فٹبال ورلڈ کپ کی حیران کن کہانیاں: دھت ریفری اور ’مردے کا گول‘

ہر چار سال بعد کروڑوں لوگ اپنی پسندیدہ ٹیموں کو ورلڈ کپ میں ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک ٹرافی کے پیچھے چند ملکوں کا مقابلہ نہیں، بلکہ ایک بڑے پیمانے پر انسانی طاقت کا مظاہرہ ہے۔

اور جہاں انسان ہوں گے، وہاں کچھ مزاحیہ واقعے بھی رونما ہوں گے۔
 

image


ورلڈ کپ کے دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے، کبھی کیمرے کے سامنے تو کبھی پسِ پردہ۔

ان کہانیوں کو ڈھونڈنے کے لیے بی بی سی نے صحافی لوچیانو ورنیکی سے بات کی، جو 1993 سے فٹبال سے منسلک ناقابلِ یقین واقعات اکٹھے کرتے آرہے ہیں۔

ان میں چند دلچسپ واقعات مندرجہ ذیل ہیں۔

جب ایک ’مردے‘ نے دو گول کیے
 

image


یہ واقعہ 1954 میں پیش آیا، اور اس کے مرکزی کردار یوروگوئے کے فارورڈ وان ہوہبرگ تھے۔

اپنے پہلے ہی میچ میں انھوں نے دو گول کر ڈالے، اور دوسرے گول کی بدولت یوروگوئے نے ہارا ہوا میچ بچا لیا۔ میچ کے 86ویں منٹ میں ہونے والا یہ گول خاصہ ڈرامائی تھا۔

خوشی کے مارے پوری ٹیم وان ہوہبرگ پر چڑھ دوڑی، اور اس جوش کا حیران کن نتیجہ یہ نکلا کہ تھکن اور آکسیجن کے کمی کی وجہ سے وان ہوہبرگ بے ہوش ہو گئے۔

ٹیم کے فیزیو کارلوس عباتے نے انھیں جلدی سے کورامائن نامی دوا دے دی، جو سانس لینے میں دشواری دور کرتی ہے اور وہ ہوش میں آ گئے۔

صحافی لوچیانو ورنیکی بتاتے ہیں کہ ذرائع کے مطابق وان ہوہبرگ کو میچ کے دوران دل کا دورہ پڑا تھا، اور چند لمحوں کے لیے ان کی طبی موت واقع ہو چکی تھی۔

لیکن ہوہبرگ فوراً ہی ہوش میں آگئے اور انھوں نے باقی پورا میچ بھی کھیلا۔

جنگجو قبیلے کا جوش
 

image


اس کہانی کو جاننے کے لیے ہمیں کئی سال پیچھے جانا ہوگا اور چاروا نامی قبیلے کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

لاطینی امریکی خود میں ہمت نہ ہارنے کے جوش و جذبے کو ’چاروا کا پنجا‘ کہتے ہیں۔ چاروا اس جنگجو قبیلے کا نام تھا جو ہسپانوی اور پرتگالی راج سے پہلے یوروگوئے کی سرزمین پر آباد تھے۔

یہی وہ تاریخی جذبہ ہے جس کی بدولت یوروگوئے کی ٹیم اپنے سے زیادہ قابل حریفوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔

اس جذبے کی دو مثالیں نمایاں ہیں۔

ان میں سے سب سے یادگار واقعہ 16 جولائی 1950 میں پیش آیا، جب یوروگوئے نے برازیل کو ریو ڈی جنیریو کے میدان میں شکست دی۔

یوروگوئے کی ٹیم اس میچ میں انڈرڈاگ تصور کی جارہی تھی لیکن انھوں نے اس سال ٹرافی اپنے نام کر کے برازیل کو شرمندہ کردیا۔

اس قِصے کو آج بھی ’ماراکنازو‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس جنگجو جذبے کی دوسری مثال 1962 کے ورلڈ کپ میں سامنے آئی، جب یوروگوئے کا میچ سوویت یونین سے ہوا۔

ایک جارحانہ ٹیکل کے بعد یوروگوئے کے مڈ فیلڈر الیسیو الواریز کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

لیکن چوٹ لگنے کے باوجود الواریز میدان چھوڑنے کو تیار نہ تھے اور کھیلتے رہے، جس سے ان کی ٹانگ شدید متاثر ہوئی۔

وہ رنگ جسے یاداشت سے مٹا دیا گیا
 

image

آپ نے شاید برازیل کو کبھی سفید کِٹ میں نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کی وجہ برازیل کی سب سے شرمناک شکست ہے۔

’ماراکنازو‘ کا مشہور واقعہ یاد ہے نا؟ اسی ورلڈ کپ میں میزبان ٹیم برازیل کی کٹ کا رنگ سفید تھا۔

ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے یہی لگتا تھا کہ میزبان ٹیم ہی ورلڈ کپ جیتے گی، لیکن یوروگوئے نے سب کو حیران کر کے دوسری بار ورلڈ کپ اپنے نام کر لیا۔

تب سے لے کر آج تک برازیل کی ٹیم نے کبھی سفید رنگ کے کٹ نہیں پہنی۔ اس کے بجائے کھلاڑی اب پیلے یا نیلے رنگ کی جرسیاں پہنتے ہیں۔

لیکن محض رنگ ہی نہیں، شکست کھانے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی بدشگون سمجھا جاتا تھا اور انھیں دنیاِ فٹبال سے دور رکھا گیا۔

یہاں تک کہ اس واقعے کے 43 سال بعد بھی اس ٹیم کے گول کیپر باربوسا کو 1993 کے ورلڈ کپ سکواڈ سے ملنے تک کی اجازت نہ تھی۔

حال ہی میں برازیل کو ایک اور شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جب 2014 کے ورلڈ کپ میں میزبان ٹیم کو جرمنی نے ایک کے مقابلے میں سات گول سے ہرا دیا۔ اس شکست کی ذمہ داری بھی ’ماراکنازو‘ والی متنازع سکواڈ پر ڈال دی گئی۔

نشے میں دھت ریفری
 

image

جب بھی فٹبال کی بات ہو تو شراب کا ذکر ضرور آتا ہے، کیونکہ اکثر شائقین میچ کے دوران شراب نوش کرنا پسند کرتے ہیں۔

لیکن کبھی کبھی شراب کا اثر کھیل کے میدان میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

صحافی لوچیانو ورنیکی کو جرمن ریفری والٹر ایشوائلر کی حرکتیں ابھی تک یاد ہیں۔ ’ایسے لگ رہا تھا کہ انھیں کھیل کے قوائد و ضوابط معلوم ہی نہیں‘۔

اصل کہانی تب سامنے آئی جب ایک صحافی نے ایشوائلر کے ہوٹل میں کام کرنے والی ایک ملازمہ سے بات کی۔

’مجھے انھیں لڑکھڑاتا دیکھ کر بالکل حیرانی نہیں ہوئی تھی، کیونکہ چند گھنٹوں پہلے ہی انھوں نے کھانے کے ساتھ تین لیٹر شراب پی تھی‘۔

لیکن یہ تب کی بات ہے، آج ایسا کرنے کی بالکل اجازت نہیں، بلکہ میچ سے پہلے شراب پینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Every four years, we come together to watch the greatest players from all around the globe compete for football's biggest prize: the World Cup. Many World Cups are also remembered for their controversies, scandals, and shocks.