اثبات :ادب کی آفاقی قدروں کا ترجمان

اثبات کے تازہ شمارے پر اظہار خیال کرنے سے قبل یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بند آنکھوں سے کسی کی توصیف یا تنقیص کوئی معنی نہیں رکھتی یہ دونوںہی چیزیںکھلی آنکھوں صدق دلی سے ہی ممکن العمل ہوسکتی ہیں ۔اس اصول کے تحت میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ نہ تو میں اثبات کا طرفدار ہوں نہ ہی اس کے مدیر اشعر نجمی کا لیکن اس کے مشمولات کی انفرادیت ، ندرت ،معیار اور غیر معمولی اہتمام کے ساتھ اس کی بیباک و بیدار ادارت اور تحریری جرأت مندی کا یقیناً طرفدار ہوں اور کیوں نہ رہوں کہ ابھی میرے اندر ون وہ چیز اگرچہ پوری طرح متحرک نہیں لیکن زندہ ضرور ہے جسے ضمیر کہا جاتا ہے ۔کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق ،صداقت و انصاف انسانی معاشرت کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی بھی ذی روح کیلئے خوراک و پانی ،اس کے بغیر حیات انسانی ایک قدم بھی نہیں چل سکتی ۔لیکن یہ المیہ ہے کہ آج ان عناصر سے تہی دامنی ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے ۔ہم دیگر ضروریات کے حصول میں پوری طرح متحرک و فعال نظر آتے ہیں لیکن اقدار گم گشتہ کی تلاش میں سراسربودے اور سست گام

اثبات کے دوسرے دورکے۱۷؍ویں شمارہ اپریل ۲۰۱۸کی اشاعت منظر عام پر آچکی ہے۔ ممکن ہے اسے میری خوش گمانی سمجھی جائے یا پھر وہم قرار دیا جائے لیکن میرے نزدیک یہ حقیقت ہے کہ اس کی ترتیب و اہتمام اور معیار کی انفرادیت کو مستحکم رکھنے کیلئے روز اول سےجومحنت و جانفشانی کی جاتی رہی ہے اس کا عشر عشیر بھی دیگر رسائل و جرائد کے مدیران نہیں کرپاتے یا کرنا نہیں چاہتے یا پھر کرہی نہیں پاتے ۔اثبات کے تازہ شمارے پر اظہار خیال کرنے سے قبل یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ بند آنکھوں سے کسی کی توصیف یا تنقیص کوئی معنی نہیں رکھتی یہ دونوںہی چیزیںکھلی آنکھوں صدق دلی سے ہی ممکن العمل ہوسکتی ہیں ۔اس اصول کے تحت میں وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ نہ تو میں اثبات کا طرفدار ہوں نہ ہی اس کے مدیر اشعر نجمی کا لیکن اس کے مشمولات کی انفرادیت ، ندرت ،معیار اور غیر معمولی اہتمام کے ساتھ اس کی بیباک و بیدار ادارت اور تحریری جرأت مندی کا یقیناً طرفدار ہوں اور کیوں نہ رہوں کہ ابھی میرے اندر ون وہ چیز اگرچہ پوری طرح متحرک نہیں لیکن زندہ ضرور ہے جسے ضمیر کہا جاتا ہے ۔کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق ،صداقت و انصاف انسانی معاشرت کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کسی بھی ذی روح کیلئے خوراک و پانی ،اس کے بغیر حیات انسانی ایک قدم بھی نہیں چل سکتی ۔لیکن یہ المیہ ہے کہ آج ان عناصر سے تہی دامنی ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے ۔ہم دیگر ضروریات کے حصول میں پوری طرح متحرک و فعال نظر آتے ہیں لیکن اقدار گم گشتہ کی تلاش میں سراسربودے اور سست گام ،حد تو یہ ہے کہ اس کے تصور سے بھی ہم نے خود کو آزاد کرلیا ہے ۔اثبات زندگی اور ادب کی انہی آفاقی قدروں کی تلاش میں سرگرم ہے جو ہمارے معاشرے سے نکل کر کونوں کھدروں میں پناہ گزین ہوگئی ہے ۔ حالانکہ ان قدروں کو برتنا اور اس کی جوت دلوںمیں جگانا ہم سبھی کیلئے فرض اولین کا درجہ رکھتا ہے ۔ادارتی صفحات میں مدیر نے ناول ، فکشن یا دیگر کسی بھی تحریر کی افادیت ،حقانیت اور اثر انگیزی پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئےکچھ اہم اور بنیادی نکتے تلاش کئے ہیں جواصحاب قلم کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اداریئے سے ایک اقتباس ہم نذر قارئین کررہے ہیں ۔

