بوسنیا سے تعلق رکھنے والے Zarko Hrgic گزشتہ 10 سالوں سے
Zenica کے قصبے کے نزدیک واقع دریا کے کنارے موجود ایک غار میں زندگی گزار
رہے ہیں اور اب وہ 65 سال کی عمر کو پہنچنے کا انتظار کر رہے تاکہ وہ اپنی
پینشن سے اپنا یہ طرزِ زندگی تبدیل کرسکیں-
62 سالہ Zarko نوجوانی میں Zenica میں واقع ایک اسٹیکل کے کارخانے میں
ملازمت کرتے تھے لیکن 30 سال قبل شادی میں ناکامی کے بعد قسمت آزمانے کے
لیے جرمنی جاپہنچے اور کئی سال معمولی نوکریاں کرتے رہے-
|
|
لیکن 10 سال قبل جرمنی نے ان کی ملازمتوں اور رہائش کو غیرقانونی قرار دیتے
ہوئے انہیں واپس بوسنیا ڈی پورٹ کردیا- بدقسمتی سے Zarko کا بوسنیا میں
موجود اپارٹمنٹ 1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران تباہ ہوچکا
تھا جبکہ ان کے پاس نہ ہی نیا گھر خریدنے کے لیے رقم تھی اور نہ کوئی ان کی
مدد کو تیار تھا-
تب Zarko نے Babina دریا کے کنارے موجود ایک غار میں رہائش اختیار کرلی اور
انہیں یہاں رہتے ہوئے 10 سال کا عرصہ بیت چکا ہے- Zarko اپنے لیے غذا کا
انتظام کچرے میں سے کھانا چن کرتے ہیں اور بچ جانے والا کھانا عطیہ کردیتے
ہیں-
Zarko نے کبھی بھی حکومت سے مدد کی درخواست نہیں کی کیونکہ وہ خود کو اس کا
حقدار نہیں سمجھتے- Zarko کے مطابق اگرچہ یہ سب جدید دور سے مطابقت نہیں
رکھتا لیکن اس کے پھر بھی بہت سے فوائد ہیں-
Zarko کا کہنا ہے کہ “ یہ غار مجھے باہر کے موسم کی سختی سے محفوظ رکھتا ہے-
منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ کی سردی میں بھی مجھے یہاں کوئی ٹھنڈ محسوس نہیں
ہوتی اور میں صرف آگ کافی بنانے اور کھانا گرم کرنے کے لیے جلاتا ہوں“-
|
|
“ اس کے علاوہ گرمیوں میں بھی یہ مقام ٹھنڈا رہتا ہے کیونکہ سورج کی تپش
غار کے اندر تک نہیں پہنچ پاتی- یہ مقام ایک گھر کی مانند ہی ہے ورنہ یہاں
طویل عرصہ تک رہنا آسان نہیں ہوتا“-
بعض اوقات Zarko اپنے پیسوں سے بھی کھانا خریدتے ہیں اور وہ یہ رقم مقامی
افراد کے لیے لکڑیاں کاٹ کر جمع کرتے ہیں- تنہا رہنے والے Zarko کی دوستی
صرف ان آوارہ کتوں سے ہے جنہیں وہ روزانہ کچھ نہ کچھ خوراک فراہم کرتے ہیں-
تاہم Zarko کو شدت سے اس وقت کا انتظار ہے جب انہیں جرمنی اور بوسنیا دونوں
ممالک سے پینشن حاصل ہوگی اور وہ اپنی رہائش کا ایک بہترین انتظام کرسکیں
گے- لیکن اس انتظار کے ختم ہونے میں ابھی 3 سال کا عرصہ باقی ہے- |