سردار عباس کا ہاتھ اور MNA کی لکیر

ہر صحیح کام غلط وقت پر کرنے کا کوئی میڈل یا تمغہ ہو تا تو وہ یقیناچکوال کے سیاست دان سردار غلام عباس جنہیں ایک لاکھ ذاتی ووٹ ہر وقت اپنی جیب میں رکھنے کا دعویٰ ہے کو پیش کیا جاتا،جتنے ہم کپڑے نہیں بدلتے اتنی سردار صاحب پارٹیاں بدلتے ہیں یہ محاورہ بھی ان پر صد فی صد صادق آتا ہے،کبھی پیپلز پارٹی کبھی ق لیگ تو کبھی ن لیگ اور پی ٹی آئی پھر ن اور اب پھر پی ٹی آئی ،بلے بھائی بلے کسی نے قلابازیوں کی سیاست سیکھنی ہو تو سیدھا کوٹ چوہدریاں کا رخ کرے بلکہ اب تو یہ سہولت بلکسر عباس پٹرولیم پر بھی دستیاب ہے،آج سے غالباً پندرہ سال قبل جب تلہ گنگ سے ایک سابق ایم پی اے تقی شاہ نے چھ ماہ میں اوپر تلے چار پارٹیاں بدل کے سردار گروپ جائن کیا تو تلہ گنگ ریسٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس رکھی گئی جس میں تقی شاہ نے سردار عباس کی موجودگی میں سردار گروپ جائن کرنا تھا چکوال سے ہم چند دوستوں کو بھی دعوت دی گئی ہم وہاں پہنچے تو پریس کانفرنس شروع ہونے کو ہی تھی تقی شاہ اسٹیج پر سردار عباس کے ساتھ بیٹھے تھے،کل تک ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے آج شیرو شکر ہونے والے تھے ،تقی شاہ نے چھوڑ کے جانے پر حسب معمول افسوس کا اظہار کیا اور دوبارہ سردار گروپ کو جائن کرنا اپنی خوش بختی کی علامت قرار دیا،پریس کانفرنس کے اختتام پر جب سوال جواب کی باری آئی تو میں نے تقی شاہ صاحب سے پوچھا کہ جناب پاکستان میں اکثر سیاستدان ضمیر کی آواز پر چلتے ہیں اور اس آواز پر لبیک کہتے ہیں آ پ نے بھی ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور سردار گروپ جائن کیا پھر ضمیر کی آواز پر سردار گروپ چھوڑ دیا اور پھر ضمیر کی آواز پر اسی گروپ کے خلاف ایک نیا گروپ بنا لیا اور آج پھر ضمیر کی آواز پر دوبارہ سردار گروپ میں شامل ہو گئے ذرا یہ بھی وضاحت فرما دیں کے اب کب تک ضمیر صاحب آپ کو ادھر برداشت کریں گے ،تقی شاہ صاحب آئیں بائیں شائیں کرنے لگے تو سردار عباس فوراً ان کی مدد کو آئے کہ اصل میں شاہ صاحب سردار گروپ میں ہی تھے بس کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر چند ماہ کے لیے رخصت پر گئے تھے اب واپس آگئے ہیں ہم ان کو ویلکم کہتے ہیں مجھے اس وقت قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ یہ طرز سیاست اصل میں جناب سردار غلام عباس صاحب کا اپنا ہے ،موصوف نے پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنی سیاست شروع کی اور بعد میں جہیڑاا جیتے اس نال کو مظبوطی سے پلو سے باندھ لیا،مشرف آئے تو ق لیگ میں آ گئے وہ گئے تو پی ٹی آئی میں چلے گئے،پی ٹی آئی سے اس وجہ سے نکلے کہ وہاں ورکرز کی عزت نہیں کیوں کہ پی ٹی آئی نے وزیرستان مارچ میں بلکسر انٹر چینج پر خان صاحب نے اتر کر سردار صاحب سے ہاتھ نہیں ملایا سو پی ٹی آئی کو حرف غلط سمجھ کر سردار صاحب نے اسے خیر آباد کہہ دیا،حالانکہ چھوڑنے سے قبل جب میں یونس اعوان مرحوم،ارشد عباسی محمد خان عاقل اورخواجہ بابر سلیم العباس پٹرولیم پر سردار صاحب سے ملے تو جناب نے فرمایا کہ میں ابھی عمرہ کر کے واپس آیا ہوں میرے ن لیگ میں جانے کی افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں میں سیاست کروں گا