افسانہ: اندھیرا

بیٹا میری طبیعت ٹھیک نہیں آج کہانی سُنے بغیر سو جاؤ۔ محمد کی پلکوں کو نیند کی شہزادیوں نے اپنے بانہوں میں لے لیا تھا۔ وہ ایک دم سے چارپائی میں بیٹھ کے رونے لگا، میں حیران ہو گیا کہ پتہ نہیں کیا ہوگیا کہنے لگا بابا تم جس دن مجھے کہانی سُنائے بغیر سُلا دیتے ہو نا اُس دن امی سپنے میں آتی ہے اور رو کر کہتی ہے بیٹا ابو کے ساتھ ضد نہیں کرتے وہ ہم سب سے بہت پیار کرتے ہیں ، اُس کو خوش رکھنا ورنہ امی اپنے پیارے محمد سے ناراض ہو جائے گی۔ بابا امی مجھے کہتی ہے کہ جس کا نام محمد ہو وہ شکوہ نہیں کرتے۔ کیونکہ محمد ﷺ کائنات کا نام ہے ۔ ا للہ کے محبوب ہے۔ میں پوچھنے لگا امی محمدﷺ کون ہے۔ اُس نے کہا اپنے بابا سے پوچھو اور پھر چلی گئی۔ بابا محمدﷺ کون ہے؟ میں نے اپنے محمد کو گلے لگایا اور رونے لگا محمد خاموشی سے آسمان میں چمکتے ستاروں کی طرف دیکھنے لگا وہ سہما ہوا تھا۔ میں اُس کے ماتھے کو چھوم کر کہا کہ بیٹا ! محمدﷺ کائنات کا نام ہے۔ اللہ کے محبوب ہے۔ وہ مجھ سے لپٹ گیا شائد اُس کو امی کا جواب یاد آگیا۔ میں نے اپنے محمد کے مجھ سے بے ساختگی سے لپٹنے میں ایک کائناتی خوشی محسوس کی ۔ اب مکمل سناٹا چھا گیا تھا اور دور کُتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھی۔ محمد نے ایک آدھ کُھلی آنکھ سے میری طرف دیکھ کر کہا بابا دادی کہتی ہے کہ یہ کائنات اللہ نے محمد ﷺ کی محبت میں سجائی ہے۔ اللہ اپنی محبت کے لئے اتنا سب کچھ کر سکتا ہے تم اپنے محمد کے لئے ایک کہانی بھی نہیں سُنا سکتے؟؟

یہ سُن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے اللہ کے محمد ﷺ کو سوچ کر اپنے محمد کو پھر سے گلے لگایا اور وہ ہمیشہ کی طرح سہما ہوا تھا۔ میں نے کیا کیا سُننا پسند کروگے میرے محمد۔ وہ معصوم اور سہمے ہوئے لبوں سے کہنے لگا بابا، ماما کے اللہ کو پیارے ہونے کے بعد آپ خاموش سے رہتے ہیں۔ دادی کہتی ہے پُتر جب سے تمہاری امی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے ہمیں نظر لگی ہے ہم سے خوشیاں روٹھ گئی ہیں۔ بابا تم امی کے قبر پر شام کے اندھیرے میں کیوں جاتے ہو؟ اور جب بھی واپسی ہوتی ہے تو آپ کی آنکھیں سُرخ ہوتی ہیں۔ ابو کاش میرا کوئی بھائی یا بہن ہوتی ، تو جب تم امی سے ملنے شام کو قبرستان جاتے ہو تو مجھے ڈر لگتا ہے کیونکہ تم بہت دیر سے آتے ہو اور مجھے دادی کے ساتھ سونے کی عادت نہیں۔ دادی کہتی ہے تمہارے ابو جب سے امی کی موت ہوئی ہے وہ روز شام کو قبرستان جاتے ہیں اور فجر آذان کے بعد آتے ہیں تمہارے ساتھ سو جاتے ہیں۔ میں رو رہا تھا کیونکہ محمد اپنے معصوم دل میں چھُپے دہکتی باتوں کو آگ کے شعلوں کی طرح برسا رہا تھا۔ لمبی سانس لینے کے بعد بولا تم نے بتایا نہیں کہ تم امی سے ملنے شام کو کیوں جاتے ہو؟

