جسم فروش

میرے سامنے بیٹھی جوان عورت گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہی تھی ‘سر آپ ہم جیسی عورتوں سے نفرت تو بہت کر تے ہیں حقارت سے ہمارا ذکر کر تے ہیں کہ جسم فروش عورتیں نام نہاد مہذب معاشرے کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ ہیں ۔ جسم فروشی کے اڈے معاشرے میں بے حیائی فحاشی پھیلا نے کے ذمہ دار ہیں ۔ نہیں سر آپ سچائی سے منہ موڑ رہے ہیں آپ حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کر رہے ۔ میں نے خا وند کی وفات کے بعد معاشرے کے ہر طبقے کے سامنے جاکر مدد مانگی باعزت نوکری کے لیے در در کی خاک چھا نی ‘شادی ہالوں ‘کو ڑے کے ڈھیروں سے مردار کھانے اکٹھے کئے لیکن پھر بھی مہذب معاشرے نے مجھے جینے نہیں دیا ‘آپ سمجھتے ہیں کہ جسم فروشی لذت آمیز آسان کام ہے جناب ایسی بات نہیں ہے ‘شرابی کبابی غلیظ گندے انسان جن کے پاس آپ ایک لمحے کے لیے بھی بیٹھنا گوارا نہ کریں ہما را واسطہ اُن پاگل جنونیوں وحشی درندوں سے پڑتا ہے جودرندوں کی طرح ہما ری عزت اور جسم کو نو چتے ہیں ‘تشدد مزاج کے حامل افراد ما ر پیٹ کر تے ہیں ‘ زبردستی نشہ آور اشیاء شراب پلاتے ہیں ‘ اپنے ما ضی کی بکواسیات ‘گالیوں کے قصے سناتے ہیں ہم پیٹ کی آگ بجھا نے اور تن کو چھپانے کے لیے یہ سب سہتی ہیں ‘ ہم ہر رات گناہ کی سولی پر لٹکتیں ہیں ہر روز ہما رے جسموں اور عزتوں کا قیمہ بنایا جا تا ہے ‘ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے جسم فروشی کے ان اڈوں پر سینکڑوں عورتیں بھیڑ بکریوں کی طرح رکھی جا تی ہیں ‘ طریقہ واردات یہاں کا انتہائی کرب ناک ہے جب بھی کو ئی درندہ اپنی جنسی تسکین کے لیے ان اڈوں کی طرف رُخ کر تا ہے تو وہ جاکر اپنی مرضی کا جانور حاصل کر تا ہے ‘گاہک آکر بیٹھ جاتا ہے ہم بھیڑ بکریاں قطار میں آکر بار ی باری اُس کے سامنے سے گزرتی ہیں وہ ایک ایک کو سر سے پاؤں تک خو نی جنسی نظروں سے دیکھتا ہے ہم کنیزوں کی طرح اُس سے ہاتھ ملا کر آگے چلتی جاتی ہیں اب وہ اِن بھیڑ بکریوں میں سے اپنی مرضی کی علیحدہ کر تا جا تا ہے اب الگ کی گئی لڑکیوں کو پھر حکم دیا جاتاہے کہ وہ پھر قطار بنا کر درندے کے سامنے سے گزریں اُس سے ہاتھ ملائیں اب وہ مزید چھانٹی کر لیتا ہے اب جب چند لڑکیاں اُس کے سامنے رہ جاتی ہیں تو وہ اُن کو اچھی طرح دیکھ کر سونگھ کر ٹٹول کر اپنی مرضی کی لڑکی سلیکٹ کر کے اعلان کر تا ہے کہ آج کی عیا شی اور گناہ کے لیے یہ مجھے پسند ہے اب جو مسترد کر دی جاتی ہیں وہ خو ن کے آنسو پی کر خاموش ہو جاتی ہیں کہ اُن کی دیہا ڑی مر گئی ۔ اب اُس درندگی کی تسکین کے لیے کہا جاتا ہے صاحب کے لیے سٹیج تیار کیا جائے پھر چند پھول بکھیر کر گنا ہ کی سٹیج تیا ر کی جاتی ہے یہ سارا عمل کرا ہت آمیز سزا دینے والا ہوتا ہے جس سے چند روپوں کے لیے ہمیں گزرنا پڑتا ہے ‘ گناہ کا یہ کھیل صدیوں سے دنیا کے چپے چپے پر کھیلا جاتا رہا ہے انہی درندوں میں کبھی کبھا ر کو ئی رحم دل انسا ن بھی آجاتا ہے اُسے کو ئی لڑکی اگر پسند آجائے تو وہ اُس کو اِس جہنم سے نکال لے جا تا ہے لیکن ایسا برسوں بعد ہی ہو تا ہے ایسا ہی ایک نیک انسان کسی وقتی حادثے کی وجہ سے وہا ں آیا میری اُس سے ملا قات ہوئی یا خدا کو مُجھ پر ترس آیا میں اُس گنا ہ کی وادی سے نکل آئی ‘نیک انسا ن چند مہینے ہی میرے ساتھ شادی شدہ زندگی گزار کر اِس جہاں فانی