’’میں نے اچھے برےمختلف قسم کے فکشن کو پڑھنے کے بعد ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلی ہے کہ تخلیق کا فن سماج کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔یہ صرف اس شخص کیلئے اہمیت رکھتا ہے جو اس کے رابطے میں آتا ہے اور ایک فنکار یا ادیب کیلئے بھی وہی شخص اہم ہوتا ہے یا ہونا چاہیئے ۔ایک اچھا ناول نگار ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ اپنے تصورات کے حق میں بے ریا ہو ، صاف گو ہو ،اسے اس بات کی فکر نہ ہو کہ وہ کچھ لکھ رہا ہے اس میں کتنا سچ ہے ۔مثلا ً وہ ایک کہانی لکھتا ہے اس لئے کہ اس پر اسے یقین ہوتا ہے لیکن یہ اعتماد اس طرح کا نہیں جس طرح کا کوئی تاریخ پر کرتا ہے بلکہ یہ یقین اس طرح کا ہوتا ہے جیسا اپنے خوابوں اور خیالوں پر کیا جاتا ہے ۔مجھے سیاسی ناولوں اور سماج میں انقلاب لانے کی احمقانہ خواہش سے لکھے گئے ناول سے زیادہ اکتا دینے والی کوئی دوسری چیز نہیں ملی ۔سب سے مشکل کام انسانوں کے بارے میں پوری دیانت داری سے لکھنا ہوتا ہے اور اس کے لئے سب سے پہلے ایک ناول نگار کو اپنا موضوع جاننا ہوگا اور پھر یہ کہ اسے لکھا کیسے جائے ۔میرے خیال میں دونوں کو جاننے میں پوری زندگی نکل جاتی ہے پتہ نہیں لوگ ہر چھ ماہ میں کیسے ایک ناول لکھ مارتے ہیں ۔ ‘‘

بین الاقوامی شہرت کی حامل فکشن نگار اروندھتی رائے کے نئے انگریزی ناول The Ministry Of Utmost Hopiness( بے پناہ شادمانی کی مملکت ) کے تعلق سے چار مضامین شامل اشاعت ہیں جن میں ایک تو مذکورہ ناول کا نواں باب ہے جسے ارجمند آراء نے بڑی نفاست و مہارت سے اردو کے قالب میں ڈھالاہے ،دیگر تین مضامین تجزیاتی و تاثراتی نوعیت کے ہیں جو آصف فرخی ، محمودالحسن اور ارجمند آراء کے زور قلم کا نتیجہ ہیں جس کی روشنی میں ناول کے سیاق و سباق اور اس کے مقصدکی بڑی حد تک تفہیم ہوجاتی ہے ۔اس کے علاوہ گلزار کے ناول’ دولوگ ‘کا ایک باب بھی شامل اشاعت ہے جو تقسیم ہند کے پس منظر میں تحریر کیاگیا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ بٹوارہ صرف ملکوں کا ہی نہیں نسلوں کا بھی ہوتا ہےجس کے کرب کی گہری لکیریں آج بھی محسوس کی جاسکتی ہیں اور اس کے ہولناک نتائج اپنی انتہا کو چھورہے ہیں۔’حاشیہ نشینوں کا کرب ‘ مشہور دانشور و ادیب شمس الرحمان فاروقی کا وہ مضمون جوابھی حال ہی میں انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سےموجودہ صورتحال خاص طور پر مسلمانوں کی حالت زار سے متعلق ہے جس میںان کے اس درد پیہم کا تذکرہ ہے جو آج ان پر چہار جانب سے انڈیلا جارہا ہے ،مضمون کے کچھ مشمولات پر مدیر اشعر نجمی اور تصنیف حیدر نے سخت انداز میں تنقید کرتے ہوئے یہ باور کرنے کی کوشش کی ہے کہ غلطیاں اور خامیاں کبھی یکطرفہ نہیں ہوتیںانصاف کا حصول اور امن کا قیام تبھی ممکن ہے جب فریقین احتساب غیر سے زیادہ خود احتسابی کے وصف سے آشنا ہوں ۔آج سارا فتنہ اسی عدم توازن کا شاخسانہ ہے ۔شمارے میں ایک مضمون ’ہمارے آباد و اجداد ‘ مولانا عبدالماجد دریابادی کی آپ بیتی سے لیا گیا ہے جس میں قدیم ہندوستان کے اندر پنپنے والی ذات پات کی اس ہولنا ک تفریق کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے جس کے اثرات کچھ جزوی اصلاحات کے باوجود آج بھی لوگوں کی رگوں میں سرایت کئے ہوئے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں۔