بیٹا جب تمہارے امی کے ہمارے ساتھ آخری دن تھے تو جب اُس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا تھا اور ساتھ بستر میں بیٹھ جایا کرتا تھا نرسسز اور ڈاکٹر ز روز مجھے ڈانٹتے تھے کہ تمہاری بیوی کو ایسی بیماری ہے کہ کوئی اُس کو چھُو نہیں سکتا اور یہ بیماری دنیا میں بہت کم لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ تو میں مُسکرا کر کہتا تھا ڈاکٹر صاحب میری بیوی کی بیماری بھی کمال کی ہے ، یہ سُن کر سب حیران ہو جاتے تھے۔ تو میں کہتا تھا کہ میری بیوی جیسی کوئی نہیں ہے بالکل اپنی انوکھی بیماری کی طرح ، مجھے ڈر نہیں لگتا بیماری سے پلیز آپ لوگ چلے جائیں ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔ بیٹا تو تمہاری امی ہنس کر مجھے کہُنی مار تی تھی کہتی تھی مقصود تم مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو تو میں شرارت سے کہا کرتا تھا مجھے کیا معلوم تھا کہ محبت کیا بلا ہے یہ سب تمہارا کرم ہے مخترمہ اب بھگتو تم تو میری مُرشد ہم مُرید ، وہ آگے سے کہتی تھی میں تم سے باتوں میں کبھی نہیں جیت پائی یہ افسوس رہے گا مجھے میاں۔ بیٹا مرنے سے ایک دن پہلے مغرب آذان سے پہلے معمول سے زیادہ اندھیرا تھا کہنے لگی مقصود ہماری شادی کو پچھلے مہینے دو سال پورے ہوگئے ہیں اور ان دو سالوں میں تم نے صرف دو دن گھر سے باہر گزارے ہیں۔ تم ایک دفعہ اگر پاکستان میں ہوتے تو ہر صورت تم رات کو گھر پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔ بیٹا تمہاری امی نے میرے ہاتھ کو زور سے دبا کر کہا مقصود مجھے بہت ڈر لگتا ہے اندھیرے سے ، میری اللہ سے التجاء ہے کہ مجھ سے دن کے روشنی میں روح قبض کریں۔ پھر کہا کہ تم نے مجھے قبر کی اندھیرے میں چھوڑنا نہیں پہلے کچھ دنوں کیونکہ مجھے ڈر لگے گا پھر عادت ہو جائے گی ۔ اللہ کا کرنا دیکھو کہ وہ فجر کی آذان کے بعد صبح کی روشنی میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔ بیٹا میں اس لئے شام کے اندھیرے میں تمہاری امی سے ملنے جاتا ہوں کہ تمہاری امی کو اندھیرے سے ڈر لگتا تھا او ر جب صبح کی آذان ہو جاتی ہے تو میں صبح کی روشنی میں واپس آجاتا ہوں۔ اور آنکھیں سُرخ اس لئے ہوتی ہیں کہ نہ وہ سپنوں میں آتی ہے اور نہ مجھ سے قبرستان میں بات کرتی ہے بس وہ مجھے خاموشی سے سُن رہی ہوتی ہے ۔ بیٹا وہ مجھ سے ہمیشہ اس بات پر ناراض ہوا کرتی تھی کہ میں اُس کو بولنے کا موقع نہیں دیتا تھا ۔ اب بس صرف مجھے سُنتی ہے جواب بھی نہیں دیتی شائد ناراض ہے محمد تم اس مرتبہ ماما سے پوچھ لینا کہ بابا سے ناراض تو نہیں ہو؟ محمد نے نیند بھری لہجے میں پوچھا ، بابا!! آپ کو قبرستان سے ڈر نہیں لگتا ہاں بابا تم رات کو سو جایا کرو تو امی سپنوں میں آئے گی ، مجھتم تو رات کو سوتے نہیں تو کیسے آئے، مجھے تو رات کو سپنوں میں آتی ہے میری ماما۔ میں نے کہا بیٹا جب کوئی اپنا مر جاتا ہے نا تو قبرستان میں اندھیروں سے ڈر نہیں لگتا ۔ اسی اثنا صبح کی آذان بھی ہوگئی تب تک محمد گہری نیند سو چکا تھا۔ مجھے چھوڑ دیا صبح کی روشنی میں اپنی ما ں کی طرح۔

Johar Altaf
About the Author: Johar Altaf Read More Articles by Johar Altaf: 5 Articles with 6511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.