ہماری نوجوان نسل۔۔۔۔لمحہِ فکریہ

موجودہ زمانے میں جہا ں مشینری نے بہت ساری چیزوں اور افراد ی قوت کے بہت سے کاموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا وہیں انسانی روایات، رسومات، طوراطواراور عادات و سکنات پر بھی گہرے نقوش مرتب کئے ہیں۔ ان میں کچھ تو مثبت ہیں اور کچھ منفی ۔ لیکن اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو ہم نے اس مشینری سے منافعت سے زیادہ منفیت کوپروان چڑھایا ہے۔بقول علامہ اقبال ؒ:
ہے مشینوں کی حکومت دِل کے لئے موت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اس تمہید کا مقصد پچھلے کئی دنوں سے باربار کیا جانے والا ایک پریشان کن اور خوفناک جائزہ ہے جس کی گرفت خصوصاًہماری نوجوان نسل پر بہت مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جس سے اخلاقی و معاشرتی بگاڑ کے ساتھ ساتھ ہماراعائلی نظام بہت متاثر ہوتاچلاجارہاہے۔

رات کھانے کے بعد اکثر فیملی کے ساتھ کالونی کے قریبی پارک میں جانا ہوتا ہے اور ہربار ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ نوجوان چہل قدمی یا ورزش کرنے کے بجائے مختلف، نسبتا کم روشنی والی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کانوں میں ”ٹوٹیاں“ لگائے بیٹھے لیٹے یا درخت کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑے ہوتے ہیں۔نہ سنائی دینے والی بہت ہی دھیمے لہجے میں بات ہورہی ہوتی ہے اور ایسے بیشتر نوجوان پارک کے کونے کھدروں میں محو گفتگو نظر آتے ہیں۔

بے حد افسوس تب ہوا جب ایک بینچ پر کوئی تیرہ،چودہ سال کے چھوٹے سے بچے کو فون پر بات کرتے دیکھا۔وہ شکل سے بمشکل ساتویں، آٹھویں کا بچہ معلوم ہوتا تھا۔میں نے واک کے اگلے چکر میں اس کے قریب سے گذرتے ہوئے اپنی رفتار قدرے کم کر لی اور یہ جان کر چونک گیا کہ وہ باتوں میں مونث کا صیغہ استعمال کررہا ہے اور رومانوی قصے کہانیاں جاری ہیں۔مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا چھوٹا بچہ کس ”بچی“سے بات کررہا ہے۔ اور یقینا وہ بچی بھی اسی بچے کی قریب العمر ہو گی۔ ذرا اک لمحے کے لئے سوچئے کہ یہ بچے آنے والے دور میں کیاطوفان برپا کر یں گے؟

کافی تشویش اور حیرانگی میں مبتلامیں نے اگلے کئی روزواک کے دوران علاقے کے مختلف پارکس کا مشاہدہ کیا اور حیرت وملال میں ڈوب گیا۔ کئی چھوٹی عمر کے بچے ٹولیوں کی شکل میں ایک لڑکے کے گرد بیٹھے ہوتے اور وہ ”محبت کا پیکر“ لاؤڈ سپیکر سے دوسرے ہم عمر بچوں کو ”دوشیزہ“کی آواز اور باتوں سے لطف اندوز کر رہا ہوتا اور دوسرے لڑکے بھی،اس لڑکے کے کان میں سوالات ڈالتے اور وہ جوابات کے لئے آگے پیش کر دیتا۔

جوچیز کافی عام مشاہد ے میں آئی وہ یہ تھی کہ ایک لڑکا لڑکی سے بات کرتا اور وہ ہینڈ فری کی ایک”ٹوٹی“ اپنے کان میں اور دوسری اپنے دوست کے کان میں ٹھونس دیتا اور یہ سلسلہ گھنٹوں چلتا۔ا سی مشاہدے کے دوران کچھ لڑکیوں کو اپنی سہیلوں یا چھوٹے بچوں کے ساتھ پارک میں بھی دیکھا گیاجہاں پہلے ہی سے”مجنوں“ موجود ہوتے تھے جو کوئی مناسب موقع پا کر اکھٹے ہو جاتے اور بات چیت کے علاوہ چیزوں کا تبادلہ بھی کرتے۔

کاش ہماری بہنوں، بیٹیوں کو یہ بات سمجھ آجائے کہ یہ باتیں لذت کے لئے کی جاتی ہیں محبت کے لئے نہیں۔
اس دکھ آمیزصورتحال کا ذمہ دار کون ؟۔۔۔۔ قصور وار کون ہے۔۔۔۔۔؟
ہمارا بے لگام میڈیا۔۔۔۔۔۔؟
والدین کی عدم توجہ۔۔۔؟
اساتذہ کا اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہ ہونا۔۔۔۔؟
موبائل کمپنیوں کی بدمعاشیاں۔۔۔۔؟
حکمرانوں کا آنکھوں پر پٹی باندھ لینا۔۔۔۔؟
غیرمنصفانہ عدالتی نظام، یا کوئی اور۔۔۔۔؟
میں وثوق سے کہتا ہوں کہ تمام عوامل ایک طرف لیکن اس بگاڑ میں والدین اور اساتذہ کی مجرمانہ غفلت قابل ذکر ہے۔

افسوس سے کہتا ہوں کہ آج کا استاد بچے کو کتابیں تو رٹوا دیتا ہے۔ لیکن اچھا ئی برائی میں تمیز نہیں سکھاتا ماں، باپ بھی نمبروں اور سٹیٹس کی دوڑ میں بچے کے سکول، اساتذہ اور ماحول کے چناؤ میں غفلت برتتے ہیں۔بچے اچھے نمبر لینا تو سیکھ جاتے ہیں۔ لیکن بہتر زندگی گزرنا نہیں سیکھتے۔ پوزیشن ہولڈر تو بن جاتے ہیں لیکن اچھا انسان بننے سے قاصر رہتے ہیں۔

آج وقت ہے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ آگ ہمارے اپنے گھروں تک بھی پہنچ کر ہمیں خاکستر کر دے۔ اور ہم خواب غفلت کی نیند سوتے رہ جائیں۔
ابھی تم طِفل مکتب ہو سنبھا لو اپنے دامن کو
یہ طوطے کچی فصلوں کا بڑا نقصان کرتے ہیں

Zafar Ullah Zahid
About the Author: Zafar Ullah Zahid Read More Articles by Zafar Ullah Zahid: 3 Articles with 3541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.