سردی ہو، گرمی یا برسات انتخابات بر وقت ہوں گے

الیکشن کمیشن نے انتخابات 2018ملتوی کرنے کی درخواست اور فاٹا میں قومی و صوبائی انتخابات اکٹھے کرانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ دیا کہ سردی ہو، گرمی یا برسات عام انتخابات بر وقت ہوں گے۔ الیکشن کے التوا کی درخواست متحدہ قبائل پارٹی کی جانب سے دی گئی تھی۔درخواست گزار کے وکیل معروف قانون دان فروغ نسیم تھے جنہوں نے عام اانتخابات ملتوی کرنے کے حق میں دلائل دیے۔ ان کا موقف تھا کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہیں کروائے گئے تو 15فیصد عوام نمائندگی سے محروم رہیں گے، حکومتی اثر سے بچنے کے لیے الیکشن ایک ہی دن کرائے جائیں۔ان کاکہنا تھا کہ 15فیصد بڑی آبادی ہے جس کا الیکشن ایک سال نہیں ہوگا، ان کی یہ بھی منطق تھی کہ جنوبی پنجاب میں شدید گرمی ہوتی ہے لوگ باہر نہیں نکل سکیں گے۔، فاٹا میں عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ الیکشن کمیشن نے بیرسٹر فروغ نسیم کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا، یہ بھی کہا کہ آپ فاٹا کے معاملے کو جنوبی پنجاب میں گرمی سے کیوں جوڑ رہے ہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ فاٹا میں قومی اسمبلی کے انتخابات تو منعقد ہورہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ایک سال بعد ہوجائیں گے۔ بیرسٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ جنوبی پنجاب میں 25جولائی کو بہت گرمی پڑنے والی ہے۔ اگر الیکشن دو سے پانچ ماہ کے لیے ملتوی کردیے جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن ایک سال بعد انتخابات سے قبل از وقت دھاندلی ہوسکتی ہے۔

انتخابات ملتوی کیے جانے کی افواہیں کئی دنوں سے گردش کررہی ہیں۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر اکثر لوگ نئی نئی منطق پیش کر کے انتخابات کے التوا کے حق میں لکھتے رہے ہیں۔ الیکشن ملتوی کرانے کی جو بھی تاویلیں دی جاری ہیں ان میں قطعناً جان نہیں۔ الیکشن کا وقت پانچ سال پہلے ہی طے ہوجاتا ہے کہ اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوگی اور آئندہ انتخابات اس ماہ میں ہوں گے۔ آئینی اعتبار سے بھی انتخابات کا منعقد ہونا طے ہوتا ہے۔ اگر کسی کی بھی بھونڈی دلیل مان لی جائے تو ملک میں آئینی بحران پیدا ہوجائے گا۔ اس لیے کہ نگراں حکومت کے پاس مختصر وقت ہے اسے اس وقت میں انتخابات کرانا ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انتخابات کے التوا کے حق میں دلائل ایک منجھے ہوئے قانون داں جن کی سیاسی جماعت از خود انتخابی دنگل کا حصہ ہے دلائل دے رہے ہیں ۔ کس طرح اور کن مقاصد کے لیے انتخابات ملتوی کرانے والوں کی وکالت کر رہے ہیں نہیں معلوم۔ اگرانتخابات مقررہ وقت پر مناسب نہیں تو انہیں اپنی جماعت کی جانب سے اس کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے۔ وہ جماعت احتجاج کرے، انتخابات کا بائی کاٹ کر دے لیکن نہیں یہ سیاست ہے دوسری جانب پیشہ آڑے آرہا ہے۔ وکالت اور پیشے کا تسلسل اپنی جگہ لیکن بات تو اصول کی ہونی چاہیے۔ آپ کے دلائل میں کوئی وزن نہیں، کوئی منطق نہیں، پورا ملک انتخابی عمل میں مصروف ہے کیا کراچی میں گرمی کم پڑ رہی ہے، سابقہ دنوں میں کس قدر گرمی کراچی میں پڑی، یہاں سیاسی اجتماعات نہیں ہوئی، کیا کراچی کی سیاسی جماعتوں نے جلسے اور ریلیاں نہیں نکالیں، لیڈروں نے سخت گرمی میں عوام سے خطاب نہیں کیا۔ عمران خان کراچی نہیں آئے، شہباز شریف صاحب نے کراچی کی سخت گرمی میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کراچی سے نہیں کیا؟ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے چارٹرڈ طیارے میں کراچی تشریف لائے، سخت گرمی میں انہوں نے سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اسی گرمی میں انہوں نے مختلف اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔ اس لیے اس دلیل میں جھول ہے، نقص ہے ،خامی ہے، غیر منطقی ہے ، کہا گیا کہ عام انتخابات والے دن جنوبی پنجاب میں سخت گرمی ہوگی۔ بیرسٹر صاحب نہیں معلوم کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں ۔سائنس نے جس قدر بھی ترقی کر لی ہے لیکن بعض معاملات میں سو فیصد پیشن گوئی درست ثابت نہیں ہوتی۔ آج ہی محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی تھی کہ کراچی میں موسلادھار بارش ہوگی، دن گزر گیا بارش کے دور دور آثار نہیں۔ اس لیے سیاسی لوگوں کو اپنی توانائیاں سیاسی سرگرمیوں میں صرف کرنی چاہیں فضول کی باتوں میں آمدنی تو ہوتی ہے لیکن سیاسی نقصان بہت ہوتا ہے۔

