ہم اور تعلیمی فکر

قارئین بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے کسی موضوع پر بات کرنا، کیونکہ پچھلے 70سال سے جو نظام عدل، وڈیرہ شاہی کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ، ان نتائج کی روشنی میں حق بات کرنا یا اپنی رائے کا اظہار کرنا کوئی اتنا آسان نہیں۔ لیکن قلمکار پھر بھی اپنی حیثیت اور ضمیر کے مطابق اپنی رائے کااظہار کرتے رہتے ہیں۔ عزیز والدین اور طلباہم سب موسم گرما کی چھٹیوں کا بڑی بے چینی سے انتظارکرتے اور بڑی ہی گرمجوشی سے اس چھٹیوں کے اعلان کا استقبال بھی۔ بچے، والدین اور اساتذہ ہم سب اس میں شامل ہیں۔ بعض اوقات تو والدین ادارہ سے پوچھتے ہیں کہ چھٹیاں کب ہو رہی ہیں؟ کیونکہ سب کا پلان ہوتا ہے کوئی ننہال، دادیال ۔ جونہی چھٹیوں کا اعلان ہوتا ہوا توسوشل میڈیا پر ریمارکس پڑھنے کو ملے کہ اب تو چاہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر وزیر تعلیم کے ہاتھ چومنے چاہیں کہ چھٹیوں کا اعلان جلدی کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم کبھی واپس پیچھے مڑ کر دیکھا کہ ان چھٹیوں کا فائدہ کتنا اور نقصان کتنا ہو رہا ہے۔ میں بطور ایک ٹیچر (رول ماڈل) اتنا کیوں خوش ہوں ، کوئی فکر نہیں کہ میری قوم کا مستقبل لگا تار ایک عرصے کے لیے اپنے مقصد سے دور ہو جاتے ہیں ۔ اور میں بطور ٹیچر خود ان کو کیسے بطور رول ماڈل کچھ دے سکوں گا، اسی طرح والدین جو پہلے ہی بچے کو وقت دینے سے قاصر ہیں وہ بھی اتنے ہی خوش ہیں آخر کیوں۔ چھٹیوں کے اعلان سے میں ذاتی طور پر ڈسٹرب رہا ، کہ اب گرمی کوئی روٹین سے زیادہ تو نہیں تھی پھر سابقہ شیڈول کے مطابق چھٹیاں کیوں نہ کی گئیں، جبکہ تمام سکولز نے جون کے پہلے ہفتے تک کا اپنا اپنا شیڈول جاری کر رکھا تھا، لیکن اس بار زبردستی کی چھٹیوں نے تمام شیڈولز کا بیڑاغرق کر دیا ۔ پھر جو سکول حکومت کے اعلان کے مطابق بند نہیں کیا گیا اسے زبردستی بند کروایا گیا ، یا پھر وارننگ جاری کی گئی اور جرمانہ کرنا تو ایک معمول کی بات ہے۔ مجھے موسم گرما کی چھٹیوں کا یا شیڈول کے ڈسٹرب ہونے کا اتنا زیادہ دُکھ یا افسوس نہیں ہوا جتنا مجھے بکھرتی ہوئی اور آخری سانسیں لیتاہوا تعلیمی نظام پر ہوا۔سوال یہ ہے گرمیوں کی چھٹیاں کیوں ہوتی ہیں؟ایک سروے کے مطابق موسم گرما کی تعطیلات اس وقت بے حد ضروری تھیں جب ہم نئے نئے آباد ہوئے تھے، کوسوں میل سفر طے کر کے سکول یا کالج جانا پڑتا تھا جبکہ اس دور میں ٹرانسپورٹ کا بھی کوئی خاص بندوبست نہ تھا ، نہ کوئی سائیکل ، موٹر سائیکل یا بس کا بندوبست بھی نہ تھا اور نہ ہی بجلی کی فراہمی تھی، لہذا گرمیوں میں پیدل آنے والے بچے یا بچیاں گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے بیمار ہو جاتے یا پھر سکول میں گرمی کی وجہ سے حاضری کم ہو جاتی ۔