بیچ والی بال(Beach Volleyball)

1915ء میں ’’سانتا مونیکا‘‘ میں ایجاد ہوا، اس کا پہلا میچ ہوائی میں ’’وکیکی بیچ‘‘ پرکھیلا گیا

بیچ والی بال (Beach volleyball)کا کھیل دو ٹیموں کے درمیان ساحل سمندر کی ریتیلی کورٹ پر کھیلا جاتا ہے۔ ان ڈور والی بال ٹیموں میں چھ کھلاڑیوں میں مقابلہ ہوتا ہےجب کہ بیچ والی بال کی ٹیم دو،دو کھلاڑی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں تین سیٹ کھیلے جاتے ہیں اور ہر سیٹ 21پوائنٹس کا ہوتا ہے۔ سروس کرنے والی ٹیم گیند کو جال کے اوپر سے مخالف ٹیم کے کورٹ میں ہٹ لگا کر پھینکتی ہے اور مخالف ٹیم کے کھلاڑی اسے واپس مذکورہ ٹیم کی طرف پھینکتے ہیں اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گیند زمین پر نہ گر جائے، زمین پر گرنے کے بعد مخالف ٹیم کو ایک پوائنٹ کی سبقت حاصل ہو جاتی ہے۔اس کھیل میں عورتوں اور مردوں دونوں کیلئے والی بال کا کورٹ 30x60فٹ کا ہوتا ہے۔اس کے نیٹ کی اونچائی مردوں کیلئے 7.11فٹ جب کہ خواتین کی ٹیم کیلئے 7.4فٹ ہوتی ہے، نیز یہ ایک میٹر چوڑا ہوتا ہے۔بیچ والی بال کا کورٹ ان ڈور والی بال کورٹ کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے ۔بیچ والی بال کا پہلا میچ دو کھلاڑیوں کے درمیان 1930میں کھیلا گیا۔1896میں والی بال کا کھیل باسکٹ بال کی گیند سے کھیلا جاتا تھا، اس کے لیے خصوصی طور سے پہلی گیند 1900میں بنائی گئی۔کھیل کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں کھلاڑی 300مرتبہ بال کو دوسرے ہاف میں پھینکنے کے لیے اُچھلتے ہیں ۔اس میںمردوں کی پہلی عالمی چیمپئن شپ 1949میںجب کہ خواتین کی 1952میںہوئی۔
یہ کھیل انڈور والی بال کے مقابلے میںخاصامشقت طلب ہے، کیوں کہ یہ ساحل سمندر کی بھربھری ریت پر کھیلا جاتا ہے، اس لیے کھیل کے دوران اُچھلتے ، کودتے یا بھاگتے ہوئے کھلاڑیوں کے پاؤں ریت میں دھنس جاتےہیںجس سے انہیں کافی دقت پیش آتی ہے۔ کھیل کے دوران جوتے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیےبیشتر کھلاڑی ننگے پاؤں یا ’’سینڈسوکس‘‘ پہن کر میچ میں شرکت کرتے ہیں۔ اس کی گیند واٹر پروف ہوتی ہےجو انڈور والی بال کے مقابلے میں ہلکی اور زیادہ بڑی ہوتی ہے۔اکثر اوقات قدرتی عوامل ، مثلاً بارش، آندھی اورسورج کی تپش ،کھیل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے تین سیٹس ہوتے ہیں جو 21پوائنٹس تک کھیلے جاتے ہیں۔ بیچ والی بال میں انڈور گیم کی بہ نسبت کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں ، لیکن ریت پر گرنے کی وجہ سے بیشتر کھلاڑیوں کوانگلیاں، ٹخنے یا گھٹنے کی چوٹوں کا سامنا رہتا ہے۔

