رمضان المبارک میں محرومیوں کا ازالہ

یہ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان المبارک میں مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ جمعہ کے اجتماعات میں وسیع و عریض مسجدیں بھی نمازیوں کیلئے تنگ ہو جاتی ہیں۔ جن آبادیوں میں مسلمانوں کی کثرت ہے وہاں افطار سے کچھ دیر پہلے کھانے پینے کی دکانوں میں گاہکوں کے ہجوم کے ساتھ ساتھ بسا اوقات ٹریفک کا بھی رش دکھائی دیتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے کے دوران مساجد میں ہر عمر کے لوگوں کی خاصی تعداد معتکف نظر آئے گی۔ رمضان المبارک میں عمرے کی سعادت حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی عام دنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہ ہوتی ہے۔بظاہر یہ بات خوش آئند ہے کہ روزہ داروں اور عبادت گزاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس سے محروم رہنے والے بد نصیب بہت کم ہیں۔ ظاہر میں یہ صورت حال اطمینان کا باعث ہیں لیکن دوسری طرف اس کے پیش منظر میں پریشان کن سوالات اور انتہائی تلخ حقائق بھی موجود ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرے کے ہر سطح کے لوگوں میں نمازیوں،روزہ داروں، اعتکاف بیٹھنے والوں،سخاوت اور عمرہ کرنے والوں کی اتنی کثیر تعداد موجود ہے تو اس کا اثر اجتماعی رویوں اور اصلاح معاشرہ میں کیوں نظر نہیں آتا؟ قرآن کی رو سے نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے،روزہ تقوی اور پرہیزگاری کے ساتھ ساتھ نادار اور محروم لوگوں سے غمگساری کا جذبہ بھی دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ اعتکاف کی عبادت اور عمرہ کی سعادت سے اللہ اور اس کے پیارے رسولﷺ سے محبت اوردین سے وابستگی بڑھتی ہے۔ اس ساری صورت حال میں غور طلب امر یہ ہے کہ پھر کم از کم رمضان المبارک ہی میں سہی، معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہوتی اور جرائم میں کمی کیوں نہیں آتی؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ کہ ان جملہ عبادات کی اصل مقصدیت سے قطع نظر ہر شخص اپنے انداز، اپنے حساب اور اپنے طور طریقے کے مطابق رمضان المبارک کا اہتمام و استقبال کرتا اور اسکے فائدے سمیٹتا ہے۔ ذخیرہ اندوز‘ ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاء خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے۔ دکاندار قیمتیں بڑھا کر مالی فائدے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، کپڑے کا کاروبار کرنیوالا سال بھر کی کمائی ایک مہینے میں کر لینے کی فکر میں رہتا ہے، خواتین چاہتی ہیں کہ سحروافطار میں کھانے پینے کا پرتکلف انتظام ہو۔ ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی رمضان المبارک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم نے رمضان کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تزکیہ نفس اور اپنا محاسبہ کیایا نہیں؟ کیا کسی نے سوچا اور اس بات کا جائزہ لیا کہ اسکے ایمان کا درجہ کتنا بڑھا؟ ایمان کتنا مضبوط ہوا؟ اپنے رب کریم اور پیارے نبی مکرمﷺ کے ساتھ قلبی تعلق کتنا بڑھا؟ بیوی بچوں کی کتنی اصلاح ہوئی؟ اور اہل خانہ کو رب کا کتنا قرب حاصل ہوا؟ رمضان المبارک کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تزکیہ ہو، معاشرہ کی اصلاح ہو، اللہ کا قرب حاصل ہو، عبادات میں پختگی ہو، جنت کی طلب ہو، جہنم سے نفرت ہو، تلاوت میں باقاعدگی ہو، رزق حلال کی چاہت ہو، رزق حرام سے اعراض ہو، تقویٰ کے حصول کا جذبہ ہو، ایمان کی لذت و حلاوت ہو، ہاتھ میں سخاوت ہو، سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہو، مسجد سے الفت ہو۔ حدیث مبارکہ کے مطابق رمضان کے مہینے میں کثرت سے فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو تلاش کرتے ہیں کہ کون نماز پڑھ رہا ہے؟ کون تلاوت کر رہا ہے؟ کون جہاد کر رہا ہے؟ کون صدقہ و خیرات کر رہا ہے؟ کون امر بالمعروف اور کون نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے رہا ہے؟ کون اپنے گھروں کی اور معاشرے کی اصلاح کر رہا ہے؟ کون اپنے بچوں کو نیکی کی تلقین کررہا اور کون روزے رکھ رہا ہے133؟یاد رکھئے! انسانی زندگی کا سب سیخطرناک مرحلہ اور لمحہ وہ ہوتا ہے 133 جب کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں بھری زندگی انسان کا معمول بن جائے، انسان نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت کا احساس و شعور کھو بیٹھے اور گناہ کو گناہ سمجھنا چھوڑ دے۔ یہ صورتحال یقینی طورپر انسان کی تباہی و بربادی اور جہنم کی سوداگری کا باعث بنتی ہے لیکن جب انسان غلطی کو غلطی اور گناہ کو گناہ سمجھے تو اس کو تائب ہونے اور اصلاح کی توفیق بھی نصیب ہو جاتی ہے۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ روزہ صرف اس شخص کا اللہ کے ہاں قابل قبول ہے جو رمضان المبارک میں اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے بیوی بچوں، کاروبار، معاملات اور معمولات کی اصلاح کر لے۔ اصلاح کیلئے رمضان سے زیادہ اچھا اور بہتر مہینہ کوئی نہیں۔ رمضان المبارک جہاں نزول قرآن اور گناہوں کی بخشش کا مہینہ ہے وہاں یہ اسلامی تہذیب کا مظہر، اخوت و ہمدردی، ایثار وقربانی، جودوکرم، صبروتحمل اور افرادو معاشرہ کی اصلاح کا مہینہ بھی ہے۔ جب انسان سحری سے افطاری تک کھانے پینے اور فواحش ومنکرات سے بچتا ہے تو اس میں صبرو تحمل اورخوف خدا پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں روزے کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے۔ رمضان میں گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جاتاہے۔ معمولی نیکی کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ’’نیکی کرنا اور گناہ سے بچنا‘‘ یہ عمل افراد اور معاشرہ کی اصلاح کی بنیاد ہے۔ یاد رکھئے! جو بندہ اپنی، اپنے گھر اور اپنے بیوی بچوں کی اصلاح کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو نیکی کے بڑے بڑے کام کرنے کی توفیق عطا کرتا اور اسے اپنے دین کیلئے منتخب کر لیتا ہے۔ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ جبرائیل امین علیہ السلام رمضان میں ہر رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیلئے آتے اور قرآن کا دورکرتے تھے۔ جب قرآن کا دور مکمل ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خوش ہوتے کہ خوشی و مسرت کا اظہار آپکے چہرہ اقدس پر نمایاں ہوتا۔ تلاوت قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں صدقہ بھی کثرت سے کرتے۔ یاد ررہے کہ! رمضان صدقے کا مہینہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جفت (دو دو چیزیں) صدقہ کرتا ہے جنت کے فرشتے اسے آٹھوں دروازوں سے آواز دینگے کہ تو ہمارے دروازے سے داخل ہو جا۔ سبحان اللہ133! کیا ہی خوب فضیلت اور برکت ہے رمضان کے مہینے کی اور موسموں کی شدت کو برداشت کرنے کی۔مشقت جتنی زیادہ ہو اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزہ رکھنا زیادہ مشقت اور تکلیف کا باعث ہوتاہے۔ دنیا کی گرمی جہنم کی گرمی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یادرکھو! اگر اس ماہ مبارک میں ہم اپنی محرومیوں کے ازالے کیلئے بارگاہ رب العزت میں دامن طلب پھیلا کر دین و دنیا کی سعادتیں سمیٹ لیں اور دنیا کی گرمی جھیل کر آخرت کی گرمی سے نجات پا لیں تو یقیناًیہ سودا مہنگا نہیں ہو گا۔ اللہ کریم توفیق عمل سے نوازے۔۔آمین ثم آمین
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218265 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More