میرے گاؤں کی وہ حسین راتیں

ہم چونکہ کراچی میں رہائش پزیر ہیں لیکن ہمارا آبائی علاقہ کوٹلی نکیال آزاد کشمیر سے ہے ۔شہرمیں رہنے والے لوگ بہت سے قدرتی مناظر سے محروم رہتے ہیں ۔آسائش اور سہولت کے لبادہ اوڑے یہ مخلوق زندگی کے کئی حسین اور دلنشین احساسات سے یکسر محروم رہتے ہیں ۔خیر !!!!!!!!!!!

میں آپ کو اپنی بات بتاتاہوں ۔ہم جون جولائی میں اسکول کی چھٹیوں میں کشمیر جایا کرتے تھے ۔بہت پیار موسم ہوتا تھا کشمیر کا۔کشمیر کے مکانات کا شاید آپ کو اندازہ ہو۔وہ چھتیں لکڑی( جسے ہمارے کشمیر میں بالے اور کڑیاں کہا جاتا ہے )کی ہوتی ہیں ۔دادی جان اور ہم چارپائی چھٹ پر لگاتے تھے ۔اور پوری پوری رات میں اور میرا چھوٹا بھائی مسعود جو کہ ابھی دوبئی میں ہیں ۔تارے گنتے رہتے تھے۔ہمیں ہمارے کزن نے بتایا کہ جو آسمان کے تارے گن لیتاہے اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے ۔لو جی گنتی شروع۔۔ابھی ایک طرف سے گنناشروع ہوتے تو تارے آگے پیچھے ہوجاتے ۔تھک ہار کے آسمان کو دیکھ دیکھ کر محظوظ ہوتے ۔کیوں کہ شہر میں آسمان کی بجائے سامنے والوں کی بلڈنگ یہ فلیٹ سے لٹکے دھلے ہوئے کپڑے یا پھر مالک مکان کی چھت ہی نظر آتی ہے ۔
محترم قارئین !اتنے میں کیا دیکھتے کہ کشمیر کی تاریک راتوں میں ایک روشنی نمودار ہوتی جسے دیکھ کر بند آنکھیں بھی کھُل جاتی ۔اور ہم بھائیوں میں پھر کھسر پھسر شروع۔۔بھائی وہ دیکھو۔۔ابھے وہ دیکھ ۔۔ایک بلب نہیں بلکہ کئی بلکہ ان پہاڑوں پر روشن ہوجاتے ۔درختوں کے جھرمٹ میں یہ اچانک نمودار ہونے والے قمقمیں حیرت میں ڈال دیتے ۔

قارئین !یہ بلب نہیں ہوتے تھے ۔یہ قدرت کی حسین تخلیق جگنو تھے ۔جنھوں نے رات کی تاریکی میں چار سمت روشنی پھیلائی ہوئی ہوتی تھی ۔بتا نہیں سکتا وہ احساس کیااحساس ہوتا تھا۔

بات جگنو کی چلی ۔جگنوکے متعلق ہی کچھ معلوماتی باتیں کرلیتے ہیں ۔ایک کیڑا جس دم کے پاس قدرتی روشنی لگی ہوتی ہے۔ اس روشنی کی مدد سے جگنو اپنی خوراک اور اپنے جیسے دوسرے جگنوؤں کو متوجہ کرتے ہیں۔ ان کی روشنی کو ٹھنڈی روشنی کہا جاتا ہے ۔

آپ نے کبھی غور کیا کہ جگنو کے جسم کے نچلے حصے میں موجود کیمیائی مادے سے پیدا ہونے والی یہ روشنی پیلی، سبز یا ہلکے سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔اور مزے کی بات روشنی کا مرقع ٹمٹماتا جگنو 2000 سے زائد اقسام پر مشتمل ہے ۔

جگنو کے چمکنے کا عمل اس کے جسم میں پیدا ہونے والے ایک پیچیدہ کیمیائی ردعمل کا نتیجہ ہیں.جگنو کو فائر فلائی اور بیالوجی میں لوسیفیرین کہا جاتا ہے. جگنو کا پیٹ لوسیفیرین نامی کیمکل پر مشتمل جس سے یہ ہمیں چمکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔جب یہ کیمیائی اجزاء آکسیجن اور لیوسیفیریز نامی انزائم سے یکجا ہوتا ہے تو جگنو کے پیٹ کو روشن کرنے کا سبب بنتا ہے۔حیاتیات میں روشنی بائیولیومینیسینس نامی ایک کیمیائی تعامل کی وجہ سے جاندار یہ کیمیائی روشنی خارج کرتے ہیں.

آپ کبھی مشاہد ہ کیجیے گا۔ جگنو زیادہ تر زمین کے خشکی والے حصہ پر پائے جاتے ہیں. قارئین آپکو بتاتے چلیں کہ مادہ جگنو درختوں اور زمین کے اندر انڈے دیتی ہیں جہاں پیدا ہونے والا بچہ، انڈے سے لاروا اور لاروے سے جوان ہونے تک کا وقت گزارتا ہے۔ایک جگنو کی اوسط عمر دو مہینے ہوتی ہے.

ایک نر جگنو اپنے پیٹ کو ایک مخصوص شرح رفتار یا طول موج سے روشن کرتا ہے اور جب ایک مادہ جگنو کسی نر جگنو کو دیکھتی ہے تو مادہ جگنو اسی مخصوص شرح رفتار یا طول موج سے اپنی نسل کی پہچان کرتی ہے.اس کے بعد مادہ جگنو اپنے پیٹ کو روشن کر کے اس طول موج کا جواب دیتی ہے.جگنو کے پیٹ چمکانے کی دوسری وجہ جو کہ پہلی وجہ جتنی محبت اور پیار بھری نہیں ہے وہ شکار کو اپنی طرف متوجہ کرنا.

محترم قارئین !میرا آپکو مشورہ ہے آپ شہر میں رہتے ہیں تو ایک مرتبہ دیہات اور قدرتی مناظر سے بھرپور علاقہ کا سفر ضرور اختیار کیجیے گا۔آپ تخلیقِ کائنات کے شاہکار دیکھیں گئے اور بے اختیار کہہ اُٹھیں گے ۔سبحان تیری قدرت ۔کیا بتاؤں میں گاوں کی راتیں کتنی پیاری ہوتی ہیں ۔رات کی تاریکی میں اﷲ عزوجل کی ذات کی معرفت کی ایسی روشنی ملتی ہے کہ دل ودماغ منور ہوجاتے ہیں ۔ہاں سچ کہہ رہاہوں ۔تجربہ شرط ہے ۔۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542506 views i am scholar.serve the humainbeing... View More