جنازہ کے اہم مسائل واحکام (ساتویں قسط)

(47) میت کے لئے ایصال ثواب کے جائز طریقے :
اس سے پہلے یہ بتلایا گیا ہے کہ میت کو غیرمشروع طریقوں سے ایصال ثواب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اور ان غیرمشروع طریقوں کا بھی ذکر کیا گیا جو لوگوں میں رائج ہے ، اب یہاں میت کے لئے ایصال ثواب کے مشروع طریقے ذکر کئے جاتے ہیں جن سے میت کو ثواب پہنچتا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بعض کام ایسے ہیں دنیا میں جن کی انجام دہی سے خود بخود کو میت کو اس کی قبر میں ان کاموں کا ثواب دیا جاتا ہے ۔ ان کاموں کا ذکر صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل روایت میں ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا اجروثواب اسے مرنے کے بعدبھی ملتا رہتا ہے ۔ صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہو،صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے ۔
اس حدیث میں تین کاموں کا ذکر ہے جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے وہ تین کام صدقہ جاریہ، نفع بخش علم اور صالح اولاد کی دعا ہیں۔
صدقہ جاریہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی حیات میں سماج کے فائدہ کے لئے کوئی بھی ایسا کام کیا ہو جو اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رہے مثلا لوگوں کی بھلائی کے لئے سڑک ، کنواں ،پل، ہسپتال، نل،مسافرخانہ، یتیم خانہ، تعلیم گاہ اور سجدہ گاہ بنایا ہو تو ان کاموں کا اجر قبر میں میت کو اس وقت تک ملتا رہے گا جب تک ان کاموں سےلوگوں کا بھلا ہوتا رہے گا۔ وہ لوگ بھی اس اجر میں شامل ہوں گے جنہوں نے میت کو ان کاموں پر ابھاراہوگا يا ان کاموں میں مدد کیا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ اگر انسان دنیا میں ایسی کوئی بری چیز قائم کرکے جاتا ہے جس سے سماج میں برائی پھیلتی ہے، فتنہ وفساد اور فسق وفجور کا سبب ہے تو میت کے عذاب میں اضافہ ہوگا مثلا کوئی فلم ہال ، جواگھر، نائٹ کلب، بیربار، ڈانس باروغیرہ بناکے مر جائے ۔ اللہ کی پناہ ایسی موت سے ۔
نفع بخش علم سے مراد انسان کا زندگی میں لوگوں کو قرآ ن وحدیث کی تعلیم دینا، دینی کتابیں لکھنا، لکھوانا اور ان کی نشرواشاعت کرنا، تقریر وتحریر کے ذریعہ لوگوں کی علمی رہنمائی کرنا، حصول علم کے لئے کسی قسم کی راہ ہموار کرنا مثلا معلم کی تنخواہ دینا، مدرسہ کی تعمیروترقی میں حصہ لینا، کتابوں کی اشاعت اور طلبہ کے اخراجات برداشت کرناوغیرہ ۔ ان کاموں کا اجر ان سب کو بھی ملے گا جنہوں میت کو ان کاموں کی طرف رہنمائی کی ہو یا ان کاموں پر کسی طرح کا تعاون کیاہو۔ ساتھ ہی یہاں یہ بات بھی معلوم رہے کہ اگر کوئی شخص زندگی میں لوگوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے جس سے گمراہی پھیلتی ہے ، ایسی کتاب یا مضمون لکھتا ہے جس سے علم نہیں جہالت کو شہ ملتی ہے یا ایسی تقریر اور خطبہ دیتا ہے جس سے امت میں اختلاف وانتشار، فرقہ پرستی ، کتاب وسنت سے دوری اور اعمال صالحہ سے تنفرد پیدا ہوتا ہے تووفات کے بعد ایسے میت کے عذاب میں اضافہ کیا جائے گا۔دنیا میں ایسے علماء سوء کی آج کل بڑی تعداد ہے۔اللہ کی پناہ ایسی موت سے ۔
صالح لڑکا کی دعا سے مراد میت اپنے پیچھے نیک اولاد (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ ، نواسی وغیرہ) چھوڑے اور یہ میت کے لئے دعائے خیرکرےتو میت کو اس کا ثواب ملتا ہے ۔ جس طرح والدین کی تربیت یافتہ اولاد کے نیک اعمال کا فیض والدین کو پہنچتا ہے اسی طرح استاد /رہنما اپنی علمی رہنمائی کی وجہ سے رہنمائی پانے والوں کی نیکی سے اجر پاتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم رہے کہ اگر ہم نے اولاد کی تربیت نہیں کی جس کی وجہ سے وہ غلط راستے پر چل پڑا تو ہمیں اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس لئے ہم میں سے ہرمسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی میں یہ تینوں نیک کام کرکے جائے یا ان کاموں پر جس طرح کا ممکنہ تعاون کرسکتا ہےاس طرح کا تعاون کرکے جائے تاکہ ان کا اجر قبر میں بھی ملتا رہے اورایسا کوئی کام کرکے نہ مرے جس سے عذاب میں دوگنااضافہ ہوتا ہے بلکہ برے کاموں پر ذرہ برابر بھی تعاون نہ کرے ، اللہ تعالی نے ہمیں شر کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے کسی سے ایسی خطا سرزد ہوگئی جس کی بدولت قبر میں عذاب بڑھ سکتا ہے تو مرنے سے پہلے توبہ کرلے، کسی نے کمائی کے واسطے مزار بنالیا تھا اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا وہ اللہ سے توبہ کرے اور اس مزار کو ڈھادے تاکہ شرک وکفر کا دروازہ بند ہوجائے پھر کوئی وہاں غیراللہ سے فریاد نہ کرے، نہ کسی قبروں کو سجدہ کرے ۔کسی نے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی وہ اس سے رجوع کرلے ، کسی نے ناج گانے ، شراب وکباب اور فسق وفجور کے کاموں پربرے لوگوں کا تعاون کیا تھا وہ سچے دل سے توبہ کرلے اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
مضمون جاری ۔۔۔۔

 

Maqubool Ahmad
About the Author: Maqubool Ahmad Read More Articles by Maqubool Ahmad: 315 Articles with 312364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.