تم شہر اماں کے رہنے والو،درد ہمارا کیا جانو!

کشمیر کے مسلمانوں پر ایک عرصہ درازسے قیامت برپا ہے۔اسلام تعدادکے لحاظ سے دُنیا کادوسرابڑامذہب ہے اور50کے قریب اسلامی ممالک کے باوجود پوری دُنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہ کشمیریوں سے روا، اس انسانیت سوزظلم وجبر پرخاموشی اورشرم ناک رویہ اختیارکئے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں عورتوں،بوڑھوں، بچوں کا قتل ِ عام کیا جارہا ہے۔کشمیرکی شہری آبادی پرکلسٹربمب برسائے جارہے ہیں اورنہتے شہریوں پربراہ ِراست پیلٹ گنزکی فائرنگ سے کشمیری مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ہزاروں کشمیری شہید،بچے یتیم اورعورتیں بیوہ ہوگئی ہیں۔

بھارت کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کچلنے اوران کی آوازدبانے کے لئے ہرطرح کے انسانیت سوزحربے استعمال کرتاآرہا ہے۔جن میں ان پر جنسی تشدد،جسم کو گرم سلاخوں سے داغنا،چھت سے اُلٹا لٹکانا،مرچ والے پانی میں سرڈبونا،واٹربورڈنگ اوردیگرناقابل بیان، غیراخلاقی اور غیرانسانی جان لیواہتھکنڈوں کابے دریغ استعمال ہے۔بھارت کی موجودہ حکومت نے انہی خطرناک عزائم کے تحت اپنے آئین کے آرٹیکل 370اور35-Aکوختم کردیا ہے۔

بھارت نے5اگست2019کوصدارتی حکم نامہ کے ذریعے آئین کے آرٹیکل370کے تحت مقبوضہ ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے،مقبوضہ ریاست کشمیر کووفاق کے زیرانتظام دوحصوں میں تقسیم کردیا،جس کے تحت پہلاحصہ لداخ جبکہ دوسراجموں و کشمیر پر مشتمل ہوگا، بعدمیں یعنی 6 اگست 2019کوراجیہ سبھا(ایوان بالا)اورلوک سبھاسے بھی آرٹیکل370اور35-A دونوں بل منظور کروا لیے ہیں۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت کرنسی، سیکورٹی اورخارجہ اموربھارت کی مرکزی حکومت کے پاس تھے جبکہ اپنا آئین بنانے،اسے برقراررکھنے،اپنا پرچم رکھنے جیسے دیگر تمام معاملات و اختیارات مقبوضہ جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے پاس تھے۔بھارتی آئین کی جو دفعات اورقوانین دیگرریاستوں پرلاگوہوتے ہیں وہ آرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ ریاست کشمیرپرنافذنہیں کئے جاسکتے تھے۔اسی طرح 35-Aکے تحت کسی بھی دوسری ریاست کاشہری مقبوضہ کشمیرکاشہری نہیں بن سکتااورنہ ہی وادی کشمیرمیں جگہ خریدسکتاتھا۔اب آرٹیکل 370اور35-A کے خاتمہ کے بعدمقبوضہ ریاست جموں وکشمیرکو آئین کے تحت حاصل ہونے والی خصوصیت کوختم کردیا گیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ اے این آئی کے مطابق مزید 8ہزارپیراملٹری فورسز کواڑسیہ،اترپردیش ،آسام اوربھارت کے دیگرعلاقوں سے مقبوضہ کشمیرمیں بھیج دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ بڑی تعدادمیں بھارتی فوجیوں کومقبوضہ کشمیرمیں تعینات کئے جانے کاسلسہ جاری ہے،جس کے تحت مزید10ہزار فوجیوں کوبھی مقبوضہ کشمیرمیں تعینات کیا گیاہے۔اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارت اسی پراکتفا نہیں کرے گا ۔ پہلے ہی وادی کشمیرمیں کثیرتعدادمیں فوج کی موجودگی کے باوجودبھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیرمیں فوجوں کواکٹھا کرنے سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور شہادتوں میں اضافہ ہوگا۔
بھارت سمجھتا ہے کہ وہ اپنے جاری اوچھے ہتھکنڈوں،دباؤاورآئین میں تبدیلی کے موجودہ اقدام سے کشمیریوں کی جدوجہداورآزادی کی آواز کو مستقل پرختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔مگر شایدوہ یہ بات بھول گیا ہے کہ تشدد،ظلم وجبراوردباؤ کے بعدانسان میں خاص قسم کی لچک اور برداشت پیداہوجاتی ہے اورخاص کرحق ِآزادی کی خواہش وجدوجہدکوجتنا بھی دبانے کی کوشش کی جائے گی،تووہ خواہش اُتنی ہی شدت سے اُبھرے گی۔

ویسے توکشمیریوں نے غاصبانہ قبضے کے بعدمسلسل قبربانیوں اورشہادتوں کے ذریعہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ہرحال میں جدوجہدجاری رکھی۔لیکن برھان وانی کی شہادت کے بعد خاص کر نوجوانوں، حتی کہ سکول وکالج کی طالبات،ماؤں،بہنوں،بیٹیوں،بچوں،بڑے ، بوڑھوں کے اندرایک نیا جوش و لولہ دیکھنے میں آیا ہے۔اب یہ آواز بڑھ کرللکاربن چکی ہے۔جس کا اندازہ گزشتہ دنوں سے جاری کرفیوکے باوجودہزاروں کشمیریوں کا مسلسل احتجاج اوراپناحق آزادی حاصل کرنے کے لئے مستقبل میں مزیدقربانیوں کے لئے تیاررہنے کے عزم اورحوصلے کا اظہارہے۔

