سیاسی عدم استحکام

دنیاکے وہ ممالک جہاں جمہوریت قائم ہے اوراس نظام کے تحت لوگ اپنے نمائندوں کاانتخاب کرتے ہیں یہ نمائندے کاروبارِ سلطنت چلاتے ہیں عوامی مسائل کے حل کی جانب توجہ دیتے ہیں ملکی اورقومی مسائل پارلیمنٹ میں زیربحث لائے جاتے ہیں اوران کاحل تجویزکیاجاتاہے ایسے ممالک ترقی کی شاہراہ پربھی گامزن ہوتے ہیں اورانکے عوام مسائل سے بھی اپنی گلو خلاصی کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں جہاں جمہوریت کے نام پہ آمریت کی حکمرانی ہے وہاں ناہی سیاسی استحکام موجودہے اورناہی وہاں کے عوام اپنے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جمہوریت ناصرف طرزحکمرانی کانام ہے بلکہ اسکی کامیابی کیلئے مثبت روئیوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں تک ہمارے ملک کے جمہوریت کاتعلق ہے تویہاں ناہی آج تک جمہوریت قائم ہوسکی ہے ناہی اس طرزحکمرانی سے عوام کے مسائل حل ہوئے ہیں اورناہی ملک کوکوئی فیض حاصل ہوسکاہے اسکی سب سے بڑی وجہ ہمارے سیاستدانوں کی بے صبری اورعدم برداشت ہے اس ملک کے سیاستدانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کوبرداشت کرنے سے اجتناب کیاہے نفرتوں کوہوادی گئی ہے اورایک دوسرے کوملک دشمن قراردینے سے بھی گریزنہیں کیاگیاجس کی وجہ سے جمہوریت کوناکام طرزحکومت قراردیاجارہاہے آج ہم اس بات کاجائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیاواقعی جمہوریت ناکام طرز حکومت ہے یاپھراسے ناکام بنانے کی کوشش کی گئی ہے 1970کی دہائی کااگرجائزہ لیاجائے توذوالفقارعلی بھٹو اگرچہ منتخب وزیراعظم تھے انہیں عوامی حمایت حاصل تھی اوروہ عوام کے محبوب و مقبول سیاسی راہنماتھے مگرمقبولیت کے زعم میں وہ کسی بھی سیاستدان کو پرکاہ برابراہمیت دینے پرتیارنہیں تھے انکے اسی روئیے کی وجہ سے ملک بھی دولخت ہوااورساتھ ساتھ انہیں اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھوناپڑے انکے آمرانہ اقدامات ہی کی بدولت ضیاء الحق کو گیارہ سال ملک پرمسلط رہنے کاموقع ملاجناب بھٹو نے سیاسی پارٹیوں پرسپریم کورٹ کے ذریعے پابندیاں لگوائیں مخالف سیاسی راہنماؤں کو پابندسلاسل کرکے قیدوبندکی صعوبتوں سے ہمکنارکیااورانہیں غداری کے القابات سے نوازاگیاجس پرسیاسی ڈائیلاگ کے راستے بندہوئے اورملک میں گٹھن کاماحول بن گیاانکے بعد1988میں ملک کوجمہوریت نصیب ہوئی جب انکی صاحبزادی محترمہ بے نظیربھٹواسلامی دنیاکی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں مگرانہیں مخالفین نے سکون کاسانس لینے نہیں دیاانکے خلاف سازشیں ہوئیں ،کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں اورانہیں سیکیورٹی رسک قراردیاگیاانکے مخالف نوازشریف تھے جونااپنی حکومت سنبھال سکے اورناہی بے نظیربھٹوکوحکومت کرنے دیااس دوران غلام اسحاق جیسے بیوروکریٹ بھی جمہوری حکومتوں کی رخصتی میں اپنابھرپورحصہ ڈالتے رہے انہوں نے باری باری بے نظیربھٹواورنوازشریف کی دوحکومتیں رخصت کیں بینظیراورنوازشریف کواحساس ہونے تک پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکاتھاانہوں نے مل کرضیاء الحق کی جانب سے کئے گئے آئین میں آٹھویں ترمیم کے اس شق کاخاتمہ کیاجس کے تحت صدر کواسمبلی اورحکومت گھربھیجنے کااختیارحاصل تھااس اختیارکے خاتمے پرجنرل مشرف کی قیادت میں فوج نے براہ راست حکومت پرقبضہ کیااورملک کے دونوں مقبول سیاسی راہنماراندۂ درگاہ ٹھہرے بے نظیربھٹونے فوجی اقدام کی حمایت میں بیان دیا2002کے انتخابات اوراس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت نے بے نظیربھٹوکویہ سوچنے پرمجبورکیاکہ پرویزمشرف کوپارلیمنٹ کے ذریعے ہی رخصت کیاجاسکتاہے اسلئے انہوں نے نوازشریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پردستخط کئے ہمارے ہاں اگرمعاہدے دائمی ہوتے تومیثاق جمہوریت کے جونکات ہیں اس پرجمہوریت کی مضبوطی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کودستخط کرنے کی ضرورت تھی میثاق جمہوریت کے بارے میں یہ رائے قطعاًغلط ہے کہ اس سے دونوں جماعتوں نے مک مکاکیاہواہے اس مک مکامیں بظاہرتوکوئی غلط بات موجودنہیں میثاق جمہوریت میں کسی بھی منتخب حکومت کوغیرآئینی طریقے سے گرانے سے جوتوبہ کیاگیاہے آئینی اصلاحات کے شق شامل کئے گئے ہیں عدلیہ اورمقننہ کو خودمختاربنانے کی جوبات کی گئی ہے جمہوری اورسیاسی استحکام کیلئے اگر اس معاہدے پرتمام سیاسی جماعتوں کااتفاق ہوجاتاتوآج ہم سیاسی عدم استحکام کاشکارنہ ہوتے یہاں آئے روزمصنوعی سیاسی بحران پیدانہ ہوتے اورملک بے یقینی کاشکارنہ ہوتامیثاق جمہوریت میں دیگرسیاسی جماعتوں کوبھی شمولیت کی کوشش ہوئی تھی مگرعمران خان بے نظیربھٹوکے ساتھ بیٹھنانہیں چاہتے تھے انہوں نے نوازشریف کے ساتھ اے پی ڈی ایم نامی اتحادمیں شمولیت ضروراختیارکی مگراس اتحادکاشیرازہ بھی 2007کے الیکشن میں حصہ لینے یابائیکاٹ کرنے کے معاملے پربکھراوطن عزیزمیں سیاسی اتحادبھی عدم برداشت ،ضداورہٹ دھرمی کاشکاررہے منتخب حکومتیں بھی اسی انااورہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنی مدت پوری کرنے سے قاصررہیں جب بھی کوئی حکومت منتخب ہوکرآئی روزاول سے ہی اسکے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں اورہنی مون پیریڈمیں ہی اسکے جانے کی افواہیں اورپیشنگوئیاں گردش کرنے لگیں اس تمام صورتحال کی ذمے داری اسٹیبلشمنٹ پرڈال کربرالذمہ نہیں ہواجاسکتااس میں سیاستدان بھی برابرکے شریک رہے ماضی کی حکومتوں کی مثالیں توہم دے دے کرتھک گئے موجودہ حکومت بھی اس وقت تک حکومت رہی جب تک عمران خان بسترپررہے انکے بسترسے اٹھتے ہی چارحلقوں کاراگ شروع ہوگیاجونوازشریف کی رخصتی پرمنتج ہوابات یہاں بھی نہیں رکی بلکہ شیخ رشیدجیسے سیاستدان روزصبح اٹھکرحکومت جانے کی افواہیں پھیلاتے رہے پانچ سال توجیسے تیسے گزرہی گئے مگرروزحکومت جانے کی تاریخیں ملتی رہیں کبھی سینیٹ انتخابات سے قبل حکومت رخصت ہونے کی خبریں آتی رہیں توکبھی آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ پرافواہوں کابازارگرم کیاگیااسی سیاسی عدم برداشت ہی کی بناپرآج پاکستان سیاسی عدم استحکام کاشکارہے جس سے اقتصادی صورتحال اورمعیشت بھی متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکیں آج وطن عزیزہمہ اقسام کے بحرانوں کی زدمیں ہے آنے والے انتخابات کے انعقادپربھی شکوک وشبہات کااظہارکیاجارہاہے اس غیریقینی حالات کاخاتمہ ازحدضروری ہے اس کیلئے سیاستدانوں کوصبروتحمل ،برداشت اورحقیقی جمہوری روئیے اپنانے ہونگے کسی بھی منتخب جمہوری حکومت کواسکی آئینی مدت پوری کرنے کاحق ہوناچاہئے اسے سازشوں کے ذریعے گرانے سے اجتناب برتناہوگاسیاستدانوں کوجمہوریت کاراگ الاپنے کی بجائے جمہوریت کوخودپرنافذکرناہوگاحکومتیں گرانے کیلئے عدلیہ اورفوج سے مددلینے کاسلسلہ بندہوناچاہئے تمام ریاستی ادارے فعالیت کامظاہرہ کرنے کی بجائے اپنی اپنی آئینی وقانونی حدودمیں رہ کرفرائض انجام دیں ہرحکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بعدملک خودکارطریقے سے الیکشن کی طرف جائے اورعوام کواس حکومت کے احتساب کاموقع ملے توکوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی کی شاہراہ پرگامزن نہ ہو اورہم آئے روزسیاسی عدم استحکام کاشکارہوں۔

Wisal Khan
About the Author: Wisal Khan Read More Articles by Wisal Khan: 80 Articles with 51846 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.