میٹھی میٹھی گفتگو کے کڑوے کڑوے اثرات

تحریر:اریبہ فاطمہ،سیالکوٹ
وہ جملہ میرے ذہن کو پوری طرح جھنجھور رہا تھا اس کو پڑھے ہوئے تو ایک عرصہ ہوگیا لیکن نجانے کیوں آج وہ بار بار میرے ضمیر کو جگا رہا تھا ایسے کہ وہ ڈھیڑوں سوالات کا جواب ہو یا پھر ہزاروں مسائل کا حل ہو شاید یہ کہنا مناسب نہ ہو کیونکہ وہ جملہ اپنی شان میں بے مثل ہے شاید وہ جملہ ہزاروں نجس اور لاعلاج بیماریوں کی واحد دوا ہو۔میرا ذہن اس فقرے کو بار بار دہرا رہا تھا اور ضمیر مجھے جگا کر اس بات میں آمادہ کر رہا تھا کہ اس جملے کو دنیا بھر میں پھیلا دو ہر اِک کو اس سے مستفید ہونے کا موقع دوں لیکن کہیں نہ کہیں ایک آواز تھی بہت باریک سی مگر بالکل صاف آواز جو حقیقت پہ مبنی تھی جو مجھے ساتھ ہی ساتھ جھنجور رہی تھی کہ ضروری نہیں کہ جو جملہ کسی ایک کی نگاہ میں خاص مقام پاگیا ہو تو ساری دنیا کی نگاہ میں مقام پاجائے گا یہ ضروری تو نہیں۔لیکن میریضمیر کی آواز اْس آواز کو دبا رہی تھی اور مجھے باور کروا رہی تھی کہ جو چیز تمہیں سمجھ آگئی خدارا اپنا فرض عین سمجھتے ہوئے اْس کو پھولوں کی طرح ایک احسن اندازمیں پیش کر دو لوگ پھولوں کو ہمیشہ پاس چاہے نہ رکھے لیکن تازہ پھول کی مہک کو ضرور سونگتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ضمیر کی اِسی آواز کی بدولت یہ قلم اٹھا اور آپ سب کی خدمت میں اس جملے کو خاضر کرنے کے لیے دوبارہ دل و دماغ میں اْس جملے کی کرنیں نظر آنے لگی۔۔

قارئین اکرام!!!! یہ جملہ آج سے چودہ سو سال پہلے ایک پھول کی صورت میں تمام اہل نساء کو پیش کیا گیا۔اْنکے تخفظ کی دعا بنا کر انکی پاکدامنی کا ذریعہ بنا کر رب سوہنے نے اپنے حبیب کو لاعلاج بیماری کی دوا پیش کی۔اور فرمایا۔۔۔۔۔۔

’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو( یہ نہ ہو )کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو‘‘

اسکی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قراردیاگیا ہے کیونکہ ان کو بھی نمونہ بننا ہے۔ لیکن اندازہ ِبیان صاف واضح ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا ہے اور متنبہ کرنا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں فطری طور پہ دلکشی،نرمی ،اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنے طرف کھنچتی ہے۔اس آواز کے لیے ہدایات دی گئی ہے کہ مرد سے بات کرتے وقت قصداً ایسا لب ولہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ سنجیدگی اور روکھا پن ہو تاکہ کوئی بد ظن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ اور اسکے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔اسکے ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ کر دی گئی کہ روکھاپن صرف لہجے کی حد تک ہی ہو ۔زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔
آج تمام عورتیں بے تحاشا مسائل سے دوچار ہے۔

آج عورت کو معاشرے سے شکوہ ہے کہ میرے تخفظ کا ساماں ختم ہوچکا ہے۔شادی کے مضبوط حصار میں بندھ جانے کے باوجود وہ غیر مخفوظ ہوں۔
آج عورت مرد کوحرص و حوص کا پوجاری گردانتے جارہی ہے۔
آج عورت مرد کو بری نگاہ کا نشانہ بنانے والوں میں شمار کررہی ہے۔
آج اپنے گرد مضبوط حصار ہونے کے باوجود وہ شکار بنی ہوئی ہے۔
آج عورت ایک پلیٹ میں سجی ہوئی ڈش بن چکی ہے المیہ یہ کہ وہ پلیٹ تو ڈھکی بھی نہیں جسے ہر کوئی آسانی سے کھا سکتا ہے۔۔۔

