"رازِ نواز"اور" روحِ بھٹو"

نوازشریف صاحب کا حالیہ بیان کے ان کے پاس کچھ راز ہیں جن کو وہ اگر افشاں کردیں توپاکستان کی سیاست میں بھونچال آجائے گا،میاں نوازشریف کا حقائق اور اہم راز سامنے لانے کا بیان ان کی زہنی حالت کی مکمل عکاسی کرتاہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پرائم منسٹر کے عہدے پر تین مرتبہ رہ چکے ہیں اور پرائم منسٹر کے عہدے کے حلف میں جو عہدہ سنبھالنے پر لیا جاتاہے اس میں واضح طور پر لکھا ہوتاہے کہ آپ سرکاری راز کو افشاں نہیں کرینگے ،لہذا اگر وہ سرکاری حیثیت میں حاصل کردہ معلومات کو باہر نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں توانہیں اس حلف کے حوالے سے قانونی طور پرذمہ دار ٹھرایا جاسکتاہے ،اس کے علاوہ ایسا کونسا ایسا راز ہے جو صرف انہیں پتہ ہے اور کسی معلوم نہیں ہے اگر وہ راز ان کے سیاسی حریف عمران خان سے متعلق ہیں تو ان ہی کے کہنے پر ان کے بہت سے مداح سراہ پہلے ہی سرتوڑ کوششیں کرکے بیٹھ چکے ہیں جن کی کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے عمران خان کو نااہل کروادیں مگر کوئی ایسا ثبوت عدالت میں نہ پیش کرسکیں جس سے وہ ثابت کرسکتے کہ عمران خان صادق وامین نہیں ہیں یاپھر انہوں نے ملکی خزانے کے ساتھ بے باقاعدگی کی ہے ،ویسے سیاستدانوں کے پاس بہت سی اطلاعات تو ہوتی ہی ہیں اور اس قسم کی باتیں ہر سیاستدان کو کچھ نہ کچھ پتہ ہوتی ہیں ۔ مگر نوازشریف صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیارہی نہیں ہیں کہ وہ اب وزیراعظم نہیں رہے ہیں! لہذا اب ان کا رویہ اس قسم کا ہے اگر میں وزیراعظم نہیں ہوں توپھرکسی کو بھی اس ملک میں چلنے نہیں دونگااپنے بھائی کو نواز لیگ کا آئندہ و زیراعظم نامزد توکردیا ہے مگر دل پر پتھر رکھ کر، کیونکہ میاں نوازشریف کی سیاسی مجبوریاں اب کسی سے کوئی ڈھکی چھپی تو ہیں نہیں اور اب وہ اس قسم کی محاز آرائیوں کی افواہیں پھیلا کر اپنے بھائی کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایک بات یہ بھی سوچنے والی ہے کی وفاق میں تو ابھی بھی ان ہی کی حکومت ہے اور پنجاب بھی انہیں کے پاس ہے لہذا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کب اور کہاں کس کے خلاف راز اگلنے والے ہیں ! خدشہ تو یہ ہے کہ وہ ایک بارپھر سے اقتدار میں آنے کے لیے کوئی غلط راستہ اختیارکرنے کی کوشش کرینگے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کے لیے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہوگا۔ دوسری جانب انہیں یہ بھی خدشہ ہے کہ اکاونٹبلیٹی کورٹ کا فیصلہ بھی ان کے خلاف ہی آنے والا ہے جس سے ان کے ایک بار پھر سے وزیراعظم بننے کی کوششوں کے امکانات مکمل ہی ختم نہ ہوجائیں۔لہذا ان کی محاز آرائی کی سیاست تو یہ ہی بتاتی ہیں کہ وہ اقتدار تک واپس آنے کے لیے بری طرح بے چین دکھائی دیتے ہیں ،ہوسکتا ہے کہ ان کے راز سے ملکی سیاست کوکوئی فرق نہ پڑے مگر ان کی موجودہ حرکتیں ضرور اس ملک میں الیکشن سے قبل کوئی نہ کوئی چاند چڑھاسکتی ہیں ۔ دیکھا جائے تو ایک طرف وہ اپنے بھائی کو وزیراعظم دیکھنے کے حق میں نہیں ہیں تو دوسری جانب انہیں ایک اور بڑا خطرہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ہے جنھیں وہ پہلے ہی ہلکا لے کر دل پر بھاری بوجھ لے بیٹھے ہیں، ہم نے دیکھا کہ اس وقت جب امریکا پاکستان کو کھلے عام دھمکیاں دے رہاہے تو ایسے میں میاں صاحب اپنے ہی ملک کے خلاف راز اگلنے کی باتیں کرکے پاکستانی عوام کے غم وغصے کو مزید بڑھارہے ہیں کیونکہ انہیں ایسے وقت میں اس قسم کے بیانات نہیں دینے چاہیے جبکہ دوسری طرف عمران خان کی جانب سے جس انداز میں امریکا کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں پر دوٹوک موٖقف اختیار کیا گیاہے اسے عوام میں کافی پزیرائی ملی ہے اس کے علاوہ موجودہ وزیراعظم اور وزیرخارجہ امریکا کی خوشنودی پھر سے بحال کروانے میں مصروف ہیں ، جبکہ عمران خان کے موقف نے عوامی پزیرائی حاصل کرکے اپنی سیاسی حیثیت کو مزید مظبوط کرلیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کی بوسیدہ سوچ اب کھل کرعیاں ہوتی جارہی ہے ۔ اس ملک میں ایک اور لیڈر بھی موجود ہیں جو خود کو بلاوجہ ہی سب سے اہم تصور کرتے ہیں اور وہ ہیں جناب آصف علی زرداری جن کا ماننا ہے کہ ان کے اندر زوالفقارعلی بھٹو کی روح حلول کرگئی ہے ، گزشتہ دنوں زوالفقارعلی بھٹوکی یوم پیدائش پروہ بڑے پرجوش دکھائی دیئے اور دوران تقریر انہیں یہ محسوس ہوا کہ جیسے ان کے اندر زوالفقار علی بھٹو کی روح داخل ہوچکی ہے ایسے موقع پر انہوں نے فوراً ہی عوام کو بتادیا کہ اب وہ جسمانی طور پرآصف علی زرداری ہیں مگر ان کے اندر جو روح ہے وہ زوالفقارعلی بھٹو کی ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک کے روایتی سیاستدانوں نے اس میں بسنے والی عوام کو اس ہی قسم کی حرکتوں سے بے وقوف بناکرہمیشہ اقتدار بنایا ہے، پاکستان کی سا لمیت سے زیادہ خود کو مقدم سمجھنے والے ان لوگوں نے نہ تو پہلے اس ملک کی عوام کے لیے کچھ کیا اور نہ ہی ان سے آگے کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے ، کئی کئی بار حکومتیں بنانے والے یہ سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے قومی وسائل اور خزانے پر بس ان ہی کا حق ہے اور یہ کہ اس ملک کی عوام ان کے غلام ہیں ،میں سمجھتا ہوں کہ شریف خاندان اب اس بات کو زہن نشین کرلیں کہ وہ ایک بار پھر سے پورے ملک میں حکومت بنانے کا خواب پورا کرلینگے اس کے برعکس اب وہ اس سزا کو بھگتنے کی تیاری کریں جن کے گناہوں کی تلوار ان کی گردن پر لٹک رہی ہے دوسری جانب پیپلزپارٹی کہ وہ بڑے رہنما جن کی کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں نے اب سندھ میں بھی ان کی سیاسی حیثیت کومشکوک بنادیا ہے لہذا اب وہ بھی اب اپنا رخت سفر باندھ لیں کیونکہ انہوں نے بھی کئی دہائیوں سے اقتدار حاصل کرنے کا جو طریقہ اختیار کررکھا ہے وہ اس بار نہیں چلنے والاکیونکہ ان کی ناکام کوششوں کا راستہ اب وزیراعظم ہاؤس نہیں بلکہ اس ملک جیلوں کی طرف جاتا ہے۔
 

Halem Adil Sheikh
About the Author: Halem Adil Sheikh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.