کراچی کی گٹر سیاست

جیسا کہ ہماری تحریر کے عنوان سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بات کراچی میں پھیلی گندگی اور گٹر کے متعلق ہے جس پر کبھی گٹر کے ڈھکن تو کبھی سیوریج اور صاف صفائی میں معتبر لوگ سندھ حکومت کی دھجیاں اڑانے پہنچ جاتے ہیں جو صرف اپنا سیاسی قد بڑھانے کیلئے سندھ گورنمنٹ پر بے تحاشہ الزامات اور ان کو قانون اور ذمہ داری سمجھانے لگ جاتے ہیں۔پاکستان کے ہر شہر کا بنیادی مسئلہ گندگی ہے ۔اور گندگی سے سب سے زیادہ متاثرہ شہر 'شہر قائد ہے 'اڑھائی کروڑ سے زائد کی آبادی کا یہ شہر منی پاکستان کہلاتا ہے۔پورے پاکستان سے روزگار کی خاطر لوگ شہر قائد کا رُخ کرتے ہیں اور پھر یہاں بسنے والے لوگ شہر قائدکی دامن کو گندہ کرتے ہیں اور پھر جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں کا رونا روتے ہیں ۔شہرقائد میں لوگوں نے سڑکوں اور روڈز کو کچرا کنڈی سمجھ لیا ہے۔صبح کے وقت کام پر جاتے لوگ اپنے گھر کا کچرا روڈ کے کنارے پھینک کے چلے جاتے ہیں اور یہ نیک کام وہ صبح کام پے جاتے وقت انجام دیتے ہیں۔اگر آپ ایسے لوگوں کو ایک دفعہ دیکھ لیں تو یقین نہیں آئے گا کیونکہ دیکھنے میں یہ لوگ بڑے مہذب دیکھائی دیتے ہیں ۔روڈز پہ بنے ریسٹورینٹ کا کچرا بھی روڈ پہ دکھائی دے گا ۔

2018 جسے الیکشن کاسال کہا جا رہا ہے بھی اور نہیں بھی ....؟ خیر جو ہوگا وقت آنے پر پتہ چل جائے گا مگر نئے سال کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے لئے جوق در جوق مشکلات میں اضافہ بڑھتا ہی جارہا ہے اور وہ مشکلات کوئی نئی یا آسمانی نہیں بلکہ اسی زمین اور اسی سسٹم کے وہ معزز شہری ہے جو بیٹھے تو عوام کی خدمت کرنے کے غرض سے ہیں مگر اس خدمت کا تعلق تکلیف اور ذلت کے بعد شروع ہوتاہے ۔ کراچی میںدن بہ دن صفائی کی بدترین صورتحال کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ سیوریج لائنوں سے نکلتا گندا پانی سڑکوں اور مین شاہراہوں پر نظر آناشروع ہوگیا ہے جس کی بڑی وجہ کراچی میونسپل کارپوریشن،ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ،واٹر بورڈ اورایڈمنسٹریشن کی نااہلی ثابت ہوتی ہے ۔اگر ان اداروں میں بیٹھے سرکاری افراد کی بات کی جائے تو کراچی کا ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ ان اداروں سمیت کراچی کے ٹاپ ٹین اداروں میں قائم لوگ ایم کیو ایم کے یا تو حلف یافتہ کارکن ہے یا تو اپنی سیاسی جماعت کہ تنظیمی عہدے پر فائز ہےں۔

کراچی کی ترقی میں براہ راست واٹر بورڈ، کے ایم سی، کے بی سی اے جیسے اداروں سمیت ایسے بہت سے ادارے ہیں جہاں پر عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والے سرکاری افسران کہنے کو توعوامی غلام ہیں مگر کام کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرانجام دیتے ہیں ۔ کراچی میں ابلتے گٹروں کی بات کی جائے تو یہ کام جن اداروں کا ہے وہی بہتر جان سکتے ہیں کہ کون سی لائن کو کہاں سے اڑایا جائے کس لائن میں ریت یا سیمنٹ ڈالا جائے اور کس طرح مین لائنوں کو بڑے بڑے پتھروں کی مدد سے روک کر پھر چونا ڈالاجائے تاکہ لائن کو نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ کتنا حصہ مفلوج ہوگا یہ تو جس کا کام ہے وہی جانتا ہے کوئی لوکل گورنمنٹ کا وزیر یا سندھ حکومت کا ذمہ داران کبھی نہیں جان سکتا۔ اداروں میں قائم ایسے سرکاری ملازم جو اپنی سیاسی جماعت کی سیاست کو چمکانے اور اپنی پارٹی کی ساکھ کو بچانے کیلئے عوامی مسیحا کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں انہیں کراچی کی عوام سے کوئی غرض نہیں انہیں غرض ہے تو بس اپنی ساکھ اور سسٹم کی مضبوطی سی ۔ اس سارے کھیل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا قصور ہ یہ ہے کہ وہ ایسے اداروں میں قائم سرکاری افسران کو گھر کا راستہ نہیںدکھاتی اور ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی نہیں کرتی اور لوکل گورنمنٹ کے وزیر جام خان شورو بھی اداروں میں منسلک افسران کو عوام کی خدمت اور مسائل کے حل کیلئے موثر اقدامات نہیں کرتے ....؟ اگر سندھ گورنمنٹ حرکت میں آبھی جاتی ہے تو یہ بلیک میلنگ کی سیاست سے اداروں میں قائم اپنے لوگوں کو سڑکوں پر نکال دیتے ہیں اور حکومتی ادارے کو تالا لگ جاتا ہے۔

کراچی کے چھ ڈسٹرکٹ میں جہاں جہاں ایم کیو ایم اپنی یونین کونسلز مطلب چیئرمین و کونسلر نہیں جیت سکی وہاں موجود سرکاری افسران ان کیلئے 2018کیلئے الیکشن مہم شروع کر چکے ہیں اور میئر کراچی کو ڈھال بنائے بند گٹر ،مین لائنیں، لائٹیں روڈ کارپیٹنگ اور فیس شو کا کام تیزی سے جاری ہے کہ کراچی کے خیر خواہ اور ہمدرد صرف اور صرف ایم کیو ایم ہے۔ کراچی کی باشعور عوام یہ بھی جانتی ہے سرکاری افسران جسے مہینے کے آخر میںتنخواہ ملتی ہے اور اس کا کام روڈ پر چھاڑو لگانا، لائنیں صاف کروانا ، کچرا اٹھانا ہے تو ایسے کام میں بجٹ یا ایسی کوئی دلیل ان کی کام چوری کو نہیں چھپا سکتی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ گورنمنٹ کی جانب سے کراچی کے انفرااسٹکچر پرخرچ خطیر رقم اور ترقیاتی کاموں سے مخالفین کی نیند حرام ہو چکی ہے اور خدمت کی حقیقی علمبردار اور انسانیت پر مبنی سیاست کی امین پارٹی صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔

Waqas Shaukat
About the Author: Waqas Shaukat Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.