ان تمام حالات سے ہر فرد واقف ہے۔اصلاحی اقدامات کی بجائے ہر کوئی مخالف جنس کو قصوروار ٹھہراتا جارہا ہے۔اور سب ایک عمیق گہرائی والے گھڑے کے اردگرد اکٹھے ہوتے جا رہے ہیں جونہی مخالف جارچز ایک دوسرے کی طرف کھچاؤ پیدا کرتے ہیں تودھڑم سے اس گڑھے میں گر جاتے ہیں اوراس میں موجود گرداب میں ایسے پھنستے ہیں کہ وہاں سے چھٹکارا پانا انتہائی مشکل کام بن جاتاہے۔ان مسائل پہ قابو پانے کا طریقہ یہی ہے کہ ایک گروہ اپنی پاگیزگی کے ساماں کو ہر پل ساتھ رکھے۔میری گزارش عورتوں سے ہیکہ اگر عورت طبقہ اپنے گفتگو کے انداز میں سنجیدگی پیدا کر لے تو کافی حد تک ان مسائل پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔آج کی عورت کا المیہ یہ ہے کہ اپنے ساتھ رہنے والے بھائی ،خاوند اور دیگر رشتہ داروں سے گفتگو کا اندازہ اتنا سخت اور روکھا پن اپناتی ہے کہ ہر محرم رشتہ اپنے دل میں ہزاروں رنجشوں کا پہاڑ جمع کیے ہوئے ہے۔ لیکن اگر اسی عورت کی کسی اجنبی یعنی غیر محرم سے گفتگو ہوتی ہے تو ایسے گفتگو کا انداز اپناتی ہے کہ مخالف جنس والا شخص نہ چاہتے ہوئے بھی کھنچتا چلا آتا ہے۔

عورت کا یہی رویہ مرد کی نگاہ کو برا بناتا ہے۔عورت کا یہی رویہ اسے شکار بناتا ہے۔اسی لیے رب العالمین نے چودہ سوسال پہلے ہی آگاہ کردیا کہ جب بھی تمہارا غیر محرم سے پالا پڑے تو اپنی آواز میں نرم مزاجی،مائل کر دینے والی کشش پیدا نہ کروں تاکہ اس کے دل میں برائی پیدا نہ ہو جائے۔۔۔۔رب کا یہ فرمان ان تمام کے لیے بھی ایک پیغام ہے جن کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں میں تو کوئی مرض نہیں ہم مثبت ہیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔رب نے تو عورت کو منفی کہا ہی نہیں یہاں بھی مثبت عورت کی بات کی جارہی ہے اور فرمایا جارہا ہے۔کہ تم پرہیز کرو۔کیونکہ مرد میں جنسی خواہشات کی کثرت پائی جاتی ہیاور وہ جلد مائل ہوجاتا۔عورت کو ہی بچاؤ کا سامان ہر پل اپنے ساتھ باندھنا ہے۔

مالک بہت علیم ہے وہ جانتاہے کہ عورت کی غیر محرم سے نرم مزاجی ،مائل کر دینے والی گفتگو اور نزاکت اس کے نجس ہونے کی راہ ہے۔آج اگر عورت اس بات کو سمجھ جائے تو ہزاروں برائیوں کو روک لیا جائے۔اگر وہ بد ظنی کے حامل افراد سے خود کا تخفظ چاہتی ہیں تو اسے اپنے اطوار بدلنے پڑے گے۔
لمحہ فکریہ!!!!!!

خدارا اپنے قصور کو تسلیم کیجئے۔مرد کو قصوروار ٹھہرانا بند کیجئے۔عورت تب تک خود قصوروار جب تک وہ اپنے اطوار کو نہیں بدلتی جیسا کہ اﷲ اور اسکے رسول نے حکم دیا اْسے اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔اور یاد رکھیے سوشل میڈیا پہ عورت کی غیر محرم سے نرم مزاجی فون پہ کی ایک بات بھی ہوسکتی ہے اور ڈھیڑوں پیارے بھرے القابات سے لبریز ایک میسج بھی۔۔۔۔۔۔

میری تلخ گفتگو کے لیے بہت زیادہ معذرت۔۔میرا مقصد اصلاح ہے کسی کو تنقید نہیں۔۔۔۔اﷲ رب العالمین بنت حوا کی حفاظت فرما۔آمین،

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 60 Articles with 40587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.