عظیم دوست ملک چین کی وفائیں اور ہماری جفائیں

عوامی جمہوریہ چین ہمارا عظیم ہمسایہ ہی نہیں ایک وفا دار اور مشکل وقت میں کام آنے والا دوست بھی ہے ۔ اپنی آزادی کے بعد آج تک کوئی ایسا موقعہ نہیں آیا جب چین نے پاکستان کو تنہا چھوڑا ہو۔ دوسری جانب پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد چین دوستی پر رکھی گئی ہے ۔ نواز شریف کے موجودہ دور میں چین صدرنے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا 51ارب ڈالر سے آغاز کرکے نہ صرف دوستی کا حق ادا کردیاہے بلکہ پاکستان کو ایشیا کا ترقی یافتہ ملک بنانے کے عزم کااظہار کیاہے ۔ ہم چین کے اس احسان کو بھی نہیں بھول سکتے ہیں کہ امریکی کی حمایت کے باوجود اس نے بھارت ایٹمی سپلائرگروپ کا ممبر نہیں بننے دیا۔ یہ چین ہی ہے جس نے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ منسوخ کرنے کا سن کر بھارت کی پانچ ریاستوں کو سیراب کرنے والے دریابرہم پترا کے ایک معاون دریا کا پانی روک کر بھارتی حکمرانوں کو کھلا پیغام دیاہے کہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے نتائج بھارت کے لیے نقصان دہ ہوں گے ۔سی پیک منصوبے کے تحت بلوچستان میں اب تک چھ سو کلومیٹر طویل شاہرائیں تعمیر ہوچکی ہیں ۔مغربی روٹ پر بھی کام تیزی سے کام جاری ہے ۔لاہور تا کراچی براستہ کوسٹل ہائی وے گوادر تک کی رابطہ شاہراہوں پر بھی کام شرو ع ہوچکا ہے ۔اب کاشغر سے گوادر تک مواصلاتی نظام اپ گریڈ کرنے کا جو معاہدہ طے پایا ہے اس کے تحت چینی حکومت مزیدپانچ ارب کی لاگت سے نئے کیمونیکشن ٹاور کی تنصیب اور جدید کیمونیکیشن سنٹر بھی تعمیر کرے گی ۔ جس سے پاکستان مواصلاتی سسٹم کے میدان میں نہ صرف جنوبی ایشیا کا جدید ترین ملک بن جائے گا بلکہ مشرق وسطی سے بھی آگے نکل جائے گا۔جبکہ دس ہزار میگا واٹ بجلی کے پیداواری منصوبے بھی تیزی سے تکمیلی مراحل طے کررہے ہیں۔ایک طرف چین کی جانب سے پاکستان کو جدید ترین اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے کاوشیں تو دوسری جانب عمران خان کی احتجاجی اور انتشاری سیاست کے ساتھ ساتھ وزیراعلی خیبر پختوانخواہ پرویز خٹک کی زہر فشانی دوستانہ ماحول کو مسلسل خراب کررہی ہے ۔ پہلے تو وہ اخباری بیانات کے ذریعے زہر اگلتے تھے ۔ ایک دن اچانک چینی سفیر سے ملاقات کرنے پہنچ گئے ۔ انہوں نے چینی سفیر سے پوچھا کہ کیا مغربی روٹ اقتصادی راہداری کا حصہ ہے ۔چینی سفیر نے بتایا کہ وہ اقتصادی راہداری کا حصہ نہیں ہے جس پر وزیر اعظم بھڑک اٹھے اور نہایت بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چینی سفیر کو کہا اگر ایسا ہی ہے تو پھر آپ کا وہاں سے گزرنا مشکل ہوگا ۔ گویا یہ پرویز خٹک کی جانب سے کھلی دھمکی تھی ۔ اسی پر ہی اکتفا نہیں ہوا۔صوبائی اسمبلی میں باقاعدہ ایک قرار داد بھی منظورکروالی گئی ۔ پاکستان کے ازلی دشمن اور سرحدی گاندھی کے فرزند اسفند یار ولی بولے کہ اقتصادی راہداری پاک چین منصوبہ نہیں ہے بلکہ پنجاب چین منصوبہ ہے ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سرحدی گاندھی کا یہ خاندان مراعات پاکستان سے حاصل کرتا ہے اور پنجاب دشمنی کا اظہار کرکے طرفداری بھارت کی کرتا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بھارتی حکمرانوں کے ایما پر آج تک کثیر الامقاصد منصوبہ کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیااور جب بھی یہ ڈیم بنانے کی بات ہوتی ہے تو یہی مکروہ لوگ ڈیم کو بم مار کر توڑنے کااعلان کرتے ہیں۔