قائداعظم کا پاکستان

قائداعظم محمد علی جناح نے25مارچ 1948کو سرکاری ملازمین سے خطاب کے دوران انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا
آپ اپنے جملہ فرائض قوم کے خادم بن کر ادا کریں آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیے اقتدار کسی بھی سیاسی جماعت کو مل سکتا ہے آپ ثابت قدمی ایمان اتحاد اور عدل کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی نہ برتیںاگر آپ میری نصیحتوں پر عمل پیرا ہوںگے تو عوام کی نظروں میں آپ کے رتبے اورحیثیت میں اضافہ ہوگا۔

قائداعظم محمد علی جناح نے25مارچ 1948کو سرکاری ملازمین سے خطاب کے دوران انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا

آپ اپنے جملہ فرائض قوم کے خادم بن کر ادا کریں آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیے اقتدار کسی بھی سیاسی جماعت کو مل سکتا ہے آپ ثابت قدمی ایمان اتحاد اور عدل کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کو تاہی نہ برتیں اگر آپ میری نصیحتوں پر عمل پیرا ہوںگے تو عوام کی نظروں میں آپ کے رتبے اورحیثیت میں اضافہ ہوگا۔

اُس وقت ہم انگریزوں اورہندوؤں سے اس لیے تنگ تھے کہ وہ ہر شعبے میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب،گروہ بندی اور فرقہ واریت جیسے گھناؤ نے خیالات کا مظاہرہ کرتے تھے مسلمانوں کو نیچ قوم کی مانند سمجھا جاتاتھااور بنیادی حقوق سے محروم کرکے ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھاپھر ہمارے آباؤ اجداد نے بے مثال قربانیوں کے بعد ہمارا پیارا ملک پاکستان حاصل کرکے ہمارے حوالے کیا ۔آج ستر برسوںکے بعد کیا ہم اسی دوراہے پر دوبارہ جاکھڑے نہیں ہوئے آج ہمارے ساتھ تعصب کا مظاہر ہ کون کررہا ہے؟آج ظلم کون کر رہاہے ؟آج ہمیں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کون کررہا ہے؟ یہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے ملک کا ہمارے اپنے دین کا ہمارا ہم وطن سرکاری ملازم مسلمان بھائی ہے وہ بھائی جس نے اس ملک کی ترقی کے لیے عام آدمی کی خدمت کا حلف اٹھایاتھاوہ آج عام آدمی کے سر پرظلم اور کرپشن کی تلوار لٹکائے بیٹھا ہے اسے نہ اپنے ملک کی کوئی فکر ہے نہ ہی اپنے مذہب کی نا ہی اپنے ہم وطن مسلمان بھائیوںکی اس کا مقصد صرف وصرف پیسہ اکٹھا کرناہے ،اپنے سے اوپرا فسران کی خوشامد کرنااور انہیں ان کا حصہ پہنچانااور اپنے سے نیچے والے عہدیداران سے اپناحصہ وصول کرناہے۔

اصولاًتو اس کا باس عام آدمی ہونا چاہے مگراس کا باس ہر منتخب ہونے والا سیاستدان ہوتا ہے جو اس کو اس لیے تحفظ فراہم کرتاہے تاکہ اس کا حصہ اس کو ملتا رہے کیونکہ منتخب ہونے والے سیاستدانوںنے عوام پر جو رقم الیکشن کے دوران خرچ کی ہوتی ہے وہ اس نے پوری کرنا ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں یہ پتا نہیں ہوتا کہ کب انتخابا ت کا نیا شیڈو ل جاری ہوجائے لہٰذا آئندہ آنے والے الیکشن کے لیے مزید رقم بطور ایڈوانس بھی جمع کرنی ہوتی ہے ۔

