’ہاشم پورہ میں میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا بندوق کی نوک پر نماز پڑھ رہا تھا۔ جب 28 سال بعد میں دوبارہ ہاشم پورہ گیا تو میرے دماغ میں یہ سوال تھا کہ وہ لڑکا کہاں گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو بچ چانے والوں کو یاد تھا کہ اس دن ایک فوٹوگرافر گھس کر تصویریں کھینچ رہا تھا۔ کچھ ادھیڑ عمر لوگوں نے مجھے پہچان لیا۔ کہا کہ آپ تو بہت موٹے ہو گئے ہیں، پہلے تو بہت پتلے تھے۔ آپ تو چھپ کر تصویریں کھینچ رہے تھے۔‘
 
image
پروین جین کہتے ہیں، ’میری آنکھیں اسی لڑکے کو تلاش کرتی رہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ لڑکا کہاں ہے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ زندہ ہے تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اس کی شادی بھی ہو گئی ہے۔ سبھی نے مجھے گلے لگایا۔ اور اس لڑکے سے بھی ملوایا۔ وہ لڑکا رو رہا تھا۔ میرے بھی آنسو نکل آئے۔‘
 
YOU MAY ALSO LIKE:

Thirty-one years ago, when Praveen Jain, then a photojournalist with Sunday Mail, was sent to Meerut to cover the 1987 Hindu Muslim riots, he didn’t think that this was no ordinary assignment. “I soon realised that the photographs I ended up clicking were not just ordinary photographs, they were evidence,” he recalled.