’’اتائی‘‘ موت کے بیوپاری

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے پنجاب پولیس کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ صوبے کے تمام اتائی ڈاکٹروں کو ایک ہفتے میں گرفتار کرکے رپورٹ پیش کریں ۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان نے صوبہ خیبرپختونخوا میں اتائیوں کے کلینک ایک ہفتے میں بند کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ آف پاکستان پشاور رجسٹری میں صحت کی سہولتوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین ہیلتھ کیئر کمیشن عدالت میں پیش ہوئے،جنہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 15 ہزار اتائی ڈاکٹر ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کتنے اتائیوں کے خلاف کارروائی کی اور کتنے اتائیوں پر پابندی لگائی گئی ہے؟وہ اتائی کہاں ہے جوہسپتال میں کام کرتے ہوئے گرفتار ہوا؟ اتائی ڈاکٹر لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ہیلتھ کیئر کمیشن کے سربراہ سے استفسار کہ آپ کی اپنی تنخواہ کتنی ہے؟جس پر سربراہ ہیلتھ کیئر کمیشن نے بتایا کہ ان کی تنخواہ 5 لاکھ ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ کیسا صوبہ ہے جہاں چیف سیکریٹری 1 لاکھ 80 ہزار اور آپ 5 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں، اتائیوں کے خلاف کارروائی کرنا آپ کی ڈیوٹی ہے۔ایک عام اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں دس لاکھ سے زائد اتائی ڈاکٹر ہیں۔جو جعلی کلینک ، میٹرنٹی ہوم و پرائیوٹ ہسپتال بنا کر انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے صحت کی سہولتوں کے حوالے سے سخت اقدام پر متعلقہ اداروں نے اتائی ڈاکٹروں کے خلاف بظاہرایک بڑی مہم کا آغاز شروع کیاجاچکا ہے اور بڑی تعداد میں اتائی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں لیکن اتائی ڈاکٹرز و کلینکوں کی مکمل بندش نا ممکن ہے ۔ کیونکہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اتائی ڈاکٹروں کے خلاف موثر کاروائی کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کئی مراحل درپیش ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مہنگے فیسوں او بھاری اخراجات کے بعد ڈاکٹر بننے والوں کی ترجیح کبھی پس ماندہ یا متوسط طبقے کے علاقے نہیں ہوتے ۔ جبکہ دور افتادہ علاقوں میں توکولیفائیڈ ڈاکٹر میں کلینک کھولنے کا تصور ہی نہیں پایا جاتا ۔ خصوصی امراض میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹرز کی زیادہ تر توجہ مہنگے اسپتالوں میں ملازمت ، پرائیوٹ کلینک و ہسپتال یا پھر بیرون ملک جاکر غیر ملکی شہریت لینے پر مرکوز ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پس ماندہ یا متوسط علاقوں میں بیٹھ کر اتائی ڈاکٹروں کے خلاف وہ عملی جدوجہد کا حصہ نہیں بنتے ۔ بلکہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ میڈیکل کالجز میں ڈاکٹر بننے والوں کی زیادہ تر تعداد خواتین پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جو شوقیہ طور پر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لاحقہ لگانے پر اکتفا کرتی ہیں یا ’’ بہتر ‘‘ مستقبل اور ’’اچھے‘‘ رشتوں کے لئے میڈیکل کالجز سے فارح التحصیل ہوکر غیر فعال ہوجاتی ہیں اور پھر عوام کو مختلف بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے عملی کوششوں کا حصہ نہیں بنتی ۔ پاکستان کے پس ماندہ دور افتادہ دیہاتوں میں تو جانے کا تصور بھی محال ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اتائی ڈاکٹر جو کسی کلینک میں ڈسپنسر رہ چکا ہوتا ہے یا اسٹاف نرس کا کورس پورا کرنے کے بعد چند ایسی ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں جن کا میڈیکل سے بھی تعلق نہیں ہوتا ۔ ان نام نہاد ڈگریوں کی وجہ سے دو کمرے کا گھر یا ایک دکان کھول کر کہیں بھی بیٹھ جاتے ہیں اور ہائی اینٹی بائیو ٹک ادویات کا استعمال کرکے انسانی جسم میں قوت مدافعت کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں ۔ اتائی ڈاکٹروں کی جانب سے غیر معیاری اور مضر صحت ادویات و انجکشن کے استعمال اور بعد ازاں کسی بھی دوائی یا انجکشن کے رد ایکشن کی وجہ سے اموات کو حادثہ قرار دے دیا جاتا ہے کہ ’’ اﷲ کی مرضی تھی بندے کا وقت پورا ہوگیا تھا ۔‘‘لیکن اس جانب توجہ مبذول نہیں ہوتی کہ مرض کی درست تشخص نہ ہونے کے سبب اموات کا ذمے دار دارصل کون ہے۔

دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات مرض کی درست تشخص نہ ہونا بھی قرار پائی ہے ۔ کولیفائیڈ ڈاکٹرز بھی مرض کی تشخص میں غلطی کرجاتے ہیں اور مریض کو جلد صحت یات کرنے کی عجلت میں ایسی ادویات بھی دے دیتے ہیں جن کا مرض سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ انسانی جسم کسی بھی مرض کے مقابلے کے لئے قدرتی مدافعاتی نظام رکھتا ہے ۔ لیکن موجودہ دورمیں اینٹی بائیوٹک ادویہ کے بے دریغ استعمال نے بیکٹیریا کی طاقت کو دوچند کردیا ہے ۔ گزشتہ دنوں ٹائیفیڈ کی بیماری کے حوالے سے خبر سامنے آئی تھی کہ موجودہ ادوایات نے مرض کے خاتمے کے لئے اپنا اثر کم کردیا ہے ۔ اسی طرح ملیریا کے عالمی دن کے موقع پر ہوش ربا رپورٹ سامنے آئی کہ پاکستان کی98فیصد عوام ملیریا کا شکار کسی بھی وقت بن سکتے ہیں۔ صحت کے اداروں میں مرض کی تشخص کے لئے باقاعدہ لیبارٹری اور ماہر ین کا نہ ہونا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ کسی بھی مرض کی درست تشخص کے لئے ٹیسٹوں کا غیر معیاری اور غیر تسلی بخش ہونا بھی گھمبیر مسئلہ ہے۔ کسی مرض کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں موثر ٹیسٹ کی سہولتیں میسر نہیں ہیں ، جس کے سبب غیر معیاری لیبارٹریز کی غیرمعیاری رپورٹ کی وجہ سے بھی مریض کی زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کے اس پرآشوب دور میں سستا اور جلد علاج کے لئے انسانی زندگیوں کو تباہ کرنے والے خاموش قاتلوں کے روپ میں ہر شہر کی ہر آبادی میں اتائی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔ جو عوام کی جانوں سے بے دریغ کھیل رہے ہیں۔ کسی خاص علاقے کی بات کیا کی جائے پورے پاکستان میں ہر آبادی میں خاموش قاتلوں نے معصوم انسانوں کو اپنی نا تجربہ کاری کی بھینٹ چڑھایا ہوا ہے ۔ میڈیکل ایسوسی ایشن ہوں یا جعلی ڈاکٹروں کے کلینک و ہسپتالوں کو قانون کے مطابق نگراں ادارے ہوں ۔ مجموعی کوتاہی سامنے آتی ہے کہ عوام کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی میں وزرات صحت و متعلقہ اداروں کا کردار افسوس ناک حد تک غیر موثر ہے۔ انسپکشن ٹیموں کی بڑی تعداد اتائی ڈاکٹروں سے باقاعدہ رشوت وصول کرتی ہیں۔ ان کے رشوت کے ریٹ مخصوص ہیں جس کے وجہ سے ان کے خلاف موثر کاروائی نہیں کی جاتی ۔ کوئی اتائی ڈاکٹر اپنے بھائی کی ڈگری فریم میں لگا کر بیٹھ جاتا ہے تو کوئی مورثی ڈاکٹر بن کر کسی بھی جگہ ، کسی بھی شکل میں ایک ٹیبل ، ایک کرسی اور ایک بینچ لیکر بیٹھ جاتا ہے ،۔ اس جگہ کو کلینک کا نام دے کر انسانی جانوں سے کھیلنے کے لئے، بیس، پچاس روپ سے لیکر دو سو روپوں تک فیس بھی وصول کیں جاتی ہیں اور مریض رنگی برنگی پانی کی بوتلوں جنہیں ’’ڈرپ‘‘ کہا جاتا ہے ، اُن کی گراں ادائیگیاں کرکے اتائی ڈاکٹروں کی جیبیں بھر رہے ہوتے ہیں ، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے افسران و اہلکاروں کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے اتائی ڈاکٹروں کی وبا کسی وبائی مرض کی طرح پھیل چکی ہے۔

صوبے کا چیف سیکرٹری ، وزرات صحت ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ ، انسپکشن ٹیمیں کی قانونی ذمے داری ہے کہ عوام کی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف مربوط و ٹھوس کاروائی کریں ۔ لیکن عدم توجہ کے سبب اتائی ڈاکٹروں پر عوا م کا انحصار کافی بڑھ چکا ہے ۔ راقم نے کئی ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران سے اتائی ڈاکٹروں کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر معاشرے سے پس ماندہ ، دور افتاد و دیہاتوں سے اتائی ڈاکٹرز اور دائیوں کے کلینک بند کردیئے جائیں تو ایک بہت بڑا ’ طبی خلا‘ پیدا ہوجائے گا ، کیونکہ ایک ایم بی بی ایس یا کسی بھی مرض کا اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہمیں ان جگہوں کے لئے دستیاب نہیں ہوگا ۔ جن کی کمی اتائی ڈاکٹرزپوری کررہے ہیں ۔ بیشتر ہیلتھ افسران کا ماننا تھا کہ بلاشبہ اتائی ڈاکٹرز و دائی معاشرے میں ایک خاموش قاتل کے روپ میں موجود ہیں لیکن جب میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والے ینگ ڈاکٹر ز کی ترجیح بیرون ملک یا اپنا پرائیوٹ ہسپتال یا کلینک ہوگی تو غریب عوام کو فوری ریلیف کس طرح سے دیا جا سکے ،کم ازکم اتنا تو ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی ہونے کی صورت میں چوبیس گھنٹے دستیاب ہونے والا اتائی ڈاکٹر وقتی طور پر سہی ، مریض کی تکلیف کا ازالہ کردیتا ہے۔ اسی طرح زچہ و بچہ کی جان کی حفاظت کے لئے دیسی مہارت رکھنے والی دائی اگر موجود نہ ہوں تو پیدائش کے دوران مرنے والوں بچوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جا ئے گی ۔ اس کے علاوہ معاشرتی المیہ یہ بھی ہے کہ عوام میں بھی شعور نہیں ہے کہ وہ زچہ و بچہ کے حوالے سے طبی ہدایات پر عمل پیرا کریں ۔ اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوام میں مرض کی تشخص کے لئے ٹیسٹ کروانے تک صبر کرنے کا بھی رجحان نہیں ہے۔ مریض کو اُس وقت ہی کسی سرکاری ہسپتال لے جایا جاتا ہے جب وہ قریب المرگ یا انتہائی بدترین صورتحال کا شکار ہوتا ہے یا پھر کسی زچہ کی ڈیلیوری کا وقت ہوجاتا ہے ۔ طبی مراکز میں زچہ کا اندارج نہ ہونے کے سبب بروقت آپریشن تھیٹر کا ملنا اہم ترین مسئلہ بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان گنت خواتین اپنی باری کا انتظار کررہی ہوتی ہیں۔ سب ایمرجنسی میں ہوتی ہیں اس صورتحال میں مریض کے ورثا کو سنبھالنا جھگڑے کا سبب بن جاتا ہے۔اتائی ڈاکٹروں سے جب راقم نے دریافت کیا کہ غلط تشخص اور مرض سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے کتنے انسانوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں ، کیا اس کا آپ کو احساس ہے تو ان کا واضح موقف ہوتا ہے کہ مریض جلد از جلد صحت یاب ہونے کی ضد کرتا ہے ۔ ایک غریب کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ مہنگے مہنگے ٹیسٹ یا اچھے پرائیوٹ ہسپتال جاسکے ۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اس قدر خراب ہے کہ وہاں اچھا خاصا صحت مند شخص بیمار ہوجاتا ہے تو اس صورتحال میں ہم جس طرح بھی ہیں اُن تربیت یافتہ ڈاکٹر ز سے بہتر ہیں جو میڈیکل کالجز میں پڑھنے نہیں جاتے بلکہ امتحانات میں نقل کرکے پاس ہو جاتے ہیں ، ہاؤس جاب کرکے ان گنت مریضوں کی جان سے کھیلتے ہیں اور ان گنت مریض ہلاک اور معذور بھی ہوجاتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا بلکہ آئے روز ان کے نت نئے مطالبات اور ہڑتالوں سے عوام پریشان رہتی ہے۔ اسی طر ح کسی بھی سرکاری ہسپتال میں جا کر دیکھ لیں کہ سرکاری ڈاکٹرز کا رویہ مریض کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ کیا واقعی میں کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تربیت یافتہ ڈاکٹر ہیں ، پھر عوام کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت سے بھاری تنخواہیں حاصل کرنے والے ڈاکٹرز او پی ڈی میں بیٹھتے ہی نہیں بلکہ اپنے پرائیوٹ کلینک چلاتے ہیں۔ جہاں مہنگی فیسں وصول کرتے ہیں ۔ دنیا بھر کے مہنگے مہنگے ٹیسٹ اپنی پسندیدہ لیبارٹریز سے کرواتے ہیں ، پسندیدہ میڈیسن کمپنیوں سے مہنگی مہنگی ادویات اپنے میڈیکل اسٹور سے خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا ان کے حوالے سے بھی کسی نے کوئی پوچھ گچھ کی ہے؟؟۔

راقم نے ایسے کئی سرکاری ہسپتالوں کے دورے بھی کئے ہیں اور ان پر کئی رپورٹس بھی بنائی ۔ مشاہدے میں یہی نظر آتا ہے کہ لمبی چوڑی قطاروں کے ساتھ مریض کئی کئی گھنٹے ینگ ڈاکٹرز کے لئے تجرباتی جسم بنے ہوتے ہیں ۔سرکاری ہسپتالوں میں ادویات و معیاری ٹیسٹ لیبارٹریز کا نہ ہونا اور مریض کی درست تشخص کے مسائل اتائی ڈاکٹروں سے زیادہ گھمبیر ہیں ۔ اسی طرح سرکاری ہسپتال میں مریض کے داخلے کے لئے کسی نہ کسی کی سفارش کا ہونا ناگزیر ہوتا ہے ، جب مریض ہسپتال میں ایڈمٹ بھی ہوجاتا ہے تو چوبیس گھنٹے میں پروفیسر یا ڈاکٹر ز کی ٹیم میڈیکل کالجز کے طالب علموں کے غول کے ساتھ وارد ہوتے ہیں اور مریضوں کے مرض سے زیادہ ان کی توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ مریضوں کی بیماریوں سے میڈیکل اسٹوڈنٹ کو آگاہ کیا جائے ۔ مریض راہ تکتے رہ جاتے ہیں اور ان کے معالجے کا تمام تر انحصار ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر پر ہوتا ہے اور یہاں بھی انہیں سرکاری ادویات کے بجائے نجی میڈیکل اسٹورز سے مہنگی ادویات سرکاری ہسپتال میں لانی ہوتی ہے ، یہاں تک کہ آپریشن میں استعمال ہونے ہر چیز ، اور یہاں تک کہ اننجکشن کے لئے سرنج تک لانے کی ذمے داری بھی مریض پر عائد ہوتی ہے ۔ اس صورتحال میں جب کہ معالج کی بھرپور توجہ بھی نہیں ملتی ، تمہادار خود ہسپتال کے غیر معیاری و بد بودار ماحول کی وجہ سے انفکیشن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جہاں مریض کے علاج کے لئے مہینوں مہینوں ہسپتالوں کے باہر چادریں بچھا کر دعاؤں سے جان بچانے کی دعائیں مانگی جاتی ہوں تو ضرورت اس بات کی بڑھ جاتی ہے کہ ریاست سرکاری ہسپتالوں و طبی مراکز کو اس قابل بنا دیں کہ عوام کا انحصار اتائی ڈاکٹرز پر ختم ہوسکے ۔ بلا شبہ اتائی ڈاکٹرز معاشرے میں ایک ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس کو معاشرے میں ناسور کس نے بنایا ، ہمیں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اور مریض کو درپیش مشکلات و تکالیف کی وجہ سے اتائی ڈاکٹرز ، دائیوں پر انحصار بڑھا اور اتائی ڈاکٹرز مافیا کو فروغ حاصل ہوا ۔ اتائی ڈاکٹرز کے نام نہاد کلینک کی حالت زار دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں صحت مندانہ ماحول ہے ، آنکھ ، کان ، گلے ، ہڈی ، دانت اور مخصوص امراض کے علاج کے نام پر انسانوں کی زندگیوں سے کھلے عام کھیلا جارہا ہے ۔ علاقہ پولیس براہ راست کاروائی بھی اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ یا افسراس کی شکایت نہ کرے اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر کے ساتھ کم ازکم اسسٹنٹ کمشنر یا ایس ڈی ایم موقع پر موجود نہ ہو ۔ یا پھر ان کے احکامات پر عمل درآمد کروانے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر کے ریڈر کا موقع پر ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی جعلی کلینک کو کسی کولیفایڈ ڈاکٹر کی ڈگری کے نام پر کھولا جاتا ہے ۔ وہ ڈاکٹر اُس کلینک میں خود موجود نہیں ہوتا لیکن اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ مخصوص معاوضے پر فروخت کردیتا ہے جس کو آویزں کرکے اتائی ڈاکٹر جہاں کلینک چلا رہے ہوتے ہیں وہیں نجی میڈیکل اسٹور سمیت زچہ خانہ بھی کھولا ہوا ہوتا ہے۔ جہاں ایک طرف غیر قانونی طریقہ کار سے علاج کیا جاتا ہے تو دوسری جانب یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ان جعلی کلینک کی آڑ میں قبحہ خانے اور غیر قانونی اسقاط حمل بھی منظم اندا ز میں اداروں کی ملی بھگت کے ساتھ کرائے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے صحت کی عدم سہولیات پر ایکشن لینا ایک صائب اور مثبت اقدام ہے ۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں اور اتائی ڈاکٹروں کے خلاف سخت اقدامات بھی قابل تعریف ہیں ۔ لیکن ان اقدامات کا اثر صرف وقتی رہتا ہے اور موثر طور پر مستقل بنیادوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا ۔حکومت کی تبدیلی یا نوٹس لینے کے بعد دیگر معاملات کی جانب توجہ کے سبب ناقص صورتحال دوبارہ قائم ہوجاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے دوروں کے حوالے سے چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے کہ لاکھوں مقدمات پر توجہ دینے کے بجائے انتظامی معاملات میں عدالت عظمیٰ کی توجہ اداروں میں مداخلت کا سبب بن رہی ہے ۔ لیکن غیر جانبدار ہوکر یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی صورتحال درست ہوتی اور متعلقہ ادارے اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام پر توجہ دیتے اور عوام کی تکالیف کا ازالہ کرتے تو انہیں آج شرمندگی کا سامنا نہیں ہوتا ، صوبوں کے اعلیٰ افسران کو چیف جسٹس کے سامنے ہاتھ باندھ ’’ سور ی ، سوری ‘‘ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔ جو کام وہ اب کررہے ہیں وہ پہلے بھی کرسکتے تھے ۔ لیکن عدم توجہ اوراپنے فرائض سے غفلت برتنے کے سبب ہی آج تمام صوبائی حکومتوں کو شرمندگی کا سامنا ہے ۔ ہماری ترجیح صحت و تعلیم کے بجائے ایسے منصوبوں پر ہے جس سے عوام کی تکالیف کا براہ راست ازالہ نہیں ہوتا ۔ صحت عامہ کے مسائل کے حل کے لئے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں میڈیکل کالجز سے فارغ التحصل ڈاکٹرز کو پابند کیا جائے کہ وہ دیہات اور پس ماندہ علاقوں میں قائم سرکاری ڈسپنسریوں میں بھی کام کریں گے ، انہیں سرکار کی جانب سے ایسا پیکچ ملنا چاہے کہ ماہر امراض ہونے کے بعد بھاری فیسوں سے اپنے لاکھوں روپوں کے اخراجات واپس کرنے کے لئے غریب عوام کے لئے بھی اپنی خدمات مہیا کریں ، سرکاری ڈاکٹرز کے پرائیوٹ کلینک کی اجازت پر پابندی ہونی چاہیے تاکہ جب تک وہ سرکار کی ملازمت ہے اپنی توجہ مریضوں دے ، اس عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کہ سرکاری ڈاکٹرز مریضوں کو اپنے پرائیوٹ کلینک میں آنے کی ترغیب دیں ۔ پروفیسر ، فزیشن ، سرجن یا ماہر امراض کے تربیت یافتہ معالج کو ریاست سے اتنا ریلیف بھی ملنا چاہیے کہ وہ پرائیوٹ جابز پر مجبور نہ ہوں ، اسی طرح بیرون ملک جانے والے اُن ڈاکٹرز کو بھی پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ بیرون ملک خصوصی شعبے میں مہارت کے بعد پاکستان میں انہیں واپس آکر اپنی خدمات دینی ہونگی ۔ میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ایسی خاتون ڈاکٹرز جو ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد غیر فعال ہوجاتی ہیں ، انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر بننے کے بعد صحت کے شعبے میں عملی طور پر بھی کردار ادا کریں ۔ جو خواتین ڈاکٹرز ایم بی بی ایس کے بعد عملی کردار ادا نہیں کرتیں ان کی ڈگری منسوخ کردینی چاہیے ۔ اسی طرح زچہ و بچہ کی حفاظت کے لئے سرکاری سطح پر میٹرنٹی ہومز کو جدید واضافے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں نوزائیدہ بچے پیدائش کے فوراََ بعد جاں بحق ہوجاتے ہیں کیونکہ طبی مراکز میں تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے اور جعلی فی میل ڈاکٹر و دائیوں کی وجہ سے سالانہ لاکھوں بچے پیدائش کے فوراََ بعد وفات کرجاتے ہیں ۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے2009میں بھی اتائی ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی کرنے کے احکامات دیئے گئے تھے لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ اتائی ڈاکٹرز دوبارہ فعال و منظم ہوگئے ۔ اِس وقت بھی عدالت عظمیٰ کی جانب سے اتائی ڈاکٹرز کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایات ہیں اور ان پر کچھ عمل بھی کیا جارہا ہے لیکن اتائی ڈاکٹرز کے خلا کو پورا اور عوام کو صحت عامہ کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔عدالت عظمیٰ کو اتائی ڈاکٹرز و جعلی کلینک کے خاتمے کے ساتھ طبی خلا کو پورا کرنے کے لئے بھی غور کرنا ہوگا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659055 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.