ایک دلیل انتخابات ملتوی کرنے کی یہ دی گئی کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک سال بعد ہوں گے۔ یہ فیصلہ سابقہ اسمبلی نے کیا ۔جسے قانون کا درجہ حاصل ہے۔ اُس وقت سیاسی لوگوں نے یہ آواز کیوں نہیں اٹھائی ، اس وقت یہ خیال نہیں آیا کہ پورے ملک میں انتخابات ایک ہی دن ہونے چاہیں۔ فاٹا کے سیاسی اور انتظامی مستقبل کا فیصلہ ہوا ہے اوروہ خیبر پختونخواہ کا حصہ بنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ بھی اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے چند دن قبل ایک طرح سے اجلت میں ہی ہوا تھا لیکن اچھا فیصلہ تھا، سب ہی نے اس کا خیر مقدم کیا، اگر اس مرتبہ فاٹا کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک سال بعد بھی ہوئے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ آخر عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات بھی تو ہوتے ہیں، ہر بڑا لیڈر چار چار پانچ پانچ حلقوں سے انتخاب لڑ رہا ہے، اگر اس منطق کو مان لیا جائے تو ضمنی انتخابات کے لیے بھی کہا جائے کہ وہ آیندہ عام انتخابات کے ساتھ ہوں ۔ لیکن اس قسم کی دلیلوں میں جان نہیں ہے۔ انتخابات کا ملتوی ہونا ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ جمہوری عمل اور جمہوریت کی گاڑی کو رکنا حتیٰ کہ وقتی طور پر بھی بریک لگانا مناسب نہیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ انتہائی مناسب اور ملک ، قوم اور جمہوریت کے حق میں ہے۔ انتخابات کا بروقت ہونا ہی مناسب ہے۔ انتخابات کا پچاس فیصد مرحلہ تو گزر چکا، کاغذات نامزگی کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہیں۔ ہر جماعت اپنے امیدواروں میدان میں اتار چکی، جسے ٹکٹ ملا وہ خوش جسے ٹکٹ نہیں ملا وہ چراغ پا، آزردہ، برافرختہ، پر غضب اور غیظ آلود ہے جیسے ضعیم قادری، چودھری نثار اور دیگر شامل ہیں۔ دوسری جانب نگراں حکومت تمام انتخابی عمل کے لیے ضروری کاروائی کررہی ہے۔ نگراں وزیر اعظم جسٹس(ر) ناصر الملک کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس جس میں الیکشن کے انتظامات کا جائزہ لیا گیا ، بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ملاقات کی ہے جس میں عام انتخابات اور پاک فوج کے پیشہ ورانہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فوج عام انتخابات میں سول انتظامیہ کی معاونت کرے گی۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپررز کی چھپائی کے حوالے سے تینوں پرنٹنگ پریس کی سیکورٹی کے لیے فوج کی نفری مانگ لی ہے۔ انتخابات کی تیاریاں بھر پور طریقے سے حتمی سمت میں روں دواں ہیں ۔ ادھر سیاسی جماعتوں نے عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کے رائج طریقوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔تمام تر تیاریوں اور منصوبہ بندی کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عام انتخابت 25جولائی کوہی انشاء اللہ ہوں گے اور قوم نئی قیادت کا انتخاب کرے گی۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274642 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More