’’فیڈریشن انٹر نیشنل ڈی والی بال‘‘ اس کھیل کی گورننگ باڈی ہے جو ’’ایف آئی وی بی، والی بال ورلڈ چیمپئن شپ‘‘ کا انعقاد کرتی ہے۔ اس کی نگرانی میں پہلے انڈر۔17اور انڈر۔23کے عالمی مقابلوں کا انعقاد کیاجاتا تھا، انہیں تبدیل کرکے اب انڈر۔19اور انڈر۔21کی ورلڈ چیمپئن شپ منعقد کی جاتی ہیں۔ چیمپئن شپ کی فاتح ٹیموں کو نقد انعامات کی بجائے عالمی تنظیم کی جانب سے رینکنگ پوائنٹس دیئے جاتے ہیں۔2014ء سے اس کھیل کو یوتھ اولمپکس گیمز میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن کی ذیلی تنظیموں میں ایشین والی بال کنفیڈریشن، نارتھ سینٹرل امریکا یانڈ کریبئن والی بال کنفیڈریشن ، کنفیڈریشن آف افریقن ڈی والی بال، جنوبی امریکا کی کنفیڈریشن سڈامریکاناڈی والی بال(Confederation Sudamricana De Volleyball) اور یورپئن بیچ والی بال کنفیڈریشن شامل ہیں۔ 1983میں والی بال کے کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم ’’دی ایسوسی ایشن آف والی بال پلیئرز‘‘ قائم کی گئی۔

بیچ والی بال 1915ء میں ’’سانتا مونیکا‘‘ کیلی فورینا میں وجود میں آئی اور اس کا پہلا میچ ہوائی میں ’’وکیکی بیچ‘‘ پر ’’آئوٹ رگنگ کنوئی کلب‘ کے زیراہتمام کھیلا گیا۔ 1996ء میں اسے اولمپک کھیلوں میں شامل کیا گیا۔1920ء میں سانتا مونیکا میں نئی جیٹیوں کی تعمیر کے بعد لوگوں کو اس ساحل پر کافی ریتیلا علاقہ میسر آگیا ،جہاں بیچ والی بال کو فروغ حاصل ہوا۔ یہاں پر جال لگا کر والی بال کورٹس بنائے گئے جہاں لوگ تفریحی طور پر یا کلبوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ 1922ء تک سانتا مونیکا میں 11کلب قائم ہوئے اور پہلے انٹرکلب مقابلے کا انعقاد 1924میں کیا گیا۔ ابتدا میں اس کھیل میں چھ، چھ کھلاڑیوں پر مشتمل دوٹیمیں میچ میں حصہ لیتی تھیں۔ دو کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیموں کے کھیل کا آغاز ’’پال پیبلو ایتھلیٹک کلب ‘‘سے ہوا۔ 1930ء میں جب سانتا مونیکا ایتھلیٹک کلب میں ایک میچ کیلئے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا انتظارکیا جارہا تھا، لیکن وہاں صرف 4کھلاڑی تھے۔ اس موقع پر کلب کے منیجر جانسن نے دو ،دو کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیمیں تیار کیں اور پہلی مرتبہ بیچ والی بال کے ’’ڈبل گیم‘‘ کا انعقاد ہوا۔جس کی شہرت جب قرب و جوار کے کلبز تک پہنچی تو وہاں بھی دو افراد پر مشتمل ٹیموں کے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا۔ 1930ء میں عالمی کساد بازاری کےپرآشوب دور میں امریکا میں اس کھیل کو فروغ حاصل ہوا اور اسی زمانے میں اس کا آغاز یورپ میں بھی ہوا۔ 1940ء میں سانتا مونیکا کے ساحلوں پر ’’ٹرافی‘‘ کا انعقاد ہوا۔والی بال کا سب سے طویل دورانیے کا کھیل کنگسٹن شمالی کیرولینا میں کھیلا گیا ،جو 75گھنٹے 30منٹ پر محیط رہا۔