تو صرف عمران خان کے ساتھ مل کر کروں گا کیوں کہ اب صرف پی ٹی آئی ہی پاکستان کی نجات دہندہ ثابت ہو سکتی ہے ( یہی بات انہوں نے ٹی ایم اے میں پریس کانفرنس کے دوران مشرف کے بارے میں بھی کہی تھی) چند دن بعد پتہ چلا سردار صاحب ن لیگ کو پیارے ہو گئے،پھر ادھر آ کے روز ایک نیا محاذ اور مسئلہ کھڑا ہوتا رہا اور سردار عباس ہر بار یہی بیان جاری کرتے رہے کہ ن میں ہوں اور ن میں ہی رہوں گا تمام کشتیاں جلا کر ن لیگ میں شامل ہوا ہوں اور اسی میں رہوں گا اب ن لیگ کو چھوڑا تو سیاست چھوڑ دوں گا اور آخری دنوں میں تو جذبات کا یہ عالم تھا کہ خاندانی آدمی ہوں مشکل وقت میں میاں صاحب کو کبھی نہین چھوڑوں گا اور چند دن بعد انہیں پتہ لگا کہ یہ ن لیگ تو ملک دشمن جماعت ہے اور اب اسے بھی چھوڑ دیا اور ایک بار پھر پی ٹی آئی میں جا گھسے ہیں ۔اب ان صاحب نے صرف اپنے ورکروں کو ورطہ حیر ت میں دال دیا بلکہ پی ٹی آئی کے ورکروں کے ساتھ ساتھ قیادت کے لیے بھی ایک مصیبت کھڑی کر دی ہے ،اب اگر وہ انہیں ٹکٹ نہیں دیتے تو ان کا ایک بڑا ووٹ بنک ہے جس سے انہیں محروم ہونا پڑ سکتا ہے اور اگر ٹکٹ ان ک و دیتے ہیں تو نظریاتی کارکن شدید ردعمل کا مظاہر ہ کریں گے،دونوں صورتوں میں فائدہ ن لیگ کا ہے کہ ایک دھڑے کا ووٹ ضرور کچھ نہ کچھ ان کے حصے میں آئے گا،سردار عباس کی ایک کمزور ی اور بھی کہ وہ اپوزیشن میں ہو ں یا اقتدار میں پاور کا مرکز اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں ن لیگ سے اختلاف کی بڑی وجہ بھی ان کا انداز سیاست سنجیاں ہو جانڑ گلیا وچ مرزا یار پھرے یعنی سب کچھ ان کی مرضی سے کیا جائے بنا یہ انداز لوکل سطح پر تو ممکن ہے مگر قومی سطح پر پارٹیوں کی اپنی مجبوریاں اور اپنی ترجیحات ہوت ہیں ،سردار عباس روز روز کی چھلانگوں کی بجائے ٹک کے کسی ایک جماعت میں رہتے تو آج کسی کنارے پر ہوتے مگر لگتا ان کے ہاتھ میں ایم این اے کی لکیر نہیں ہے کیوں کہ ہر اہم وقت یہ کوئی نیا اور انوکھا فیصلہ کر لیتے ہیں جس سے یہایک بار پھر اسٹارٹنگ پوائنٹ پر پہنچ جاتے ہیں،ن لیگ میں انہوں نے تین سال بھرپور محنت کی دو ضمنی الیکشنز بھاری مارجن سے جتوائے اور اپنی اہمیت تسلیم اعلیٰ سطح کی قیادت کو تسلیم کروائی،مگر الیکشن آنے سے قبل اور ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے ہی ایک بظاہر بودا سا جواز بنا کر ن لیگ کو خیر آباد کہہ دیا حالانکہ ٹکٹ کے علاوہ بھی حکمران جماعت خواہ کوئی بھی ہو کے پاس نوازنے کے لیے بے شمار آپشنز موجود ہوتے ہیں سنیٹر،مخصو ص نشستیں اورمشیر تو کسی بھی شخصیت کو بھی وقت بنایا جا سکتا ہے،سردار عباس نے پے درپے پارٹیاں تبدیل کر کے ن لیگ کو جائن کیا تھا اور اس میں بہت جلدی ایک اہم مقام بھی بنا لیا تھا جب پی ٹی آئی کو چھوڑ کر سردار عباس ن لیگ میں شامل ہوئے تو انہوں نے بلکسر میں جلسہ عام سے کہا تھا کہ میں نے پی ٹی آئی جائن کر کے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی اور اپنی زندگی کے جو دن جو پی ٹی آٗئی کو دیے وہ ضائع کیے موصوف آج دوبارہ اسی پی ٹی آئی کو جائن کر چکے ہیں ان کی دانست میں پی ٹی آئی کو چھوڑنا اور دوبارہ جائن کرنا ایک درست فیصلہ ہے تاہم آنیوالا وقت بتائے گا کہ ن لیگ کو چھوڑکر سردار عباس نے گھاٹے کا سود اکیا ہے،،،