چکار کالج کا اختر سحر اور 3صدیوں کا شاہد

چکار کالج کا اختر سحر اور 3صدیوں کا شاہد

ہمارے ملک خصوصاً آزاد جموں و کشمیر میں حقوق کے ساتھ فرائض کی طرف کردار کا قحط الرجال ہو گیا ہے یہاں کے اعلیٰ ترین اور مقدس تصور کردہ ایوانوں میں موجود کردار ہوں یا غیر سرکاری سطح پر مختلف شعبہ جات کے رحجانات ہوں سب ہی جانب اپنے اپنے حق کے نعرے لگائے جاتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں مگر جب فرائض کی بات آتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے ‘ اس حوالے سے خزانہ سرکار سے منسلک کرداروں پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو کم از کم اپنے اپنے گریڈ کی مناسبت سے روزی کا ذریعہ سیلری الاؤنس ہر ماہ مل جاتے ہیں تو پنشن کا حق بھی حاصل ہے مگر سب سے زیادہ حقوق اور فرائض کے مابین دوعملی یہاں نظر آتی ہے انصاف اور علم کا پیشہ واقعتا اپنی اہمیت کے حوالے سے بڑی حرمت رکھتا ہے اور علم کا مطلب محض رٹا اور امتحان کے پیپر حل کر دینا نہیں ہے بلکہ اپنی تاریخ ثقافت اپنے ارد گرد کے ماضی حال سمیت چاروں اطرف کے حالات سے آگاہی پر منحصر ہے رب العزت کی کتابوں میںآپ کو ماضی کے احوال و اقعات اور مستقبل کی راہیں نشانیاں ملتی ہے جن سے سیکھتے سکھائے ہوئے تعمیری معاشرے افراد اور فرد سامنے آتے ہیں جن پر فخر کیا جاتا ہے جس کا بہترین ذریعہ لائبریریاں ‘ شہروں ‘ محلوں میں ادب ذوق کی معمار سوسائٹی کے زیر اہتمام بزم ادب کی نشستیں ہوا کرتی تھیں تو تعلیمی اداروں ‘ سوسائٹیوں کے تحت علمی ادبی سرگرمیوں کو بلند مقام حاصل تھا اور ان سب میں کتابوں کا مرتبہ ستون کی حیثیت رکھتا ہے جن کو ادبی رسالوں کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے بزم ادب اور رسالے اساتذہ کی عظمت اور طلباء کی علمی فکری صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے نئی جلا بخشتے ہیں جن کا اہتمام تعلیمی اداروں ‘ سکولز کالجز میں سب سے بڑھ کر ذمہ داری ہوتا تھا مگر حقوق اور فرائض کے بڑھتے ہوئے فاصلوں نے علم کے بجائے ڈگری اور نمبروں کا ایسا کھیل شروع کیا ہے اب یہ صرف پتلی تماشہ بن کر رہ گیا ہے ایسے میں گورنمنٹ ڈگری کالج چکار کی طرف سے مجلہ ’’اختر سحر‘‘ شائع کر کے ثابت کیا ہے کہ مایوسی کفر ہے اور اچھے انسان بہترین اساتذہ ‘ ذہین طالب علم پہلے کم تھے نہ اب کم ہیں جو ملک ملت ‘ معاشرے کو مستقبل کے معمار عنایت کرنے کا جوہر رکھتے ہیں ‘ ضرورت اس جانب توجہ دینے اور کوشش کرتے ہوئے حقوق فرائض سے دیانت داری کا حق پورا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔ (مجلہ اختر سحر) واقعتا رسالوں جیسی سادہ کتاب ہے مگر اس کے اندر دینی ترغیب خطہ کشمیر اور معاشرے کے ماضی حال کے احوال ہیں تو تاریخی تہذیب کی شاندار رتوں کا اہتمام بھی ہے ‘ اکابرین کا کردار شامل کیا گیا ہے اور اساتذہ ‘ طلباء کی نمایاں کارکردگی کا ذکر خیر کر کے حوصلہ افزائی کا فریضہ بھی ادا کیا گیا ہے شعر ادب سے کا بھی کمال انتخاب کیا گیا ہے اور کالج کی ساری تاریخ اس کے ممتاز مقام کو اُجاگر کرتی ہے جس کے سرپرست پرنسپل ادارہ ڈاکٹر محمد قاسم نبی حسن ہیں اور مدیر اعلیٰ لیکچرر شعبہ اُردو راجہ محمد اکرم ہیں ان کی طرف سے رسالہ بھجوا کر پرانی لائبریریوں بزم ادب اور رسالوں کے دور کی یادیں تازہ کرنے پر شکر گزار ہوں ‘ خدا کرے ہمارے سب تعلیمی اداروں میں یہ سلسلہ بحال ہو کر طلبہ کو بہترین انسان بنانے کا ذریعہ ثابت ہو ‘ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل مجلہ اختر سحر پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے اس میں فکر و عمل کے ساتھ عشق جنون کا جذبہ اصل حرارت رکھتا ہے جسے آگے بڑھ کر 20 سے 30 صفحات پر لاتے ہوئے پڑھنے پڑھانے کو آسان بنایا جائے تو یہ تسلسل پھر کبھی ٹوٹ نہیں پائے گا اور تین صدیوں کے عینی شاید کی رو داد کو زندہ تابندہ بناتا رہے گا۔
Back to Conversion Tool
 

Tahir Farooqi
About the Author: Tahir Farooqi Read More Articles by Tahir Farooqi: 2 Articles with 987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.