1948ء میں لاس اینجلس میں ایک مشروب ساز کمپنی کے زیراہتمام پہلا بیچ والی بال مقابلہ منعقد ہوا۔ جس میں ’’ڈاکٹر کیلب موہرہاسر‘‘ نے ٹورنامنٹ کی بہترین ٹیموں کو نقد انعامات سے نوازا۔بعد ازاں ڈاکٹر کیلب اس کھیل کے سرگرم سرپرست بن گئے، جنہوں نے بیچ والی بال کے فروغ کے لئے مثالی خدمات انجام دیں۔ 1960ء میں کیلی فورنیا میں بیچ والی بال لیگ کے قیام کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن ان ہی دنوں فرانس میں30ہزار فرنچ فرانک کے انعام پر مشتمل پروفیشنل ٹورنامنٹ منعقد ہوا۔ 1960ء میں برازیل کے ایک اشاعتی ادارے نے برازیل میں پہلے برازیلین بیچ والی بال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا۔1960میں پہلا ’’مین ہٹن بیچ اوپن ٹورنامنٹ منعقد ہوا جس کا رتبہ شائقین کھیل کے نزدیک’’ویمبلڈن آف بیچ والی بال‘‘ کی طرح تھا۔ان ٹورنامنٹس کے انعقاد سے اس کھیل نے دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کر لی۔ 1960میں امریکی کھلاڑی بیٹلز نے لاس اینجلس کے سورنٹو کے ساحل پرمتعدد میچز کھیلے جن میں سے ایک میچ امریکی صدر، جان ایف کینیڈی نے بھی تماشائیوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا۔

1974ء میں سان ڈیگو کے اسپورٹس ایرینا میں ’’دی 15000ڈالر’’ ورلڈ انڈوربیچ والی بال چیمپئن شپ‘‘ منعقد ہوئی جسے 4ہزار کے قریب شائقین نے دیکھا۔ فریڈ زولک اور ڈینس ہیرے پر مشتمل ٹیم نے رون وین ہیگن اور میٹ گیج کو شکست دے کر چیمپئز ٹرافی جیت لی۔بعد ازاں ڈین ہیرے نے اس کھیل سے متعلق ’’دی آرٹ آف بیچ والی بال‘‘ نامی کتاب لکھی۔ پہلا بیچ والی بال ٹورنامنٹ 1976ء میں کیلی فورینا کے ’’ول راجرز اسٹیٹ بیچ پرلیبرڈے ویک اینڈ کے موقع پر ’’اولمپیاڈ ورلڈ بیچ چیمپئن شپ آف والی بال‘‘ کے نام سے منعقد ہوا، جس کے تمام اخراجات سانتا بار برا سے شائع ہونے والے، والی بال میگزین کے مالک، ڈیوڈ ولک نے برداشت کئے۔ اس کھیل کے پہلے عالمی چیمپئن گریگ لی اور جم مینگز تھے۔ وہ 5000ڈالر انعام کے مشترکہ حق دار قرار دیئے گئے۔ مذکورہ میگزین کی سرپرستی میں اسی مقام پر اگلی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا گیا۔ 1978ء میں ڈیوڈولک نے کھیلوں کی ترویج کیلئے ایک کمپنی ’’ایونٹ کانسپٹ ‘‘ (Event Concept)کے نام سے ’’کریگ ماسوکا‘‘ کی شراکت میں قائم کی جس کے زیراہتمام’’ روینڈو بیچ پر والی بال کی عالمی چیمپئن شپ کے انعقاد کی منصوبہ بندی ہوئی، جس کے لئے جیس کوئیروو نامی کمپنی کی اسپانسرشپ حاصل کی گئی۔ یہ ٹورنامنٹ بے حد کامیاب ثابت ہوا اور اس تجربے کے بعد،مذکورہ کمپنی نے مزید تین ٹورنامنٹس کے انعقاد کے لئے فنڈزفراہم کئے جس کے بعد’’ دی کیلی فورینا پروبیچ ٹورڈبیو‘‘ کا ’’لاگو نا بیچ، سانتا بار برا ‘‘میں انعقاد کیا گیا جب کہ ریڈونڈو میں عالمی چیمپئن شپ منعقد ہوئی۔