جبکہ اب سکول تقریبا ً ہر گاؤں ، گلی ، محلے میں قائم ہیں اب صرف اور صرف کالج یا ہائیر ایجوکیشن کے لیے طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ ورنہ حصولِ تعلیم کے لیے کہیں زیادہ دور نہیں جانا پڑتا یہاں پر قابل غور امر یہ ہے کہ اب پاکستان کو آزاد ہوئے 70سال ہو گئے ہیں، ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش میں ہیں، ہم گرمیوں کی چھٹیوں کا بہانہ بنا کر تعلیمی ادارے بند کردیں ، بہتر تو یہ تھا کہ اس تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے حکومت وقت سے مطالبہ کیا جاتا کہ سکولز میں اب 70سالہ پرانی صورت ِ حال نہیں ہے لہذا سکولوں میں سہولیات دی جائیں (ائیر کولر وغیرہ ) تاکہ بچے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھیں، اگر یہ کہہ دیا جائے کہ دہشت گردی کی وجہ سے بھی سکول بند کروانا پڑے ہیں تو پھر بھی والدین کا مطالبہ ہونا چاہیے تھا کہ جب ہم اپنا پیٹ کاٹ کر بے بہا قسم کے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، جس ملک میں لوڈ کروانے ، چیز خریدنے ، پنکھا چلانے، کپڑے استری، پانی کا گلاس پینے، پانی والا پمپ چلانے، اے سی چلانے ، ائیر کولر چلانے حتیٰ کہ گھر کے باہر لگی ہوئی گھنٹی کو بجانے پر بھی ٹیکس دیا جائے اور پھر بھی ہم غیر محفوظ ہیں تو کیا فائدہ ایسے اداروں کا جو اس معاشرے یا سکولز کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ ایکVIP کے تحفظ کے لیے ہمارے ہی پیسے کتنے کتنے سکیورٹی اہلکار تعینات کیئے جاتے ہیں جہاں سے بے شمار قوم کے لیڈر ، ڈاکٹر انجینئر ، سائنسدان پیدا ہونے ہیں تو ان اداروں کو بند کروا دیا جائے۔ پھر مجھے افسوس ہے والد ین پر جو بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں اور بچوں کو اعلیٰ عہدوں پر بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسے موقعوں پر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے تھا کہ پریس کلب میں جا کر اپنا اپنا موقف ریکارڈ رکرواتے کہ اگر حکومت سکولوں میں سہولیات دینے سے قاصرہے تو ہم والدین خود سے ائیر کولر وغیرہ لے کر دیتے ہیں تاکہ بچوں کی تعلیم اور قوم کا مستقبل خوامخواہ تباہ نہ کیا جائے۔لیکن کسی ایک والدین کی طرف سے کچھ بھی سامنے نہیں آیا ۔ جب ہم ایسے ہی خاموش رہیں گے اور تعلیم کو وقت نہیں دیں گے تو پھر باقی ترقی یافتہ قوموں سے موازنہ بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ترقی یافتہ قوموں کے اصول ہوتے ہیں۔ تھوڑا سا وقت نکال کر جمع تقسیم کر کے دیکھیں کہ پہلے ہی ہمارے بچے سال میں کتنے دن سکول جاتے ہیں۔ ایک سال میں 52اتوار، گزٹڈ چھٹیاں، دسمبر کی چھٹیاں، گرمیوں کی چھٹیاں ، کسی نہ کسی میلے کی چھٹی، عید اور شب برات کی چھٹیاں، پھر اپنی ذاتی دھکا چھٹیاں، سب کو جمع کیا جائے تو شائد ہی سال میں 150دن بچے سکول جاتے ہوں۔ ذرا سوچا جائیں باقی 215 دن کہاں گئے، ٹیچر کو تنخواہ بھی ملی ، پھر ہمارے بچے سکول سے کیوں دور رہے۔ آئیے اس پر ذرا سوچیں تاکہ ہمارا آنے والا کل محفوظ ہو اور بہتر طور پر اپنا مستقبل سنوارنے کے قابل ہو سکے۔ آمین۔ کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت۔ شکریہ
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 154876 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More