کشمیر میں سیاحت

کشمیر بلا شبہ اس خطہ پر جنت ہے۔ جون میں یہاں دسمبر جیسی فضا اور موسم ہے۔اﷲ تعالیٰ نے کشمیر کو خوبصورتی سے مالا مال کیا ہے۔ گو کہ کشمیر کا خوبصورت ترین حصہ بھارت کے قبضے میں ہے۔ ایک حصہ آزاد کشمیر اور دوسرا گلگت بلتستان ہے۔ یہ تمام خوبصورتی کے شاہکار ہیں۔ آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان کو ماضی میں نظر انداز کیا۔ ان کے بنیادی حقوق دلانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔سابق حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام سے دوستانہ تعلق قائم کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر کو گلگت بلتستان سے جوڑنے کے لئے ایک اہم شاہراہ تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ اس کی فزیبلٹی تیار کی گئی ہے۔ یہ شاہراہوادی نیلم کو گلگت بلتستان سے ملائے گی۔ یہی راستہ کشمیر کو وسط ایشیا سے جوڑنے کا بھی باعث بنے گا۔ اس سے سیاحت اور تجارت کو خاص طور پر فروغ ملے گا۔ ڈوگرہ مہاراجوں کے دور میں قدیم راستے کشمیر کو وسط ایشیاء ، ایران سے ملاتے تھے۔ پاکستان کے سیاحوں کی آج پہلی ترجیح یہی وادی نیلم ہے۔عید الفطر کے ایام میں لاکھوں کی تعداد میں سیاح وادی نیلم اور کشمیر کے دیگر علاقوں برسالہ، پیر چناسی، شہید گلی، پٹہکہ، بنجوسہ، تولی پیر، تتہ پانی، منگلا، لیپہ کی سیر کو گئے۔ وادی نیلم میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے ابلتے چشمے، دماغ کو معطر کر دینے والی وادیاں، دلفریب قدرتی مناظر،آسمان سے باتیں کرتے اونچے اونچے پہاڑ، آبشاریں، جھرنے، ندی نالے، ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیاں، قدرتی پھول اور لذیز پھل سیاحوں کا استقبال کرتے ہیں۔ اب تو راستے بہتر ہیں۔ ہوٹل اور ٹینٹ ویلج ہیں۔ گیسٹ ہاؤسزبھی ہیں۔ آپ اپنی گاڑی میں اسلام آباد سے براستہ مری، کوہالہ ، مظفر آباد سے ہوتے ہوئے وادی کی سیر کو نکل سکتے ہیں۔ایبٹآباد یا مانسہرہ سے گڑھی حبیب اﷲ کے راستے مظفرآباد پہنچا جا سکتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں لاکھوں سیاح نیلم آئے۔ وادی کی سیاحت کا یہی موسم ہے۔ مئی تا ستمبر۔ اس میں سیاح ٹریکنگ بھی کر سکتے ہیں۔ ایڈونچر ٹورازم بھی ہو سکتی ہے۔

مری کا گزشتہ دنوں بائیکاٹ کیا گیا۔ مگر کسی بھی خطے کا بائیکاٹ نہیں ہونا چاہیئے۔ اس بائیکاٹ میں سیاحوں کے میزبانوں کے لئے سبق ہے کہ آپ خوش دلی اور خلوس سے مہمانوں کی خدمت کریں۔ ٹرانسپورٹ کرائے، ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز کے کرائے مناسب رکھیں، قیمتوں میں اضافہ نہ کریں۔ورنہ کوئی بھی بائیکاٹ اور بدنامی کی زد میں آ سکتا ہے۔ مری، سوات، ناراں جیسے خوبصورت مقامات کی اپنی دلکش اہمیت ہے۔سیکڑوں کلو میٹر پر پھیلی وادی نیلم میں چند دن گزارکر انہیں یاد گار بنا یا جا سکتا ہے۔ یہاں آ کر انہیں تحریک آزاد ی کشمیر اور اس کے متاثرین سے بھی کچھ تعلق پیدا ہو گا۔ دریائے نیلم کے سامنے پار کی آبادی بھارتی فوج نے قید کر رکھی ہے۔ یہ پورا علاقہ محصور ہے۔ جو بھی یہاں آتا ہے ۔ کشمیر کی آزادی کے لئے تڑپ لئے واپس ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت کو وادی نیلم کے جنگلات ، جڑی بوٹیوں ، قیمتی اور انمول پتھروں سے آمدن ہوتی ہے۔ اس آمدن میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سیاحت پر خصوصی توجہ دے کر یہاں سیاحوں کے لئے رہائش، خوراک معقول نرخوں پر فراہم کی جا سکتی ہے۔ تا کہ یہ لوگ بار بار یہاں آئیں۔ یہ وادی ریاست کی ترقی میں سونے کے انڈے دینے والی مرغی بن سکتی ہے۔ سیاحوں کا استقبال، ان کے لئے معلوماتی کاؤنٹرز، علاقہ کی تاریخ، اشیاء کی معقول قیمت پر دستیابی ضروری ہے۔ علاقہ کے عوام تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ اچھے میزبان ثابت ہو سکتے ہیں۔ سیاحوں کو شاہی مہمانوں کی طرح عزت دینے سے ہی یہ وادی ٹورازم کو ایک صنعت کے طور پر متعارف کرا سکتی ہے۔ یہاں کے ٹرانسپورٹرز، ہوٹل مالکان، ٹینٹ ویلجز کے منتظمین اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ ملک کے جس علاقہ میں سیاحوں کو لوٹا جاتا ہے، ان کی عزت اور رہنمائی نہیں کی جاتی ، وہ علاقے خوبصورت ہونے کے باوجود سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے ۔ حکومت نے اگر سیاحت کو منافع بخش انڈسٹری بنانا ہے تو اسے سیاحوں کی سہولیات کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی۔پولیس کی ایک کمپنی کو ٹورازم پولیس کے طور پر سیاحتی علاقوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔اگر سول انتظامیہ متحرک ہو۔ جگہ جگہ شکایات اور تجاویز بکس رکھے جائیں، شکایات یا تجاویزپر فوری کارروائی ہو تو مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کوہالہ کو کشمیر قرار دے کر سیاحوں کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔ یہاں ٹورازم محکمہ کے خصوصی کاؤنٹرز کی ضرورت تھی۔ لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی۔چوراہوں اور اہم مقامات پر سائن بورڈز نہ ہونے کی وجہ سے بھی مشکلات ہوتی ہیں۔انٹری پوائنٹس پر سیکورٹی کے ساتھ تعاون بھی ضروری ہے۔ اس طرح کوئی بلا وجہ تنگ طلبی کی شکایت بھی نہیں کرے گا۔ اگر کوئی بلا وجہ تنگ کرے تو شکایت کی جا سکتی ہے۔ سیاح بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کر سکتے ہیں۔ یہاں پہاڑی علاقے ہیں۔ تیز بہاؤ دریا اور ندی نالے ہیں، پہاڑ ہیں۔ سلائیڈنگ علاقے ہیں۔ پھسلن بھی ہوتی ہے۔ لوگ دریا میں ڈوب جانے سے بھی بچ سکتے ہیں۔ گاڑیوں کی تیز رفتاری ، اوور ٹیکنگ، لاپرواہی، بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ جاگران کٹن نالے پر معلق پل ٹوٹنے سے کئی جانیں تلف ہوئیں، تیز رفتاری سے بھی لوگ حادثوں کے شکارہوسکتے ہیں۔نیلم جہلم دریاؤں میں تیراکی بھی محفوظ نہیں ہوتی۔احتیاط لازمی ہے۔ قومی ترقی کا جذبہ اور خلوص ہو توہر کام نتیجہ خیز ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ سب حکومت سمیت ہر فرد کے کرنے کے کام ہیں۔مہمان اور میزبان سمیت ہر کوئی ذمہ دار شہری کے فرائض سر انجام دے تو حیران کن مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو اجا سکتا ہے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483890 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More