امریکا میں 1927میں یونائیٹڈ اسٹیٹس والی بال ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا اور 1947میں وہ، ایف آئی وی بی کی بین الاقوامی تنظیم کا بنیادی رکن بنا۔ 1964کے اولمپک گیمزمیں امریکا کی والی بال ٹیم نے شرکت کی۔ 1984میں لاس اینجلس اور 1988میں سیؤل اولمپکس میں امریکا نے طلائی جب کہ1992میں اٹلانٹا میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ 2008میں بیجنگ اولمپکس میں برازیل کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 2012میں لندن میں اٹلی کے مقابلے میں کوارٹر فائنل میں مقابلے سے باہر ہو گیا۔فرانس میں ہونے والے 1986میں ورلڈ چیمپئن شپ مقابلے میں امریکا نے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1994میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ امریکا کی بیچ والی بال ٹیم نے 2015کے عالمی کپ میں حصّہ لیا اور ارجنٹائن کو شکست دے کر عالمی کپ کا اعزاز حاصل کیا۔ 1985میں امریکی ٹیم نے پہلا عالمی کپ جیتا تھا۔ امریکی ٹیم کو ورلڈ لیگ میں دو طلائی تمغے جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔امریکی بیچ والی بال کھلاڑی’’ کارچ کرالے‘‘ کو تین طلائی تمغے جیتنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انہوں نے 1984اور 1988کے اولمپکس مقابلوں میں ان ڈوربیچ والی بال میں دو طلائی تمغے جیتے جبکہ 1992میں سینڈ پلیئر کی چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ کیری واش جیتگز اور مسٹی مے ٹیمر کی جوڑی نے تین مرتبہ 2008,2004اور 2012کی اولمپک چیمپئن شپ جیتنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔1996میں اٹلانٹا کے ساحل پر پہلی مرتبہ بیچ والی بال کے مقابلے میں کھلاڑیوں کو تمغوں اور نقد انعامات سے نوازا گیا۔1971میں والی بال کے ’’ہال آف فیم‘‘ ہالیوک میساچوسٹس میں قیام عمل میں آیا جس میں 100کے قریب کھلاڑیوں، کوچز، کھیل کے حکام اور کھیل کا انعقاد کرنے والے اداروں کو ہال آف فیم کے اعزاز سے نوازا گیا۔

برطانیہ میں یہ کھیل بیسوی صدی کے اوائل میںمتعارف ہوا، وہاں یہ کھیل انگلش والی بال ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کھیلا جاتا ہے، جو نیشنل والی بال اور بیچ والی بال کے لیگ میچوں اور نیشنل ناک آؤٹ کپ کے مقابلوں کا انعقاد کرتی ہے۔ 1985سے 1991تک باقاعدگی سے اس کے سالانہ مقابلوں کا انعقاد ہوتا رہا۔ 1992میں برطانیہ کی قومی ٹیم قائم کی گئی جس میں کل وقتی کوچ کا تقرر کیا گیا جب کہ شیفیلڈ میں اس کا ٹریننگ سینٹر کھولا گیا۔ 1992میں پہلی مرتبہ برطانیہ کی والی بال ٹیم کو اولمپک مقابلوں میں شرکت کیلئے بھیجا گیا۔1996کے اولمپکس مقابلوں میں برطانیہ کی دو خواتین والی بال کھلاڑیوں ایمنڈا گلوور اور آڈرے کوپر نے شرکت کی۔ اس وقت تک برطانیہ میں بیچ والی بال کا کوئی تربیتی مرکز نہیں تھا اس لئے مذکورہ کھلاڑیوں کو ایمسٹرڈیم میں تربیت حاصل کرنے کیلئے بھیجا گیا اورانہوں نے اسی سال اولمپکس مقابلوں کیلئے کوالیفائی کرکے دنیا کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو حیران کردیا۔