بھارتی سنیئر صحافی کلدیپ نیئر گزشتہ دنوں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ میں خان عبدالغفار خان المعروف سرحدی گاندھی کو ملنے کے لیے کابل گیا ۔دوران ملاقات انہوں نے مجھ سے شکوہ کیا کہ جواہر لال نہرو نے مجھ سے ایک وعدہ پورا نہیں کیا ۔ کلدیپ نیئر نے پوچھا کونسا وعدہ ۔ سرحدی گاندھی نے کہا میں نے انہیں کہا تھا کہ وہ برصغیر میں پختونوں کے لیے ایک الگ ملک بنا کر دیں گے ۔ہم نے اسی وعدے کی بنا پر پاکستان کی مخالفت بھی کی تھی ۔اس بیان کی روشنی میں سوچا جاسکتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والو ں کی ڈور کہاں سے ہلتی ہے۔کلدیپ نیئر نے بھارتی عزائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے مزید لکھا کہ بھارت مکتی باہنی طرز کی تنظیم بناکر بلوچستان میں بھی مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر سے باغی بلوچوں کو چن چن کر بھارت لایاجارہاہے اور آزاد بلوچستان کا ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کر کے پروپیگنڈہ شروع کردیاگیا ہے ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت صرف ہماری سرحدوں پر فوج کھڑی کرکے ہمارے لیے مسائل پیدانہیں کررہا بلکہ اس نے اپنی خفیہ ایجنسی را کو پاکستان بطور خاص بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کرنے کے لیے بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسفند یارولی ، اچکزئی ، عمران خان اور پرویزخٹک جیسے اپنے گماشتے بھی پاکستانی سیاست میں داخل کررکھے ہیں جو بھارت کی زبان میں بات کرتے ہیں ان کی زبان سے کبھی خیر کا کوئی لفظ نہیں نکلا ۔ ان حالات میں پرویز خٹک کا چینی سفیر کو دھمکی دینا ، اسفند یار ولی کا پاک چین منصوبے کو پنجاب چین منصوبہ قرار دینا اور عمران خان کا وفاقی دارالحکومت بند کرنا کن عزائم کی عکاسی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوست ملک چین کو ناراض کر کے پاکستان کو تنہا اور خوشحالی کے تمام راستے مسدود کرنا چاہتے ہیں۔اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرکے بھارت کی عسکری ، آبی اور تخریبی جارحیت کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ یاد رہے کہ دس سالوں میں دو بڑے ڈیم ، نصف درجن ہیڈورکس اور دنیا کا بہترین نہری نظام تعمیر کرنے والا پاکستان انہی ملک دشمن عناصر کی وجہ سے46 سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا سکا اور ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکارہوتاہے ۔ پہلے سرحدی گاندھی کا خاندان، اب عمران خان اور اس کے حواری بھی ملک میں انتشار پیداکرکے بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جو نہیں چاہتے کہ کالا باغ ڈیم بنے اور پاک چین اقتصادی راہداری پایہ تکمیل کوپہنچے ۔ پرویز خٹک کی چینی سفیر سے ملاقات اور کھلی دھمکی کا اگر فوری نوٹس نہ لیاگیا تو آگے چل کر یہ عناصر پاک چین دوستی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 661625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.