بھارت کے اس غیرمنصفانہ اقدام کودُنیا بھرمیں عوامی سطح پرناپسندیدگی کی نظرسے دیکھا جارہا ہے،مختلف ممالک میں عوام کی طرف سے اس غیرمنصافانہ اقدام کے خلاف ریلیاں،جلوس،تقاریر،بینرزسمیت سوشل میڈیا پر بھرپورطریقے سے مخالفت کی جارہی ہے۔مگرکشمیری مسلمانوں کے ساتھ جاری اس درندگی ، ظلم اور بربریت کے خلاف مسلمان ممالک کے سربراہان کی طرف سے مناسب طریقے سے احتجاج تودور کی بات ہے،مناسب الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی جارہی،بلکہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہونے مسلسل مظالم پر مسلمان ممالک نے دانستہ طورپر خاموشی ،مصلحت پسندی اور بے حسی کی انتہا کردی ہے۔
حالانکہ دنیائے اسلام کے تمام مسلمانوں کو جسم واحد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کہ جیسے جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر دُنیاکے کسی حصہ میں کسی کومسلمان کوکو ئی تکلیف پہنچے تو ہر مسلمان کو اپنے بھائی کے لئے بے چین ہوجانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن آج ہر کوئی اپنے کردار کا بخوبی اندازہ لگا سکتاہے۔ ہم تو وہ بدنصیب قوم ہیں جن کے حکمران جو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مارے جانے پربے بس دکھائی دیتے ہیں۔دیگرمسلمان ممالک بھی خود فریبی میں مبتلا ہوکر دُنیا کی محبت اور چا ہ میں اپنے اسلاف کا کردار، وقار اورپہچان گم کربیٹھے ہیں،شاندارماضی اور آخرت سب کچھ بھلادیا ہے۔

احکامات الہی سے غفلت، لالچ اور حب ِ دنیا نے مسلمانوں کو کمزور اور بے بس کردیا ہے،جبکہ غیرمسلم اسلام کی مخالفت میں سخت اور دلیر ہوتے جارہے ہیں۔ ہم بجائے ایک امت کے ذاتی مفاداور اغراض کا شکار ہو کررہ گئے ہیں اور پورے عالم میں صرف مسلمان ہی انتشار،بدامنی، خانہ جنگی اور غیر مسلموں کے عتاب کا شکار ہیں۔آج پوری اُمت مسلمہ میں ایک بھی صلاح الدین ایوبی جیسا نہیں،جو اﷲ سے ڈرنے والا اورصاحب کردارہو جو مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار دوبارہ واپس دلا سکے اورجوپوری دُنیامیں پھیلے مسلمانوں کی نمائیندگی کرتے ہوئے ،کشمیر سمیت دنیا بھرمیں بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم وجبراور قتل ِ عام کے خلاف آواز اُٹھا سکے۔
تم شہر امان کے رہنے والے، دردہمارا کیا جانو
ساحل کی ہوا،تم موج صبا،طوفان کا دھارا کیا جانو
آغاز سفر ایمان ویقین،انجام عمل اک شام حسین
بن دیکھے حسن کی منزل کو،یہ رشتہ پیاراکیا جانو
رستہ ہی یہاں خودمنزل ہے،ٹھوکرہی یہاں اک حاصل ہے
اے سود وزیاں گننے والو! کس نے ہے پکاراکیا جانو
ان راہوں میں فردوس بریں،ان گلیوں میں جنت کے مکیں
ان تیکھے الجھے رستوں میں،ہیں کون صف آراکیا جانو
سمجھے ہیں جسے گلزارسبھی،اک آگ ہے عصرحاضرکی
تمہیدسے تم گزرے ہی نہیں،اب قصہ سارا کیاجانو

افسوس کشمیر میں معصوم بچوں، عورتوں،سکول وکالج کی طالبات کوبے رحمی اوربے دردی سے قتل کیا جائے رہاہے،جوانوں کواغوا کے بعد بہیمانہ تشددکانشانہ بنایا اورشہیدکیا جارہاہے اوراُمت مسلمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اسلامی ممالک کونہتے کشمیریوں پرعرصہ دراز سے جاری ظلم وستم کے خلاف اپنا کرداراداکرنے میں مصلحت کی بجائے کھل کرکشمیریوں کی حمایت وتائیدکرنے ہوگی اوراپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔ کب تک غفلت کی نیند؟آخرکب تک یہ بے حسی اور خاموشی طاری رہے گی؟

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادپاک کامفہوم ہے۔کہ جو شخص ایسے وقت میں مسلمان کی مدد نہ کرے کہ اُس کی آبروریزی ہو رہی ہوتو اﷲ جل شانہ،اس کی مدد سے ایسے وقت میں اعراض فرماتے ہیں جبکہ وہ مدد کا محتاج ہو۔
 

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 82848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.