’’ نائی ،دھوبی ، بھشتی ( سقہ ) ،دھنیئے ، جلاہے ،لوہار ، بڑھئی ، مزدور ، کسان ، قلی وغیرہ سارے پیشہ ور ’ کمینے ‘ قرار پاگئے تھے اور شرافت کا معیار یہ ٹھہر گیا تھا کہ نسب میں ’ میاں لوگوں ‘ کی ٹکر کا کوئی بھی نہیں ۔اونچی اور شریف ذاتیں صرف شیخ و سید میں محدو د ہوکر رہ گئی تھیں اور پھر باہم ان میں بھی تفاضل ۔اور شیخوں کی شیخی کی کوئی حد ہی نہیں ۔اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرنا سو عیبوں کا ایک عیب اور سو ذلتوں کی ایک ذلت ۔تجارت ، دوکانداری ، کاشت کاری سب میں ہماری سبکی اور توہین ۔برادری کا اصرار تھا کہ یہ سب غلام ہیں ، کمینے اور نیچ ،نہ ان کی عزت نہ کسی انسانی اکرام و احترام کے مستحق ،سوا اس کے کہ انہیں پیٹ بھر کھانے کو دے دیا جائے ،گویا یہ انسان تھے ہی نہیں ،چوپائے تھے جن کا محض قالب انسانی تھا ۔اچھوت پن کی لعنت ہندوؤں تک کب محدود رہی تھیں ،مسلمانوں میں خصوصاًہم میاں لوگوں میں پوری طرح سرایت کرگئی تھی ۔ ‘‘

فرنود عالم کا مضمون ہندومسلم منافرت اور اسباب ووجوہات پر ایک عمدہ تحریر ہے ،اسی طرح ارجمند آرا نے ’مدرسے اور مسلم تشخص کی تشکیل ‘کے عنوان سے اسلامی مدارس کا برصغیر کے تاریخی اور معاشرتی تناظر میں جائزہ پیش کیا ہے ۔ژولیاںکولوموفرانسیسی نژاد فکشن نگار ہیں جو اردو کے ساتھ ہی ہندی ،سنسکرت ،پنجابی اور سرائیکی بھی جانتے ہیں ان کے دو افسانے شریک اشاعت ہیں۔ہندوستانی اردو ادب میں انہیں متعارف کرنے کا سہرا اثبات کے ہی سر جاتا ہے ۔ اثبات کا تفصیلی مطالعہ بہر صورت یہ واضح کرتا ہے کہ ادب اوررو بہ زوال انسانی قدروں پر اس کی گہری نظر ہے۔ جہاں تک اتفاق و اختلاف کی بات ہے وہ روز ازل سے جاری ہے وہ یہاں بھی موجود ہے اور ہر ایک کو اس کا حق بھی ہے ۔کتابت کی غلطیاںکم سہی مگر موجود ہیں ان پر بھی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ۲۴۸؍ صفحات پر مشتمل اس شمارے کی قیمت ۱۰۰؍ روپئےمناسب ہے ۔ قارئین ان نمبروں پررابطہ کرسکتے ہیں ۔مدیر : 8169002417 انتظامیہ : 9867798042

Waseel Khan
About the Author: Waseel Khan Read More Articles by Waseel Khan: 126 Articles with 94482 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.