آسٹریلیا میں والی بال کے کھیل کا باقاعدہ آغاز 60کی دہائی میں ہوا اور 1963میں آسٹریلین والی بال فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا جو آسٹریلیا میں والی بال کے کھیل کی نگرانی کرنے والی قومی تنظیم ہے، جسے والی بال آسٹریلیا بھی کہتے ہیں۔ والی بال کی عالمی تنظیم اے وی ایف بی کی نگرانی میں آسٹریلیا کی والی بال کی مختلف تنظیموں کے مقابلے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ مذکورہ ملکی تنظیموں میں کوئنز لینڈ والی بال ایسوسی ایشن، اسٹیٹ والی بال نیو سائوتھ ویلز، والی بال اے سی ٹی، والی بال ناردرن ٹیریٹری، والی بال سائوتھ آسٹریلیا، والی بال تسمانیہ، والی بال وکٹوریہ، والی بال ویسٹرن آسٹریلیا شامل ہیں۔ ایشین چیمپئن شپ مقابلوں میں 1975سے شرکت کی اور 2007میں پہلی مرتبہ چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل کیا جب کہ 1999اور 2001میں دوسری پوزیشن پر رہی۔ آسٹریلیا کے ساحلی علاقوں میں بیچ والی بال کا کھیل انتہائی مقبول ہے اور والی بال آسٹریلیا کے زیراہتمام بیچ والی بال کے مقابلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔

’’کیوبا میں بیچ والی بال کیوبن ٹرافی‘‘ دو مراحل میں منعقد ہوتی ہے۔ فروری میں پہلے مرحلے ’’ویراذیرو‘‘ کا انعقاد ہوتا ہے جب کہ مارچ میں ’’سیگوڈی ایویلا ‘‘ کے نام سے کھیلی جاتی ہے۔ مئی میں قومی چمپئن شپ ہوتی ہے جس میںکیوبا کے تمام شہروں کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ ڈومیسٹک سطح کے مقابلوں کے علاوہ کیوبن ٹیمیں سینٹرل امریکن اور کریبئن گیمز میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ ۔ 1996-1992اور 2000کے اولمپکس گیمز میں کیوبا کی خاتون کھلاڑی ’’تمارالاریاپیرازا‘‘ نے چیمپئن شپ جیتنےکی ہیٹ ٹرک کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے 2003میںسانتو ڈومنگو، ڈومینکن ری پبلک میں منعقد ہونے والے پان امریکن گیمز میں طلائی تمغہ جیتا۔

یورپی ممالک میں بھی یہ کھیل خاصا مقبول ہے۔وہاںپورپی ممالک کی مشترکہ تنظیم کی سرپرستی میں براعظم کے مختلف ممالک کی والی بال ٹیموں کے درمیان میچوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔امریکا سے شروع ہونے والے اس کھیل کو پہلی جنگ عظیم کے دوران امریکی فوجیوں نے مشرقی یورپ میں متعارف کرایاجب کہ 1916ء میں بیچ والی بال کا کھیل متعارف کرایا گیا،1963میں رومانیہ کے شہر بخارسٹ میں یورپین والی بال کنفیڈریشن کے نام سے یورپ کی والی بال کھیلنے والے ممالک کی ٹیم کا قیام عمل میں آیا۔ آج کل اس کا صدر دفتر لگسمبرگ میں واقع ہے۔فرانس کی نیشنل والی بال ایسوسی ایشن، یورپین کنفیڈریشن کی فعال رکن ہے۔ 2015میں اسے یورپین چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا، جب کہ ورلڈ لیگ میں بھی اس کی ٹیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ اولمپکس گیمز میں فرانسیسی ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی ۔ 1964سے اب تک صرف تین مرتبہ اولمپک مقابلوں کے لیے کوالیفائی کرسکی اور آٹھویں، نویں اور گیارہویں پوزیشن پر براجمان ہوئی۔ ورلڈ چیمپئن شپ میں اس کی ٹیم نے 1949سے حصہ لینا شروع کیا لیکن صرف دو مرتبہ ، 2002اور 2014میں سیمی فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرسکی۔ ورلڈ لیگ کے مقابلوں میں 2006میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