سرکاری ملازمین اور سیاست دانوںکا اتفاق اور باہمی رابطہ پوری دنیا میں مثالی کردار سمجھاجاتاہے اور ہر ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم ترین قرار دیا جاتاہے اس کے برعکس ہمارے ملک میں باقی تمام شعبوں میں ادارے اور سیاستدان ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں لیکن کرپشن کے معاملے میں ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کا دفاع کرتے نظر آتے ہیںاب تو سیاستدانوں کے منہ سے بھی اسی قسم کے الفاظ سننے کو ملتے ہیںکہ کرپشن سب کا حق ہے اس میں سے سب کو حصہ ملنا چاہیے کلرک کی سیٹ پر بیٹھاہوا شخص بھی اپنے آپ کو محکمے کا سربراہ سمجھتاہے حالانکہ اسے تو اپنے غریب بھائیوں کا احساس کرنا چاہیے ۔

بڑے بڑے افسران تو ویسے ہی صنعتکاروں اور جاگیرداروں کے مفادات کے ضامن بننے کی کوشش میں مصروف عمل ہوتے ہیںحالات اس سٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ سرکاری افسران اور سرکاری ملازمین کو آپس میں بھی ایک دوسرے پراعتماد نہیں رہاآپ اپنے کسی کام کے لیے اگر سرکاری ملازم کی سفارش لےکر جاتے ہیں تو وہ سرکاری ملازم جس نے آپ کا کام کرنا ہوتا ہے کام کو مزید بگاڑ دیتاہے یاپھر وقتی طور پر ہاں کر کے کام کرنے کی بجائے کام کو مزید لٹکا کر چکر لگواتا رہتاہے ۔ اب کام صرف اس کا ہوتاہے جو رشوت اور سفارش دونوں ساتھ رکھتاہے ان کی اصلاح کرنے یاان پر ایکشن لینے کی بجائے حکومت سب اچھا ہے کی رٹ لگاتے ہوئے ان کو مزید تحفظ فراہم کرتی ہے۔

قائداعظم کا پاکستان ایمان اتحاد اور تنظیم تھا اب ہمارا پاکستان کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے ایمان کی تو ساری دنیاتک یہ خبر پہنچ چکی ہے کہ پاکستانیوںکا کو ئی دین و مذہب نہیںماسوائے پیسے کے، اتحاد صرف اور صرف کرپشن کے تحفظ کے لیے ہے اور رہی بات تنظیم کی اگر وہ بھی کسی شعبے میں نظر آتی ہے تووہ شعبہ کرپشن کاہے اگر ہم ایمان کی روح سے بات کریں تو معلم بھی علم بیچ رہاہے مولوی بھی اسلام بیچ رہاہے اور ہم خود بھی اپنے آپ کو بیچ رہے ہیں ہمارا بال بال قرض میں جکڑ چکاہے کاش ہمیں اب بھی عقل آجائے ابھی بھی تھوڑا بہت وقت باقی ہے اگر ہم اب بھی نہ جاگ سکے تو پھر صدا سوتے رہیںگے پھر (خدانخواستہ) نمرود اور فرعون جیسے ظالم حکمرانوں کا نفاذہوجائیگا
(بحوالہ قرآن ! کہ اے ایمان والو اگر تم سیدھے راستے پر نہیں آئے تو ہم تم پر ظالم حکمران مسلط کر دیں گے اور ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ تم مسلمان ہو یاغیر مسلم )

پھر ہم آزاد نہیں بلکہ محکوم قوم بن کر ظلمت اور ذلت کی زندگی بسر کریں اور ہم کہیں گے کہ ہم بھی کبھی آزادی اور عزت کی زندگی بسر کرتے تھے آزادی بہت بڑی نعمت ہے خدارا اس کی قدر اور عظمت کو پہچانیے پوچھیںان سے جن کے پاس یہ نعمت نہیں ہے بجائے اس کے کہ ہم کسی اور کے لیے جدوجہد کریںہمیں اپنے گھر کا خیال کرنا چاہیے ہماری اپنی آزادی ماند پڑ رہی ہے ۔دنیاپہلے ہی بہت آگے نکل چکی ہے اپنے وسائل محفوظ کرکے ہمارے وسائل پر نظریں گاڑے ہوئے ہے اس سے پہلے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے خداکر ے کہ ہم راہ راست پر آجائیںاب کی بار بھی ہم نہیں جاگے تو ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں کا گھر بھی جاتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )

Adnan Ahmad jan
About the Author: Adnan Ahmad jan Read More Articles by Adnan Ahmad jan: 2 Articles with 1545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.