مدینہ طیبہ کی مشک بار فضائیں

مدینہ طیبہ وہ با برکت مقام ہے جہاں ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا روضہ اطہر ہے۔ مدینہ طیبہ کی پر کیف فضاؤں میں زندگی کے لمحات گزارنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ حالیہ سفر میں بھی عمرہ کی ادائیگی اور کچھ ایام مکہ مکرمہ میں گزارنے کے بعد مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہوئی۔ حرمِ مدینہ شریف میں داخل ہوتے ہی مسجدِ نبوی شریف کے میناروں کا دیدار دلوں میں کیف و سرور کی ایک خاص چاشنی اور لذت پیدا کردیتا ہے۔ جب نظریں گُنبد خضریٰ پہ پڑیں تو یوں محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہایمان کی حلاوت بڑھ رہی ہے اور قلب کو سُکون کی ایک خاص کیفیت مل گئی ہے۔ جب بھی حرمین شریفین کی حاضری کی توفیق ملے تو اخلاص نیت کے ساتھ عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ادب کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ مرشدِقلب ونظر آقائے نامدار محمد رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ کے آداب خود رب ِذوالجلال نے قرآن پاک کی سورہ الحجرات میں سکھائے ہیں۔ اِس بارگاہ کی ذرہ سی گُستاخی زندگی بھر کی نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے عشق و محبت اور اطاعت شعاری کا تعلق ہی بندہ مومن کیلئے جان ایمان ہیں۔ اس سفر کے دوران اللہ کریم نے یہ سعادت بھی عطا فرمائی کہ میرے عزیز بیٹے "داؤد مسعود" کا مسنون نکاح آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے روزہ اطہر کے سامنے چھتریوں کے نیچے منعقد ہوا۔ ہماری خوش قسمتی کہ عشاء کی نماز سے کچھ پہلے جب نکاح کی تقریب ہو رہی تھی تو شب جمعة المبارک تھی اور (ستائیسویں رجب) شب معراج مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی۔ سلسلہ محمدیہ کے شیخ طریقت الشیخ احمد دباغ مد ظلہ العالی نے خطبہ نکاح پڑھا، ایجاب و قبول کرایا اور آستانہ عالیہ حضرت سلطان باہو رح کے ذیب سجادہ پیر قمر سلطان سروری قادری نے خصوصی دعا فرمائی۔ ہم اس کرم کے قابل کہاں تھے۔ یہ تو میرےآقائے نعمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر عنایت ہے۔ الحمد للہ علی ذلک۔ مسجد نبوی شریف کا ہر حصہ ہی نور و نگہت سے جگمگا رہا ہے۔ہر دروازہ اپنی مثال آپ ہے۔ جب مواجہ شریف میں سلام عرض کرنے کے لیے حاضری کا ارادہ ہو تو بابُ السلام سے اندر جانا ہو تا ہے۔ دیواروں پر نبی کریم ﷺ کے اسماء حسنیٰ اور کچھ احادیث مبارکہ کے خوبصورت نقوش ہیں۔ روضہ مبارک کی دیوار پر اور داخلی دروازے پر آپ ﷺ کا یہ ارشادمبارک لکھا ہے ’مَا بَیْنَ بَیْتیِ و مِنبری رَوضَتہَّ مِن ریاضِ الجنِّتہ ‘ کہ میرے گھر اور منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے باغ ہے۔حدیث کی شرح کرنے والے محدثین نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ اپنے حجرہ مبا رکہ سے چل کر منبر تک نماز کی امامت اور خطبات کے لیے تشریف لاتے ۔ جہاں جہاں آپ ﷺ کے قدم مبارک لگے ﷲ کریم نے اس جگہ کو جنت کا ٹکرہ بنا دیا۔ اِن دنوں رش کا فی ہے، البتہ رات کے تیسرے پہر اور صبح نو بجے کے قریب ریاض الجنتہ میں بیٹھنے اور نوافل کی ادائیگی کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے۔ ہمہ وقت ریاض الجنتہ کے گرد ہجومِ عاشقان نظر آتا ہے۔ ہر ایک بے تابی سے منتظر ہوتا ہے کہ وہ کون سا لمحہ آئے کہ اِس مقدس مقام کی حاضری نصیب ہو۔ بعض اوقات دھکم پیل کی صورت میں بے احتیاطی کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے ہیں جو یقینا اس مقام کے تقدس کے منا فی ہیں کیونکہ
ادب گا ہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ مے آید جنید ؓ و با یزید ؓ ایں جا

(آسمان کے نیچے یہ جگہ عرش عظیم سے بھی زیادہ نازک ہے۔ حضرت جنید بغدادی ؓ اوربایزیدبسطامیؓ جیسے اولیاء کا ملین بھی یہاں اپنے سانس تک پر قابو رکھتے تھے کہ کہیں سانس کا بے ربط آنا جانا بھی بے ادبی شمار نہ ہو)۔ حضور ﷺ کے قدمین شریفین کی سمت بیٹھے ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی تو فرما نے لگے کہ ’نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے ہر اہل ایمان کو محنت اور کاوش سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے، جو لوگ مخلوق خدا پر ظلم کرتے اور نبی ﷺ کی سُنتوں کا لحاظ نہیں رکھتے یا خدانخواستہ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں آپؐ ان کی طرف نظر التفات نہیں فرماتے۔ یہ حاضری روایتی طرز پر نہ ہونی چاہیے بلکہ اس عقیدے اور نظریے کےساتھ حاضر ہو کہ میرے پیارے آقا ومولیٰ ﷺ میرے سلام کا جواب ارشاد فرماتے ہیں بلکہ ہمارا نامہ اعمال آپؐ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ آپؐ ہمارے ایمان کی حقیقت اور کیفیت سے بھی آگاہ ہیں۔ مواجہ شریف کے سامنے جب اس مقام پر حاضری نصیب ہوتی ہے، جہاں سبز دائرے میں ’’رسولﷲ ‘‘ لکھا ہے تو ہر زائر یہ تصور کر کے زیارت کرے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے دیکھ رہے ہیں۔ اِس وقت موبائیل پر تصویریں بنا نا یا فون پر کسی اور سے مخاطب ہونا بہت ہی ناروا عمل ہے۔ ساتھ ہی دو اور دائروں میں ابو بکر صدیق ؓ اور عمر فاروق ؓ کے نام لکھے ہیں، ان دائروں کے بالکل سامنے ان عظیم المرتبت اصحاب رسول ؓ کے مرقدانوار ہیں۔گنبدِ خضری ٰ کے سامنے جنت البقیع کا قبرستان ہے، یہاں حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات، آل بیت اطہار اور جلیل القدور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبور ہیں۔ عصر اور فجر کی نما ز کے بعد اس قبرستان کے دروازے زائرین کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ ترکوں کے دور حکو مت میں یہاں قبور پر کتبے اور قبے موجود تھے لیکن اب کچھ بھی نہیں جس کی وجہ سے قبروں کی نشاندہی بھی کوئی واقف حال ہی کر سکتا ہے۔

اللہ کریم اس حاضری کو قبول فرمائے۔ نیکیوں کو قبول فرمائے اور کمزوریوں و کوتاہیوں کو معاف فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبری کا مستحق ٹھہرا دے۔ آمین ثم آمین

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218758 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More