وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔

خواتین کے عالمی دن پر ایک خصوصی مضمون

عورت خدا کی ایک بہترین تخلیق۔۔عورت کے کئی روپ ہیں ۔۔وہ بیٹی کے روپ میں ہو تو رحمت ہے، ماں باپ کی زندگی میں روشنی بن کر آتی ہے اور رزق ساتھ لاتی ہے۔۔ بہن کے روپ میں ہو تو وہ ایک ہمجولی اور دوست ہوتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جانا اور پھر فوراََ ہی مان بھی جانا، بھائیوں کی اس میں جان ہوتی ہے، بہن کو روتے دیکھ کر بھائیوں کا دل بھر آتا ہے اور اسکے ہنسنے سے انکے لبوں پہ بھی مسکان آجاتی ہے، اسے چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے تنگ کرنا بھائیوں کا پسندیدہ کام ہوتا ہے۔۔ جب وہ بہن اور بیٹی پرائے گھر جانے لگتی ہے تو ماں باپ ہزار وسوسوں کے باوجود بھی دل پہ پتھر رکھ کر اسکی آنے والی زندگی کی دائمی خوشیوں کی دعائیں مانگتے نہیں تھکتے، اور گھر کو سنوارنے کے مشورے دیتے رہتے ہیں کہ کیسے سرال کو اپنا گھر سمجھنا ہے اور سب کا دل اپنی محبت سے جیت لینا ہے۔

وہ جب پرائے گھر بیاہ کر جاتی ہے تو ماں باپ کا گھر سونا کر جاتی ہے اور ایک نیا گھر آباد کرتی ہے، جہاں وہ ایک بہن یا بیٹی نہیں بلکہ بہت سے نئے رشتوں میں بندھ جاتی ہے، پھر وہ کسی کی بہو کسی کی بیوی، کسی کی بھابی، دیورانی، جٹھانی، مامی،چاچی، کئی نئے ناموں سے جانی جاتی ہے۔

ان تمام رشتوں سے آگے چل کر اس مقام پر فائز ہو جاتی ہے جہاں جنت بھی اس کے قدموں تلے رکھ دی جاتی ہے، اور پھر یہاں سے اسکا ایک نیا امتحان شروع ہوتا ہے جس میں اسے خود کو ایک بہترین ماں ثابت کرنا ہوتا ہے اور اپنی اولاد کو بہترین پرورش دے کر ایک ایسا فرد بنانا ہوتا ہے جو نا صرف گھر بھر کی ذمہ داری سنبھال سکے بلکہ ایک ذمہ دار شہری بھی بن سکے۔۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ لڑکی کی پیدائش کومنحوسیت سمجھتے تھے اور اسے پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا کرتے تھے۔ لیکن اسلام کی روشنی پھیلتے ہی عورت کو اللہ اور اسکے رسول نے وہ حقوق دئیے جنکی وہ ہر روپ میں متلاشی تھی۔وہاں سے اسکی زندگی کا ایک روشن باپ شروع ہوا، اسکی قدرو منزلت میں اضافہ ہوا۔
آج ہمارے معاشرے میں عورت صرف بہن، بیٹی ،بیوی اور ماں کے نام سے ہی نہیں بلکہ کئی اور ناموں سے بھی جانی جاتی ہے، وہ سماجی کارکن بلقیس ایدھی بھی ہے، وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی ہے، فٹ بالر شہلائلہ بلوچ بھی ہے،کرکٹر ثنا میر بھی ہے، پروڈیوسر شرمین عبید چنائے بھی ہے، ننھی مائیکروسوفٹ انجینئر عرفہ کریم بھی ہے، پائلیٹ مریم مختار بھی ہے۔ غرضکہ ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہے۔

یہ ہمارے معاشرے کا ایک روشن پہلو تھا لیکن اسکے بر عکس ایک بہت تاریک پہلو بھی ہے جس میں آج بھی عورت کے ساتھ وہی سلوک روا رکھاجاتا ہے جو دورِ جاہلیت میں برتا جاتا تھا۔۔ کبھی وہ غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہے تو کبھی ونی جیسی رسم کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے، کہیں شادی سے انکار پرسرِ راہ چلتے ہوئے تیزاب سے جھلسا دی جاتی ہے ،کبھی جہیز کم لانے یا نا لانے کی سزا کی پاداش میں سسرال والوں کے طعنے سنتی ہے تو کبھی اولاد نہ ہونے کے جرم میں سسرال اور معاشرے کی نظر میں بانجھ کہلاتی ہے۔ کہیںزبردستی اپنی سے دوگنی عمر کے مرد سے بیاہ دی جاتی ہے تو کہیں سوتیلے رشتوں کے ہاتھوں جنسی استحصال کا نشانہ بن جاتی ہے۔۔

عورتوںکو نام کے لیے بہت سے حقوق تو دے دئیے گئے ہیں اور ان حقوق کے لیے آوازیں بھی خوب اٹھائی جاتی ہیں لیکن معاشرہ اب انھیں وہ مقام دینے سے قاصر ہے جو اللہ اوراسکے رسول ﷺنے دیا تھا۔۔اگر ان تمام حقوق کو پوری عزت وتکریم کے ساتھ عورت سے منصوب کر دیا جائے تو ہم یہ کہتے ہوئے بھی اچھے لگیں کہ عورت کا عالمی دن ہمارے معاشرے میں بھی منایا جاتا ہے، ورنہ خالی لفاظی میں کیا رکھا ہے۔۔

Mehwish Kanwal
About the Author: Mehwish Kanwal Read More Articles by Mehwish Kanwal: 2 Articles with 1004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.