بھارت میں یہ کھیل بیسویں صدی کے اوائل میں پہنچا۔ والی بال اور بیچ والی بال بھارت کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں کھیلی جاتی ہے۔ 1936ء سے1950 تک ہر دو سال بعد انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کے زیراہتمام’’ انٹر اسٹیٹ والی بال چیمپئن شپ ‘‘ کا انعقاد ہوتا رہا ۔ اس سلسلے کی پہلی چیمپئن شپ 1936ء میں لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ 1951ء میں والی بال فیڈریشن آف انڈیا کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا اجلاس لدھیانہ میں منعقد ہوا۔ بھارت ایشین رینکنگ میں پانچویں جب کہ عالمی درجہ بندی میں 27ویں پوزیشن پر براجمان ہے۔ 2003ء میں بیچ والی بال کی ورلڈ یوتھ چیمپئن شپ میںرنر اپ رہا۔ رواں سال سے بھارت میں انڈین والی لیگ کے نام سے لیگ چیمپئن شپ کا آغاز کیا گیا ہے جس میں چھ ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ان مقابلوں کا انعقاد چار مختلف وینیوز، بنگلور، چنائے، حیدرآباد اور یانام میں کیا جاتا ہے۔ لیگ میں شرکت کرنے والی چار ٹیموں کا تعلق مذکورہ شہروں جب کہ باقی کی دو ٹیمیں کرناٹک اور کیرالا کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہیں۔2005میں بھارت ایشین مینز والی بال چیمپئن شپ کا فاتح رہا۔

پاکستان میں والی بال کا آغاز 1954سے ہوا۔ 1955میں پاکستان والی بال فیڈریشن قائم کی گئی جس کے بعد اس کے قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد ہونے لگا، اسی سال پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور عالمی والی بال فیڈریشن نے پاکستان والی بال فیڈریشن کی تنظیم کی سرکاری طور سےمنظوری دی۔ 50 اور60 کی دہائی کے دوران پاکستان کی والی بال ٹیم کو ایشیائی ممالک میں بلند مقام حاصل تھا۔ 1955سے 1958تک پاکستان میں والی بال کے مقامی سطح کے ہی ٹورنامنٹ کرائے گئے جن میں نئے کھلاڑیوں نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ حصّہ لیا۔ 1958میں پاکستان کی ٹیم نے ایران کا دورہ کیا جہاں اس نے حریف ٹیم کو پانچ میچوں کی سیریز میں شکست سے دوچار کرکے ایشین چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل کیا۔ 1962میں جکارتہ میں ہونے والے ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ 1989میں بھی ایشین چیمپئن شپ میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ان مختصر کامیابیوں کے بعد قومی والی بال ٹیم روبۂ زوال ہونا شروع ہوئی اور تمغوں کی دوڑ میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔ 2008میں پاکستان جونیئر ٹیم نے ایران میں ہونے والی چیمپئن شپ میں ایشیاء کی صف اوّل کی ٹیموں جاپان، جنوبی کوریا، چین اور ایران کو شکست سے دوچار کیا۔والی بال کی طرح پاکستان میں بیچ والی بال بھی مقبول ہے ۔ لاہور میں اس کی قومی چیمپئن شپ کا انعقاد ہوتا ہے۔جنوری 2015میں ایشین بیچ والی بال کنفیڈریشن انٹرکانٹی نینٹل کپ میںپاکستانی کھلاڑی مبشر رضا نے فقید المثال کارکردگی کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو نقرئی تمغہ جتوایا۔ وہ نہ صرف کانٹی نینٹل کپ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے بلکہ انہوں نے 2016ء میں منعقد ہونے والے ریو اولمپکس کے لیےبھی کوالیفائی کرلیا۔ رواںبرس تھائی لینڈ میں ایشین انڈر۔19بیچ والی بال چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان کی جانب سے زرناب خان اور آفاق خان کے بہترین کھیل کی وجہ سے قومی ٹیم ابتدائی مراحل کے دو میچ جیتنے میں کامیاب رہی اور اس نے اکتوبر میں ارجنٹائن کے شہر بوئنس ایرز میںمنعقد ہونے والے سمر اولمپک 2018 میں جگہ بنالی۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 190653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.