سے کو چ کر گیا لیکن جاتے جاتے وہ میرے لیے اتنا کچھ کر گیا کہ میں اب با عزت سادگی سے زندگی گزار سکتی تھی ‘ خدا نے مجھے جب تو بہ کا موقع دیا تو میں نے تو بہ کر لی اور پھر کبھی بھولے سے بھی مُڑ کر اُس گنا ہ آلو دہ زندگی کی طرف نہیں دیکھا ‘ اب جو اُس ذلت آمیز زندگی کو چھوڑ ا سکون کا سانس لیا جب گنا ہ سے پاک زندگی گزارنی شروع کی تو شدت سے احساس ہوا کہ میرے جیسی ہزاروں لڑکیاں گناہ کے اُس جہنم میں جل رہی ہیں ‘ تو میں نے کو شش کی کہ اُن جسم فروشی کے اڈوں کو ختم کر نے کی کو شش کروں ۔ اب جو میں نے یہ کو شش کی تو شدید مزاحمت کا سامنا کر نا پڑاجس تھا نیدار سیاستدان یا معاشرے کے طاقتور امیر شخص کے پاس گئی اُس نے حیرانی سے مجھے دیکھا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے ‘ سر ہما رے ملک کے چپے چپے پر پھیلے جسم فروشی کے ان اڈوں کی تفصیل ہمارے پو لیس اور ایجنسیوں کے پاس مکمل طور پر مو جود ہیں ‘ یہ تھانیدار اِن اڈوں کے مالکان سے بھتہ وصول کر تے ہیں بلکہ یہ اڈے ہو ٹل جہاں پر دھندہ ہو تا ہے اِن تھانیداروں کی سر پر ستی میں ہو تا ہے بلکہ یہ اڈے تھانیداروں کی سر پر ستی کے بغیر چل ہی نہیں سکتے بلکہ اِن کی عیا شی کا سامان بھی یہیں موجود ہو تا ہے کسی امیر آدمی کو پکڑوا کر اڈا مالکان اور پو لیس خو ب دولت کی پیاس بجھا تے ہیں ‘ سر میں اور میری چند دوستوں نے ایک گروپ بنایا ہم وطن عزیز کے بڑے کالم نگاروں سیاستدانوں مخبر حضرات تک گئیں کہ آپ اپنا اپنا رول ادا کریں تا کہ یہ بھیڑوں بکریوں کی طرح لڑکیاں باعزت زندگی گزار سکیں ‘ مخیر حضرات سے کہا کہ آپ اِن لڑکیوں کے باعزت روزگار کا بندوبست کریں سیاستدانوں سے کہا آپ اپنی حکومت کی ترجیحی لسٹ میں اِن بھیڑ بکریوں کو شامل کر یں ۔ ہم نے مالی مدد یا اِن کی اصلاح کے لیے جہاں بھی گئیں ہمیں حقارت سے دیکھا گیا ہماری تحقیر کی گئی ‘ فون لے کر بعد میں ہمیں فحش گفتگو اور دعوت گنا ہ کی ترغیب دی گئی ۔ سر اب میں آپ کے پاس کسی مدد کے لیے نہیں آئی بلکہ صرف اِس لیے آئی ہوں کہآپ جب جانتے ہیں کہ جسم فروشی کے اڈوں سے حکومت جب واقف ہو تی ہے تو وہ معاشرے کے اِس نا سور کو ٹھیک کر نے میں اپنا رول کیوں ادانہیں کر تی ۔ سرآپ کے پاس آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ آپ آواز اٹھا ئیں کہ آنے والے الیکشن میں کوئی جماعت ہمیں اپنے منشور میں شامل کرے ہما ری اصلا ح کا بھی بیڑا اٹھا ئے ‘ حوا کی یہ بیٹیاں دن رات تلوار کی دھا ر پر زخمی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ سر اگر معا شرے اور حکومت نے اپنا کر دار ادا نہ کیا تو ہر مو ڑ پر ہر شہر میں بنت حوا اسی طرح سر عام بکتی رہے گی ۔ جنسی درندے اِن کی بو ٹیاں نو چتے رہیں گے ‘ سر گنا ہ کو دیکھ کر چشم پو شی کر نا بھی گنا ہ ہے اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو اِن کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں کیونکہ آپ نے اِن کی اصلا ح کی حقیقی کو شش نہیں کی ‘درد میں لپٹی وہ عورت تو اپنی داستان الم سنا کر چلی گئی لیکن میرے لیے سوچ کی بہت ساری لکیریں چھو ڑ گئی اِس دعا کے ساتھ کہ خدا ئے لا زوال کب ایسا مسیحا لا ئے گا جو دھرتی کو اِس بو جھ سے آزاد کرے گا ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 651421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.