قومی اسمبلی کے امیدواروں کی حتمی فہرست:اسلام آباد کی صورت حال

قارئینِ محترم!29جون کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات2018ء میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جو 30جون کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ گویا مقابلے کے لیے امیدوار میدان میں آچکے ۔ کس کا مقابلہ کس سے ہوگا یا کون ہوگا کس کے مقابل ، یہ مرحلہ اختتام کو پہنچا، اللہ کا شکر ہے کہ انتخابات کا پہلا اور اہم مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور وہ تمام خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں جن میں کہا جارہا تھا کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے۔ ابھی قومی اسمبلی کے امیدواروں کی فہرست سامنے آئی ہے ، صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی حتمی فہرستیں بھی سامنے آجائیں گی۔یہاں قومی اسمبلی کے حوالے سے ہی کچھ بات کی جائے گی۔تمام حلقوں پر ایک ساتھ تجزیہ اور تبصرہ ممکن نہیں چنانچہ قسط وار مختلف حلقوں اور ان میں انتخاب میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے والے امیدواروں کے بارے میں اپنا تجزیہ اور رائے پیش کی جاتی رہے گی۔یہاں اسلام آباد کے تین حلقوں کے امیدواروں کے بارے میں اختصار سے کچھ رائے دی جارہی ہے۔ قومی اسمبلی کے نشستوں کی کل تعداد 272ہے۔صوبوں کے اعتبار سے تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
۱۔ اسلام آباد 3
۲۔ خیبر پختونخواہ 51
۳۔ پنجاب 141
۴۔ سندھ 61
۵۔ بلوچستان 16

اسلام آباد کی تین قومی اسمبلی کی سیٹوں پر 14امیدوار میدان میں ہیں ۔ یہاں ایم ایم اے کا کوئی امیدوار موجود نہیں البتہ تینوں سیٹوں پر تحریک لبیک کے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں ان میں اسرار احمد عباسی، افنان بلوچ اور ساجد اعوان شامل ہیں۔ یہاں اصل مقابلہ این اے 53پر عمران خان اور شاہد خاقان عباسی اور پی پی کے صبغت الحسن بخاری کے درمیان مقابلہ متوقعہ ہے۔ اس سیٹ پر اللہ اکبر تحریک کے چودھری گجر اور پی ایس پی کے شہزاد آصف بھی امیدوار ہیں۔ اگر پی پی اور نون لیگ کے درمیان کوئی خفیہ ڈیل نہیں ہوئی تو مقابلہ عمران خان اور شاہد خاقان عباسی کے درمیان ہی ہوگا۔ کچھ خبریں اس قسم کی بھی ہیں کہ یہاں پی پی اور نون لیگ کے درمیان کچھ کھچڑی پک رہی ہے۔ دال میں کچھ کچھ کالا ہے اگر حلیم کی دیگ بن گئی تو عمران خان کو مشکل میں ڈال سکتی ہے، بصورت دیگر یہاں عمران خان کے جیتنے کے خاصے امکانات ہیں۔ این اے 54کا حلقہ بھی اہم ہے یہاں تحریک انصاف کے اسد عمر کا مقابلہ نون لیگ کے انجم عقیل خان اور پی پی کے راجہ عمران اشرف سے ہوگا۔ یہاں بھی پی پی اور نون لیگ نے کمزور پہلوان میدان میں اتارے ہیں، میرا نہیں خیال کہ اسد عمر یہ سیٹ نہ نکال سکیں۔ نون لیگ کے امید وار انجم عقیل ابتدا میں اسکول ٹیچر تھے، پھر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے رہے، 2008 ء کے عام انتخابات میں نون لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا اور پی پی کے امیدوار سید عشرت حسین کو شکست دی ، اس الیکشن میں انہوں نے61,480 ووٹ لیے تھے، یہ 2011 ء میں گرفتار بھی ہوئے،اس کے بعد2013 ء کے انتخابات میں یہ پھر نون لیگ کے امیدوار تھے لیکن اس بار انہیں جاوید ہاشمی نے شکست دی ، انہوں نے 52,205 ووٹ لیے۔ ایک اعتبار سے ان کی ساکھ کوئی قابل ذکر نہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کا اور اسد عمر کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔پی پی کے امیدوار راجہ عمران اشرف ، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے بھائی ہیں۔ سیاسی خاندان سے تعلق ہے لیکن راجہ پرویز اشرف کے مقابلے میں سیاست کے میدان میں جونیئر ہیں۔ کسی وقت راجہ پرویز اشرف نے عمران خان سے دوستی کا ڈول بھی ڈالنا چاہا تھا۔ اسلام آباد کی سیٹ این اے 52میں تحریک انصاف اور پی پی کے امیدواروں کے مقابلے میں نون لیگ کے طارق فضل چودھری مضبوط امیدواردکھائی دے رہے ہیں۔طارق فضل چودھری پرانے مسلم لیگی ہیں نون لیگ کے ٹکٹ پر 2008 پھر 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ مختلف وزارتیں بھی ان کے پاس رہیں۔ میڈیا پر نون لیگ کابھر پور انداز میں دفعہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے مقابلے افضل کھوکھر پرانے پارلیمنٹیرین ہیں، نون لیگ کے ٹکٹ پر 2008 ء سے موجودہ اسمبلی کے اختتام تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نون لیگ کی حکومت گزشتہ پانچ سالوں سے سے تو مسلسل قائم ہے اس سے قبل بھی میاں نواز شریف کی حکومت دو بار قائم ہوکر ڈھیر ہوچکی ہے ۔ لیکن اسلام آباد میں ان کے اثرات خاصے مضبوط دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف نے بھی اسلام آباد کے رہائشیوں کو اپنی جانب مبزول کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے ، مخالفین کے لیے تو منفی تھے لیکن تحریک انصاف کو ان دھرنوں سے فائدہ یہ ہوا کہ تحریک کے کارکنوں نے اسلام آباد سے راہ و رسم قائم کر لیے۔ انتخابات میں وہی تعلقات کام آئیں گے۔ تحریک انصاف کا ایک مثبت اقدام یہ بھی ہے کہ یہاں سے عمران خان از خود میدان میں اترے اور دوسری سیٹ پر اپنی پارٹی کے نہایت ہی سنجیدہ ، پڑھے لکھے ، اور معتبر شخصیت اسد عمر کو میدان میں اتار کر عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔ عمران خان اسلام آباد کے مکین بھی ہیں۔ نون لیگ کا شیرازہ بکھر چکا ہے ، کئی امیدوار تو ٹکٹ مل جانے کے بعد بھی نون لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑ رہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی عمومی کارکردگی قابل ذکر نہیں ۔ ان کے ذہنوں میں سندھ میں حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلام آباد سے پی پی کا کوئی پائے کا لیڈر قومی اسمبلی کا امیدوار نہیں۔ ایم ایم اے نے اسلام آباد سے کسی کو ٹکٹ نہیں دیا یا پھر انہیں کوئی امیدوار ہی نہیں ملا اسلام آباد سے الیکشن کے لیے۔ یہی صورت اے این پی اور دیگر جماعتوں کی بھی ہے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278333 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More