اردگان میرا ہیرو ہے۔

اردگان میرا ہیرو ہے، میں جدید سلطان کے عہد میں جی رہا ہوں ، یہ میرا فخر ہے، میری شان ہے، اور اس کی صداقت پر میرا ایمان ہے۔ وہ مظلوم کا حامی اور ظالم کو چیلنج کرتا ہے، مغرب اور یورپ اس سے خوفزدہ ہے، اگر اردگان کا اسلام ایک ماڈل کے طرح دنیا کے سامنے کامیابی سے کھڑا ہوگیا تو ان کی ثقافت اورتہذیب کی کچی دیواریں مسمار ہوجائیں ۔

کیا آپ میرے ساتھ چائے پئیں گے، ایک ترک نوجوان نے اردگان کو ٹوئیٹ کیا اور تھوڑی دیر میں اردگان کی جانب سے جواب آیا، چائے تیار رکھو میں آرہا ہوں۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور اردگان اس نوجوان کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ ترکی میں اردگان کہیں بھی اور کبھی بھی کسی کے ہاں پہنچ سکتے ہیں، وہ ترکی کے عوام کے دلوں میں بستے ہیں، ان کے قرب کی خوشبو ہر جگہ موجود ہے۔ اردگان میرا ہیرو ہے، میں جدید سلطان کے عہد میں جی رہا ہوں ، یہ میرا فخر ہے، میری شان ہے، اور اس کی صداقت پر میرا ایمان ہے۔ وہ مظلوم کا حامی اور ظالم کو چیلنج کرتا ہے، مغرب اور یورپ اس سے خوفزدہ ہے، اگر اردگان کا اسلام ایک ماڈل کے طرح دنیا کے سامنے کامیابی سے کھڑا ہوگیا تو ان کی ثقافت اورتہذیب کی کچی دیواریں مسمار ہوجائیںگی۔ لندن میں بائیک پر ہزاروں ننگے جانور نما انسانوں کا جلوس کس تہذیب کی نمائندگی ہے، یہ وہی تہذیب ہے، جسکے لیے اقبال نے کہا تھا تماری تہذیب خود اپنے ہاتھوں سے خودکشی کرے گی۔ اردگان اس تہذیب کے لیے موت کا پیغام ہے۔ جب دنیا بھر میں مظلوم برمی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموشی چھا ئی ہوئی تھی تو اردگان تھا۔ جس نے روہنگیا مسلمانوں پر منظم حملوں کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ میانمار کے ہمسایہ ممالک کی خاموشی انسانیت کیخلاف جرم ہے۔ ترکی برمی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف برما کی حکومت کیخلاف ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ میری پیدائش کا سال سنہ 1954 ہی اردگان کا سال پیدائش ہے، ایک کوسٹ گارڈ کے گھر پیدا ہونے والا بچہ، جو تیرہ برس تک گاﺅں اور دیہات میں پلا بڑھا۔ اردگان کے والد نے جب اردگان 13 سال کے تھے تو فیصلہ کیاکہ وہ اپنے پانچوں بچوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے خیال سے استنبول منتقل ہوجائیں۔ اردگان نے غربت کا مقابلہ ہمت جرات اور ذہانت سے کیا ، اس نے معمولی کام کیے، وہ زندگی گزارنے کے لیے سڑکوں پر سکنجبین اور روغنی نان فروخت کرتے، فٹبال کے کھیل سے بھی انھیں میری طرح عشق ہے، انھیں قران سے بھی عشق ہے، ان کی تلاوت سنیں توآنکھیں برسنے لگتی ہیں۔ انھوں نے اسلامی ادارے میں بھی تعلیم پائی اور استنبول کی مرمرا یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری بھی حاصل کی۔ پھر ان کی ملاقات نجم الدین اربکان سے ہوئی، سید مودودی، سید قطب ، اربکان ایک کی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ وہ استنبول کے مئیر بنے تو ان کی صلاحیتوں سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔ انھوں نے استنبول کو صاف کرنے اور ہریالی لانے کے لیے بہت اچھے کام کیے۔ ان کے یہ کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ جب ساری دنیا میں اسلام کو دہشت گردی کا مذہب اور جہاد اور مساجد کو مطعون کیا جارہا تھا تو اردگان نے ساری دنیا کو للکار کر ایک نظم پڑھی۔ ،، مسجدیں ہماری چھاونیاں ہیں، گنبدیں ہمارے خود ہیں، میناریں ہماری سنگینیں ہیں اور مومن ہمارے سپاہی ہیں۔ اس جرات رندانہ پر انھیں 1999 میں مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیزی کے جرم میں چار ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔ترکی میں فوجی بغاوت ہو، گولن کے تعلیمی نظام کے آڑ میں مغرب کی سازش ہو، یا آزادی صحافت کی آڑ میں جھوٹی اور زرد صحافت اردگان ہر جگہ ایک برہنہ تلوار لے کر نکلے اور شر کے ہر فتنے کا سر کاٹ کر رکھ دیا۔ترکی کے تاریخی انتخاب کل جہاں ترکی کے لوگوں کے لئے کافی اہم تھا وہیں ترکی سے باہر بسے ترک باشندوں کے لئے بھی اتنا ہی اہم تھا۔ یہ ترکی کی بقاءاور سالمیت کا معاملہ تھا۔ ملک کو محفوظ رکھنے اور اس کی جمہوریت کو برقرار رکھنے کا تاریخی موقع۔ مغرب یورپ اور ترقی پسندوں کو یہ خوف ہے کہ،، ترکی ایک اسلامی ملک بننے والاہے،، تو ان لوگوں کو معلوم ہو کہ اس درخشندہ صبح کا روشن سورج طلوع ہوگیا ہے۔ رمضان میں ترکی میں فتح قسطنطنیہ کی 565 ویں سالانہ یادگار تقریب کا انعقاد ہوا تھا۔ رجب طیب اردکان اس میں شریک تھے۔ افطاری کے ساتھ شروع ہونے والی اس شب میں وزات ِ ثقافت و سیاحت کی جانب سے تاریخی ترک موسیقی کا صوفی پروگرام، فتح استنبول کے حوالے سے ایک “خصوصی فتح شو”ترک مسلح افواج کے فوجی بینڈ کے فن کا مظاہرہ،لیزر اور لائٹ شو، کا مظاہرہ، ساحل ِ سمندر سے اوسطً 50 میٹر کے فاصلے تک سمندری سطح پر ایک فلوٹنگ پلیٹ فارم دستاویزی فلم، یہ سب کچھ جدید ترکی اور اسلامی ثقافت کو وہ جواب بھی ہے، جو اسلامی ادب کلچر، اور ثقافت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ 29 مئی 1453 میں خلافت عثمانیہ کے عظیم خلیفہ محمد بن فاتح کی قیادت میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ کاقلع فتح کیاتھا جس کی حدیث میں بشارت سنائی گئی ہے۔فتح قسطنطنیہ کو عالم اسلام کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور یہیں خلافت عثمانیہ کے عروج کا سلسلہ شروع ہواتھا جس کا خاتمہ 1923 میں اپنوں کی غداری کی وجہ سے ہوا۔اس فتح کےساتھ بازنطینی سلطنت کے ساتھ قسطنطین یازدہم کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیاتھا اور قسطنطنیہ ملت اسلامیہ کے قلب کے طور پر ابھرا۔ شہر کے مرکزی گرجے ایاصوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اور شہر میں مسیحیوں کو پرامن طور پر رہنے کی کھلی اجازت دی گئی۔ فتح قسطنطنیہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب ہے ۔یہ شہر 470 سال تک سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت رہا اور 1923ءمیں مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو نئی ترک جمہوریہ کا دار الحکومت قرار دیا اور قسطنطنیہ کا نام استنبول رکھ دیا گیا۔اب اسے فتح استنبول کے نام سے بھی یاد کیاجاتاہے۔عالمی تاریخ کے رخ کو بدلنے والے ایک دور کاخاتمہ کرتے ہوئے ایک دوسرے عہد کی بنیاد ڈالنے والے سلطان محمد فاتح کا لازول کردار اب طیب اردگان کے روپ میں سامنے آیا ہے، خوش آمدید میرے سلطان ، طیب اردگان

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383666 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More