ہائے کرپشن

 قدرت نے پاکستان کو مالامال بنایا ہے یہاں بےشمار وسائل ہیں سمندر، دریا ،پہاڑ ،میدان، چار موسم ،معدنیات اور سب سے بڑھ کر محنتی لوگ مگر اس سب کی ناقدری اور ناقص منصوبہ بندی نے اسے غیر معمولی نقصان پہنچا یا ۔توانائی کا بحران،معاشی بحران، بےروزگاری،سیاسی عدم استحکام اور دہشتگردی نے پاکستانی کے امن و سکون کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔آگرچہ پاکستان کو علیحدگی کے وقت سے ہی بہت سی مشکلات کا سامنا تھا مگر اس وقت قائداعظم،لیاقت علی خان اور ان کے ساتھیوں نے ان حالات کو بہت حد تک کنڑول کر لیا ،پاکستان کا مثبت پہلو دنیا کے سامنے آنے لگا ،مگر ان کے بعد اقتدار کے ایک ایسی جنگ شروع ہوئی جن نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آج بھی جاری ہے ،جہاں آزادی کی تحریک کھونجتی رہی مگر سننے والے نہ ملے یوں ایک ایسا لولالنگڑا نظام وجود میں آیا جس نے جسم تو آزاد رہنے دئیے مگر شعور چھین لیا، کان اور آنکھیں تو تھیں مگر سننے اور دیکھنے کی صلاحیت نہ رہی ۔پاکستان کے بنکر، کاروباری افراد ،ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان جن کی قابلیت کا دنیا اعتراف کرتی ہے ، ہمارے بیشتر نوجوان طبقہ مناسب روزگار کی خاطر دوسرے ممالک میں اپنے خدمات سرانجام دے رہے ہیں جس وجہ سے ہم اس کے ہنر سے محروم رہتے ہیں کیونکہ ہمارے سٹم انہیں نااہل قرار دیتے ہوئے ڑوٹی،کپڑا اور مکان کی ایسی چکی میں گھماتا ہے جہاں وہ کسی قابل نہیں رہتے ۔

کسی بھی ملک کی تباہی میں کرپشن سرفہرست ہوتی ہے ،کرپشن اور معاشی بدحالی ایک دوسرے سے مکمل حد تک منسلک ہیں جس سے غربت پروان چڑھتی ہے اور معاشرہ تباہ وبرباد ہو جاتا ہے ۔کرپشن دیمک کا کردار ادا کرتی ہے جو سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اس وجہ سے ملک میں امن و امان کو نقصان پہنچا تا ہے اور محتلف فسادات ہوتے ہیں جو ملک کی ترقی کے لئے زہر قاتل ہیں۔کرپشن ہمارے خوابوں کانہ صرف گلہ گھونٹ رہی ہے بلکے ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جہاں ترقی کی راہ میں بہت سے چلنجز کا سامنا رہتا ہے، وہاں کرپشن ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جہاں کرپشن میں سب اوپر سے نیچےتک انوالو ہیں، حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک سب کسی نہ کسی طرح کرپشن میں ملوث ہیں ،چاہے یہ کرپشن کروڑوں کی ہو یا روپے کی ہو ۔مگر ہمارا ادارتی نظام اس کرپشن پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے ۔کرپشن کسی صورت حکمرانوں تک محدود نہیں رہ سکتی ،اگر حکمران کرپٹ ہو ں تو اس کے جراثیم عام آدمی تک منتقل ضرور ہو گے ۔جب ایوانوں میں نااہل کرپٹ طبقہ ہو جن کو اپنے مفاد سے زیادہ کسی چیز کی پروا نہ ہو وہاں ایوانوں کے باہر چور ڈاکو اور لٹیرے ہی راج کریں گے اور وہاں انصاف اپنی مرضی سے ہی خریدا جائے گا مگر عام آدمی کو یہ انصاف نہیں ملے گا ۔ تیسری مرتبہ بننے والے وزیراعظم نااہل ہو گئے، اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نکالے گئے وزیر خارجہ گئے اور نجانے کتنے ،جس کھاتے کو کھولو وہاں ہی لوٹ مار مچی ہوئی ہے، ہاوسنگ سکیم ہو یا کوئی اور سکیم، سب میں کرپشن ۔ اتنا پیسہ لگتا نہیں جتنے کی لاگت آتی ہے اب یہاں عوام کا کیا بنے ،جب افسران اور حکمران کو صرف اپنی جیب کی فکر ہو وہاں عام آدمی کی کیا حیثیت۔ ہمارا پورا نظام ہی کرپشن سے دوچار ہے اور یہ نظام معاشرے میں کرپشن کے فروغ کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود غذا کی کمی کا شکار ہے، ہمارے پاس پانچ بڑے دریا موجود ہیں مگر پھر بھی ہم آبی کمی کا شکار ہیں، توانائی کے وسائل کے باوجود ہمارے ہاں توانائی کی بھی کمی ہے، پاکستان کی پیداوار کی شرح نمو بہت کم ہوتی چلی جارہی ہے، غربت میں بہت اضافہ ہو رہا ہے، قومی ادارے ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، پاکستانی عوام کی بنیادی ضروریات سے محرومی عوام میں احساس محرومی، شورش، اہ، بدامنی کو فروغ دے رہی ہے ۔عام آدمی کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا جہاں اسے چودہ چودہ گھنٹے کام کرنے کے باوجود مناسب منافع نہیں ملتا، مناسب سہولتیں نہیں ملتی مگر ٹیکس اور منگائی کی بھرمار ہے جس نے جینا دشوار کر رکھاہے ۔اور اس کے ساتھ ملک میں ایسی تنظیمیں قائم ہیں جن کا کام ہی معاشرتی فسادات اور دہشت کو پھلانا ہے جو مذہب کا نام لے کر اپنا کالے کرتوت پیش کر رہیں ہیں اور بیرونی طاقتیں بھی ان سے فائدہ اٹھا رہی ہیں ،یہ سب معاشرتی توازن میں بگاڑ کے نتیجے ہیں ایسے میں بہتری لانے کے لئے بڑ ی تگ و دوڑ چاہیے ۔ایک طرف تو خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس پانی کے مسئلے سے لے کر دوسرے تمام مسائل پر نظر ثانی کر رہے ہیں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے بھی وہ پراعظم ہیں اور کوششیں کر رہے ہیں اور کہیں لوگ منظر عام پر آ رہے ہیں مگر دوسری طرف یہ بات افسوسناک بھی ہے کہ ہمارے ادارے اس قدر کمزور ہوچکے کہ وہ ان مسائل کو حل نہیں کر سکتے جن کے لیے انہیں تشکیل دیا گیا اور اس لیے چیف جسٹس کو ڈنڈے کے زور پر وہ کام کرانے پڑ رہے ہیں جو اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ نیب بھی اجکل کافی ایکٹیو دکھائی دے رہی ہے ، بہت سے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں مگر ضروری تو یہ ہے کہ یہ کام صاف شفاف طریقے سے ہو اور سب کےلیے ہو تاکہ تمام کالی بھیڑیں سامنے آئیں اور ان کا خاتمہ ہو سکے ۔حکومت اور ادارے میڈیا کے ساتھ مل کر اس زمر اپنے کردار کو سمجھتے ہوئے مناسب اقدامات اٹھائیں جس سے کرپشن کے سدباب کو مدد ملے اور شخصی کردار بہتر ہوں ۔افراد کو بھی اس زمر میں اہم کردار ادا کر نا ہے اپنے انتخاب کے ذریعے، جس میں قابلیت اور کردار کو نمایاں اہمیت حاصل ہو ناکہ ذاتی تعلقات اور مفادات کو ،اور ہمیں اسکے خاتمے کیلئے جہاں حکومتی اور ادارتی سطح پر بہتری لانی ہے وہی عام آدمی کو بھی اس لعنت سے خود کو بچاناہے اور اس لیے ضروری ہے اس سلسلے میں تربیت ہو تاکہ شخصی کردار بہتر ہو ں اور یہ تربیت گھر سے بہتر کہیں نہیں ہوسکتی ۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Asma Tariq
About the Author: Asma Tariq Read More Articles by Asma Tariq: 86 Articles with 59762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.