میں مخاطب ہوں نوجوانوں سے!!

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اس وقت سکے کے دو رخ نہیں بلکہ ایک تیسرے رخ کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں منتخب شدہ عوامی نمائندے اپنے قول و فعل کے اعتبار سے فیل ہو چکے ہیں اور اب ان کیلئے اعتماد کی فضا پھر سے عوامی حلقوں میں قائم کرنا انتہائی دشوار اور کٹھن مرحلہ نظر آتا ہے ۔ ملک بھر میں سیاست جیسے پیغمبرانہ شعبے کو گالی پڑوانا یا گالی دینا ہنوز کے اشرافیہ کی انتھک کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ملک بھر میں اس وقت تین فیصد اشراف طبقے کا راج چلتا ہے جس نے پچھلے تیس سالوں میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر رکھی ہیں کہ اگر وہ ملکی سالمیت کو بھی للکار دیں تو بھی انہیں کوئی رد کرنے کی زحمت نہیں کر سکتا ، اس بار نواز شریف کے حالیہ انٹرویو کے بعد قومی سلامتی کا پیش کئے جانے والے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اعلامیہ کو نااہل نواز شریف کی طرف سے رد کر دینا اور اس پر ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ اب یہ جمہوری بِلے باگڑ بِلے بن چکے ہیں ۔میں نے اپنی سابقہ تحریروں میں بارہا اس جانب اشارہ کیا تھا کہ پاکستان میں اس وقت استحکام ، قومی سلامتی ، نظریاتی و سرحدی بقاء ، معاشی استحکام اور سالمیت کی جنگ چل رہی ہے جس میں عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو چاروں جانب سے گھیر رکھا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو سویت یونین کی جنگ میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پاکستانی خفیہ ادارے پچھلے تیس سالوں سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں اور اس کو ہرانے کی خاطر وہ ہر طرح سے تابڑ تو ڑ حملوں میں مگن ہیں ۔ ایک کاروباری شخص کو سب سے زیادہ اپنی جان اور اس کے بعد اپنا کاروبار عزیز ہوتا ہے اور اسی چیز سے فائدہ اٹھایا اس عالمی اسٹیبلشمنٹ نے جس میں دنیا کی دس بہترین قسم کے خفیہ ادارے شامل ہیں ۔ آج تک پاکستان میں جمہوری حکومتیں جب بھی اقتدار میں آئیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی صورت عالمی اسٹیبلشمنٹ خاص طور پر اسرائیل کارفرما رہا ہے ، اور مارشل لاء کی بنیادی وجوہات یہ نہیں تھیں کہ ان جمہوریوں سے ریاست کے معاملات نہیں سنبھالے جاتے تھے بلکہ کچھ یوں ہونے لگتا تھا کہ یا تو ملکی سالمیت کا سودا ہونے لگتا تھا اور کہیں ایٹمی تنصیبات کے راز فاش ہونے لگتے تھے اور سب جانتے ہیں کہ آئین کے مطابق قانون نافذ کرنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ ملکی سالمیت و بقاء کو قائم رکھیں چاہے اس میں خطرہ خارجی ہو یا داخلی۔ اس کے پیچھے ایک اور بڑا راز یہ ہے کہ یہ چند جمہوری وراثتی اشراف نہ تو اس قدر تعلیم یافتہ ہیں اور نہ ہی ان میں اہلیت کا کوئی معیار ہے اور جن میں قابلیت ہے وہ کبھی آگے آ ہی نہیں سکے ، صرف خوشامد پرستوں کو بڑی بڑی وزارتیں مل جاتی ہیں جن کے پاس اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ ملکی معاملات کو صحیح سمت میں گامزن نہیں کر سکتے اور پھر کرپشن کی وجہ سے اور ہی معاملات تہہ وبالا ہو کر رہ جاتے ہیں جس کی بدولت آج پاکستان معاشی و خارجی سطح پر تباہی کے دہانے پر کھڑ اہے ۔ ہم اتنے معذور ہو کر رہ گئے ہیں کہ فلسطینی ، کشمیری ، شامی اور عراقی مسلمان بھائیوں کیلئے آواز اٹھانے سے قاصر ہیں ۔ ملک میں جاری موجودہ سیاسی صورتحال انتہائی تباہ کن نظر آتی ہے جس میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پہلے ہی اسرائیل کے اشاروں پر ناچ رہیں ہیں اور پی ٹی آئی کے پہیے کی ٹیوب میں بھی پنکچروں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ متحدہ مجلس عمل اور متحدہ دینی محاذ بھی قائم کیا جا چکا ہے جس میں وہ مذہبی جماعتیں شامل ہیں جو سیاسی طور پر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں لیکن ان اتحادوں میں نظریاتی اختلاف جوں کا توں ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن متحدہ مجلس عمل کے سربراہ ہیں لیکن اس میں شامل جماعت اسلامی اور مجلس وحدت مسلمین کا نظریاتی اختلاف ہے ۔ جس طرح ماضی میں یہ اختلاف نقصان کا باعث بنے تھے ہنوز میں بھی اس سے کچھ ہٹ کر نہیں نظر آتا ۔ متحدہ دینی محاذ میں اگرچہ کم مذہبی جماعتیں ہیں لیکن وہ قدرے نظریاتی طور پر مضبوط ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملی مسلم لیگ کا قیام ہے جس نے جماعت الدعوۃ کی صورت عملی میدان میں تمام تر تعصبات سے ماورا ہو کر نہ صرف ملک و ملت کی خدمت کی ہے بلکہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں جا کر ان کی خدمت کی ہے ۔زرداری کے حالیہ بیان کہ وہ عمران خان کے ساتھ اتحاد کرنے کیلئے تیار ہیں اور عمران خان کے سیاست میں اپنی طبیعت کے خلاف اقدامات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیاں محدود ہو کر رہ جائیں گی ۔ اور اتحاد کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو وفاق میں کوئی جگہ دے دی جائے لیکن اس سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اب پاکستان میں سیاستدانوں پر اعتبار نہیں کر سکتی کہ مستقبل میں انہیں کوئی بھی سیاسی جماعت کی حکومت یا مخلوط حکومت سرحدوں پر توجہ دینے اور خارجی و داخلی پالیسیوں کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے ۔ اس لئے ان کی نظر میں ضروری ہے کہ آئندہ حکومت کی باگ ڈور کوئی ایسا شخص سنبھالے جس کے طوطے میں سب جمہوریوں کی جان ہو ۔ نواز شریف کی سیاست اس میں بہت پیچھے رہ جائے گی کیونکہ وہ جس سوچ میں مگن ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اس کا کوئی ساتھ دے گی تو اس وقت پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ سعودیہ ، ترکی، روس ، چین وغیرہ دے رہے ہیں ۔ ان میں روس غدار نظر آتا ہے اور چین کو تھوڑا اپنا لالچ ہے لیکن وہ نواز شریف کو استعمال کر کے پھینک تو سکتے ہیں لیکن اس کا ساتھ کبھی نہیں دیں گے۔ابھی تک تو انتخابات پاکستان میں بہت بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں ، نواز شریف کی جیب سے زرداری والا بڑا پتہ پھسلتا نظر آ رہا ہے جس کی و جہ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت ہے ۔ لیکن شاید نگران حکومت میں اس پر کوئی سودے بازی ہو جائے۔ نواز شریف ہار مان چکا ہے اور وہ اب ملک سے اپنے کرپٹ ٹولے کے ہمراہ بھاگنے کے چکروں میں ہے۔موجودہ حکومت نے اڑھائی سو سے زیادہ کرپشن میں ملوث لوگوں کے نام ای سی ایل سے نکال دئیے ہیں تاکہ یہ سارے لٹیرے فرار ہو سکیں۔ اگر انتخابات کا انعقاد وقت پر ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی فتح ہو گی اور ملک کی باگ ڈور کسی ٹیکنو کریٹ کے ہاتھ میں ہو گی جو کہ پاکستان کے مستقبل کیلئے مثبت ہے ۔ ایسا ہی شخص صرف تمام لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر سکتا ہے اور انہیں پکڑ کر ان سے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لا سکتا ہے ۔لیکن ساری سیاستیں اپنی جگہ ایک محب وطن پاکستانیوں خاص طور پر نوجوانوں کی سیاست بھی ہے ، اس بار اگر نوجوان طبقہ چاہے تو تمام تر عقیدتوں سے پاک ہو کر ایسے حکمران کا چناؤ کریں جو حق اور سچ کا ساتھی ہو، محب وطن ہو، اور کم از کم اس کے دل میں اﷲ کا ڈر ضرور ہو۔ اور آخر میں آ ج کا قطعہ نوجوانوں کے نام:۔
عین یہ فرض ہے سنبھالو وطن
کارِ بیکار میں تم کیوں ہو مگن
میں مخاطب ہوں نوجوانوں سے
کچھ بھی مشکل نہیں اگر ہو لگن
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 166998 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More