’’فیری میڈوز‘‘

پریوں کا مسکن جہاں حسن جمال تو ہے لیکن پریاں نظر نہیں آتیں

پریوں کا مسکن، پرستان یا فیری میڈوز، گلگت بلتستان کے خطےکے ضلع دیامیر میں نانگا پربت کی بلند و بالا چوٹی اورسر بہ فلک پہاڑوں کے درمیان گھاس کا خوب صورت میدان ہے۔ جسے گلگتی زبان میں ’’جوت‘‘کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن اس مقام کی حسن و دل کشی کی وجہ سے نانگا پربت کی جانب سفر کرنے والے جرمن کوہ پیماؤںنے1950میں اسے ’’فیری میڈوز‘‘ یا پریوں کے مرغزار کا نام دیا۔نانگا پربت کی جانب جانے والے ٹریکر حضرات کے لیے یہ بیس کیمپ بھی ہے۔ 1992میں مقامی لوگوں نے سیاحوں کی سہولت کے لیے یہاں کیمپنگ سائٹس بنا لیں، جو 9ایکڑ کے رقبے پر محیط ہیں اور ’’رائے کوٹ سرائے‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ 1995میں حکومت پاکستان کی طرف سے اسے ’’نیشنل پارک‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ خوب صورت مقام سطح سمندر سے 3300میٹریعنی 9900فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔زیادہ تر ملکی و غیرملکی سیاح یہاں تک آنے کے لیے اسلام آباد سے گلگت جانے والی بسوں میں بیٹھ کر رائے کوٹ تک کا سفر کرتے ہیں جو اسلام آباد سے 540 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ رائے کوٹ کے پل پر اتر کر وہ کچھ دیر کسی ہوٹل میں بیٹھ کر سستاتے ہیں۔اپریل سے ستمبر تک رائے کوٹ کا موسم انتہائی گرم ہوتا ہے،پتھریلے پہاڑوں کی طرف سے آنے والی گرم ہواؤں اور لو کے تھپیڑوں سے پریشان ہوکر سیاح جلد سے جلدکوچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں سے دائیں جانب ایک کچا راستہ فیری میڈوز کی بلندیوں کی جانب جاتاہے۔یہ16کلومیٹر لمبا ایک ایسا تنگ راستہ ہےجس کے ایک طرف بلند وبالاپہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائیاں ہیں۔ اس راستے پر صرف جیپ کے ذریعے ہی سفر کیا جاسکتا ہے اور اس پرسے ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گزر سکتی۔رائے کوٹ سے تاتوگاؤں تک دوسری جنگ عظیم کے زمانے کی جیپیںچلتی ہیں جن میں صرف چھ امسافروں کے بیٹھنے کی ہی گنجائش ہوتی ہے۔۔ اس راستے پر جیپ چلانا بھی عام ڈرائیور کے بس کی بات نہیں، یہ کام وہاں کے رہنے والے ماہر ڈرائیور ہی بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ فی مسافر 1000سے ڈیڑھ ہزار روپےکرایہ طلب کیا جاتا ہے جو فاصلے کی مناسبت سے مسافروں کو بہت زیادہ لگتا ہے ۔ یہ ٹریک ہزاروں فٹ اُونچے پہاڑوں کے درمیان ایک پتھریلا راستہ ہے۔ دائیں طرف آسمان کو چھوتے ہوئے سنگلاخ پہاڑ، بائیں طرف ہزاروں فٹ گہرائی میں طوفانی نالہ بہتا ہے اورنالے کے دوسرے کنارے پر پھر بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ قدیم زمانے کی یہ مضبوط جیپ پتھروں پر ہچکولےکھاتی، مسافروں کے دل دہلاتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھتی ہے۔ اس ٹریک کا شمار دنیا کے خوفناک ترین جیپ ٹریکس میں کیا جاتا ہے۔ جب یہ جیپ شاہراہ قراقرم سے ٹریک کی جانب چڑھنا شروع ہوتی ہے تو سب سے پہلے ایک وسیع میدان آتا ہے، یہاں بڑے بڑے پتھر پڑے ہوئے ہیں، جیپ ان کے درمیان سے گزرتی ہےلیکن یہ کھلا میدان بہت جلد ختم ہو جاتا ہے. اس کے بعد عمودی چڑھائی والاراستہ شروع ہو جاتا ہے، جس کی چوڑائی بس اتنی ہی ہے کہ اگر ایک جیپ جا رہی ہو تو سامنے سے آنے والے انسان یا مویشی کو بھی ترچھا ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ اگرمخالف سمت سے دوسری جیپ آجائے تو ان میں سے ایک کو اپنی جیپ روک کریا ریورس میں ایک طرف ہو کر راستہ دینا لازم ہے۔اس سفر کے دوران اکثر اوقات جیپ کے ٹائر انتہائی کنارے پر آجاتے ہیں جن کے نیچے نشیب میں گہری کھائیاں ہیں۔ سفر کے دوران ٹریک پر پڑے پتھر ٹائر کے نیچے آکر ہوا میں اچھلتے ہوئے ہزاروں فٹ نیچے نشیب میں گرتے ہیں۔ یہ جیپ ٹریک ایئر مارشل اصغر خان کے چھوٹے بھائی بریگیڈیئر اسلم خان نےتعمیر کرایا تھا۔وہ گلگت اسکاؤٹس کے پہلے کمانڈر تھے۔ تقریباً پانچ فٹ چوڑے مٹی اور پتھروں کی مدد سے بنائے گئے اس کچی سڑک پر جگہ جگہ اندھے موڑ آتے ہیں ،لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کئی مقامات پر راستہ مسدود ملتا ہے جس کی وجہ سے مسافروں کوجیپ سے اتر کررکاوٹ والا حصہ پیدل عبور کرکےدوسری جیپ میں بیٹھنا پڑتا ہے۔کسی موڑ پر پہاڑوں کی اوٹ سے نانگا پربت اور کسی پربہت دوربادلوں میں چھپی راکا پوشی کا برف پوش پہاڑ نظر آتا ہے۔2013میں اس پہاڑی سڑک کو ’’دنیاکی دوسری ہلاکت خیز سڑک‘‘ کانام دیا گیا۔

جیپ کا راستہ تاتو گاؤں تک جاتا ہے۔تاتو کے معنی گرم پانی کے ہیں،اس گاؤںمیں ایک پہاڑی چشمے کا پانی اتنا گرم ہے کہ اگر اس میں پانچ منٹ تک انڈا رکھا جائے تو وہ ابل جاتا ہے، اسی کی مناسبت سے اس گاؤں کا نام رکھا گیا ہے۔ تاتو گاؤں سے آگےدس منٹ مزید سفر کرنے کے بعد کچی سڑک ختم ہوجاتی ہے، وہاں سے آگے کا پانچ کلومیٹرسفرپہاڑی پگڈنڈیوں پر پیدل طے کرنا ہوتا ہے یا پھر گاؤں سے گھوڑا یا خچر بھی کرائے پر لیا جا سکتا ہے، جو 2500روپے فی سو اری کے حساب سے مل جاتے ہیں،لیکن زیادہ تر سیاح ٹریکنگ کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ سفر بھی زیادہ پتھریلےراستے پر بلندیوں کی جانب ہوتا ہے۔یہ ٹریک رائے کوٹ سے تاتو تک آنے والی کچی سڑک سے زیادہ ہیبت ناک معلوم ہوتاہے ۔ دائیں ،بائیں خوف ناک پہاڑ، ہزاروں فٹ نیچے گہری کھائیاں، جن کے ساتھ شوریدہ سر نالہ ، پہاڑوں کے ساتھ چیڑ اور صنوبر کا جنگل، راستے میں پہاڑوں پر سے جھرنے گرتے نظر آتے ہیں۔ یہ پیدل سفر دو سے تین گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔تاتو سے فیری میڈوز تک سیاحوں کوناقابل برداشت گرمی میں سفر کرنا پڑتا ہےلیکن اگرراستے میں بارش ہو جائے توصورت حال تبدیل ہوجاتی ہے اور درجہ حرارت اس قدر گر جاتا ہے موسم انتہائی سردہوجاتاہے۔۔ لہذاوہاں جانے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ گلگت کا مقامی پیراہن ’’پونچو‘‘ ضرور رکھیں، یہ بارش میں اوڑھنےاور، لپیٹنے کے کام آتا ہے۔ راستے میں تکان کی وجہ سے سیاح کچھ دیر آرام کرتے ہیں راستے میں کسی غارکی مانند’’رائے کوٹ گلیشر‘‘ آتا ہے ، جس کا نظارہ حیران کن ہوتا ہے۔ اس گلیشئر کے پگھلنے والا پانی جھرنوں کی صورت میں بہتا ہوا دریائے رائے کوٹ میں گرتا ہے۔دو کلومیٹر سفر کے بعدطے کرنے کے بعد’’ییل گاؤں‘‘ آتا ہے، یہاںنسبتاً کشادہ جگہ پر لکڑی کا ایک چھوٹا سا ہوٹل بنا ہے،مسافر حضرات یہاں بیٹھ کر چائے پی کر خود کو تازہ دم کرتے ہیں کیوں ابھی آدھے سے زیادہ سفرطے کرنا باقی ہے۔ اس راستے کو ’’بولڈررج ‘‘ کہا جاتا ہے۔جیسے جیسےاوپرکی جانب سفر کرتے ہیں، موسم بھی رنگ بدلتا ہے، چمکتی دھوپ کے بجائے گہرے بادل پہاڑوں پر سایہ فگن ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگربوندا باندی ہوجائے توماحو ل خاصا خوش گوار ہوجاتا ہے لیکن پھسلن کی وجہ سے راستے پربہت احتیاط سے قدم رکھنا پڑتا ہے۔

پہاڑوں کے درمیان بل کھاتےراستوں اور تنگ پگڈنڈیوں پر سفر کرتے ہوئے آخری چٹان عبور کرکے فیری میڈوز کے کشادہ میدان میں داخل ہوتے ہیں تو سیاحوں کی نگاہوں کے سامنے انتہائی دل فریب مناظر ہوتے ہیں، وہ خود کو قصہ کہانیوںوالے پرستان میں محسوس کرتے ہیں۔ آسمان کو چھوتے ہوئے سرمئی پہاڑوں کے درمیان سبزے کی چادر بچھی ہے، جس پر خوب صورت گھوڑے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ہزاروں ٹن برف سے لدا ہوا نانگا پربت کا پہاڑ نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے جسے سر کرنے کی کوشش میں درجنوں کوہ پیماؤں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، جس کی وجہ سے اسے ’’قاتل پہاڑ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دلکش نظاروں والا سرسبز میدان ہے جس کے عقب میں پہاڑی بلندیوں پر الپائن، صنوبراور چیڑ کے جنگلات ، جنگلی گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے مہکتی فضا سیاحوں کا استقبال کرتی ہے۔ اس پرستان میں پراسرار خاموشی کا راج ہوتا ہے اور اس سناٹے میں صرف دوطرح کی آوازوں کی گونج سنائی دیتی ہے، جن میں تاتو نالے کا شوراور نانگا پربت سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں کی سرسراہٹ ہے۔ پریوں کی اس چراگاہ میں سبزے کی بچھی چادر، جس کے درمیان پھلوں سے لدے درخت ،مہکتے پھول، جھرنے ،پہاڑی چشمے اور ندی کی پرشور لہریں، پرندوں کی نغمگی سے پھرپور چہچہاہٹ دل و دماغ پر عجب سحر طاری کردیتی ہے۔ یہاں ایک طرف لکڑی کےالف لیلوی طرز کے گھر بنے ہوئے ہیں جو غیر آباد ہیں، مقامی لوگوں کے مطابق وہاں پریاںبسیرا کرتی ہیں۔ جب کہ دائیں طرف پہاڑیوں کے ساتھ مقامی لوگوں کےلکڑی کے ایک اور دو منزلہ گھر بنے ہوئے ہیں ، جن میں تقریباً پچاس کنبوں پر مشتمل 200افراد رہتے ہیں۔ یہ دیامیر کے مقامی لوگ ہیں جو’’ شنایا‘‘ زبان بولتے ہیں۔ ان کا ذریعہ معاش سیاحوں کی آمد پر منحصر ہے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے یہاں ایک پرائمری اسکول اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے لکڑی کے دو کمروں پر مشتمل اسپتال موجود ہے۔ مسافروںکے قیام کے لیے لکڑی کی عمارتوں پر مشتمل پانچ ہوٹل ہیںرائے کوٹ سرائے کی کیمنگ سائٹ کے عقب میں ’’فنتوری‘‘ نام کا دل کش گاؤں ہے، جہاں لکڑی کے چند مکانات ہیں،جن میں دھوئیں کی نکاسی کے لیے چمنیاں بنائی گئی ہیں، ان میں سے نکلتا دھواں ایک عجب سماں پیدا کرتا ہے ۔فیری میڈوز کی سیر کے لیے اپریل سے ستمبر تک موسم سازگار ہوتا ہے، اس کے بعد ٹھنڈ اور برف باری کی وجہ سے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔ مقامی آبادی کے افراد بھی اس موسم میں چلاس کی طرف نقل مکانی کرجاتے ہیں۔فیری میڈوز میں اشیائے خورونوش انتہائی مہنگی ہیں ، اس لیے یہاں آنے والےزیادہ تر سیاح ڈبوں میں سربند خوراک ساتھ لاتے ہیں۔دیگر سیاحتی مقامات کی نسبت یہاں کی زندگی انتہائی سادہ ہے، لوگ خالص قدرتی ماحول میں گزر بسر کرتے ہیں۔فیری میڈوز میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ثمرات ابھی نہیں پہنچے ہیں۔رات کو یہاں ہر سو سٹاٹےاور تاریکی کا راج ہوتا ہے ، شام ہوتے ہی سردی کا احساس بڑھنے لگتا ہے، جس کے بعد سیاح ہوٹل کے باہر میدان میں لکڑیاں جلا کر ایک گول دائرے کی شکل میں بیٹھ کر یہاں کے موسم کے مزے لیتے ہیں۔صبح کا منظر سحر انگیز ہوتا ہے،جب طلوع ہوتے سورج کی کرنیں نانگا پربت کی برف پوش چوٹی پر پڑتی ہیں تویہ وادی ایک جادو نگری معلوم ہوتی ہے۔ جنگلی جانوروں میں یہاں صرف "مارخور" دیکھنے کو ملتا ہے مگر اس کی تعداد کافی کم ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق پہاڑی جنگلات پر بھورے ریچھ اور مشک والے ہرن بھی ہیں ۔

نانگا پربت کسی ایک پہاڑ کا نام نہیں ہےبلکہ بے شمار فلک بوس چوٹیوں کا مجموعہ ہے، جن میں چونگرہ، جولی پور، بولدار، گنالو اور رائے کوٹ کی چوٹی شامل ہیں۔ دن کے وقت لوگ گاؤں اور قریب میں واقع دو چھوٹی جھیلیں دیکھنے نکل جاتے ہیں۔فیری میڈوز سے 5 گھنٹے کی مسافت پر ایک ہزار میڑ کی بلندی پر نانگا پربت بیس کیمپ ہے جسے بیال کیمپ کا نام دیا گیا ہے۔وہاں تک کا راستہ دل کش مناظر سے گزرکر جاتا ہے۔ دائیں جانب پہاڑی نالہ، چیڑ اور صنوبر کے جنگل کےساتھ بہتی ہوئی ندی اور شفاف پانی کے چشمے ہیں۔ ندی کے دائیں کنارے پر بلند و بالا سر سبز پہاڑ، یہ راستہ پر خطر ہونے کے باوجود دنیا کی خوب صورت ترین راہگزاروں میں شمارہوتا ہے۔بیال کیمپ وسیع و عریض سبزہ زار پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں ایک پہاڑی نالہ بہتا ہے۔ یہاں لکڑی کے درجنوں خوب صورت ہٹس بنے ہوئے ہیں ۔وادی گلگت میں واقع فیری میڈوز کے نام سے مشہور پرستان کو دیکھنے ہر سال ہزاروںملکی و غیرملکی سیاح پرخطر راستوں سے گزر کر یہاں آتے ہیں لیکن انہیں یہاں پرستان جیسی خوب صورتی تو نظر اتی ہے لیکن پریاں نظر نہیں آتیں، وہ ان کے خالی گھروں کو دیکھ کر اپنے دل کو تسکین دے لیتے ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 188760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.