شمالی علاقہ جات کی سیر (حصہ چہارم) استور کی تاریخ ,قیام اور دیو سائی

دینا کا مصروف پن ,دنیا کے غم اپنی جگہ, لیکن اگر سال میں ایک بار اپنے پیارے ملک پاکستان کو عطا فرماۓ گۓ قدرتی مناظر نہیں دیکھے تو کچھ نہیں دیکھا....

دیوسائی کا اصل حسن چلم چیک پوسٹ سے شروع ہوتا ہے۔ہمارے پاس ٹی زیڈ گاڑی تھی جو اس سفر کے لیے بڑی آرام دہ گاڑی ہے ۔راستے کے تمام حسین مناظرکا خوب نظارہ کیا۔ کہیں پر سبز ڈھلوان تھے ، تو کہیں پر عورتیں گھاس کاٹ رہی تھی۔ لمبے بالوں والے یاک، گدھوں کے ریوڑ اور انسانوں کی ٹولیاں ان سبزگاہوں میں دلکش مناظر پیش کررہے تھے۔راستے میں مقامی لوگ گدھوں پر گھاس اور بکروال اُون لادتے ہوئے ہانک رہے تھے۔استور میں گدھے بھی پنجاب سے منگوائے جارہے ہیں۔ یہ پنجابی گدھے اپنی جسامت سے بڑی بوجھ اٹھائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔استور میں گدھوں کی جنس مخالف نہیں پائی جاتی یعنی گدھیاں نہیں ہوتی۔چلم سے شیوسر جھیل(دیوسائی جھیل) تک 18 کلومیٹر، کالا پانی تک28 کلومیٹر، بڑا پانی تک38 کلومیٹر، شتونگ تک 48 کلومیٹر، علی ملک تک58 کلومیٹر اور صدپارہ جھیل تک68 کلومیٹر کا راستہ ہے۔ان پانچ مقامات کے دائیں بائیں قدرت کا سب سے بڑا اونچائی پر پھیلا ہوا وسیع و عریض باغ موجود ہے۔دیوسائی نیشنل پارک کے کسی بھی حصے میں کیمپنگ کی جاسکتی ہے تاہم شیوسر جھیل، کالا پانی ، بڑا پانی وغیرہ میں مناسب ہے۔یہاں کھانے پینے کی اشیاء بھی ملتی ہیں اور ٹوائلٹ کی گنجائش بھی موجود ہے۔سیاحوں کی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی چوکس رہتے ہیں۔امریکہ کی نظریں دیوسائی پر لگی ہوئی ہیں۔ واحد مقصد یہ ہے کہ اس بلند و بالا سطح مرتفع سے پورے جنوبی ایشیا کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔دیوسائی اتنا وسیع ہے کہ یہاں درجنوں بڑے ائرپورٹ بنائے جاسکتے ہیں۔

دیوسائی نیشنل پارک دنیا کی بلندی پر واقع مشہور میدان ہے۔دیوسائی نیشنل پارک میں سال کے تقریباً 8ماہ ویرانی ہی ویرانی ہوتی ہے اور چار ماہ یعنی جون،جولائی اگست اور ستمبر میں بڑی ریل پیل ہوتی ہے۔ پوری دنیا کے سیاح کھنچ کر یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ان چار مہینوں میں دیوسائی کے ان سبزہ زاروں میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں، گائے، خوش گائے اور یاک چرتے ہیں۔ بکروال بڑی تعداد میں براستہ آزاد کشمیر، کیل ، منی مرگ اورقمری یہاں آجاتے ہیں۔ بکروال اپنی پوری فیملی کے ساتھ آتے ہیں۔ ایک بکروال کی پندرہ سو سے زیادہ مال مویشیاں ہوتی ہیں۔ محکمہ جنگلات فی بکری پر پچاس روپیہ ٹیکس بھی لگاتی ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی گجر بکروال آج کل استور کی جڑی بوٹیوں کو نکال کر فروخت کرتے ہیں۔ بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایجنٹ بکروالوں کے روپ میں آکر یہاں سےقیمتی جڑی بوٹیاں نکال لے جاتے ہیں۔ دیوسائی نیشنل پارک اور استور کے دیگر سبزہ زاروں میں تقریباً 150 سے زائد قیمتی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ مقامی لوگ صرف دس تک جڑی بوٹیوں استفادہ کرلیتے ہیں۔بکروال انتہائی توہم پرست لوگ ہیں۔ عجیب عجیب توہمات پالتے ہیں۔ان کے ہاں صفائی ستھرائی کا کوئی اہتمام نہیں۔

دیوسائی نیشنل پارک کے حسین وجمیل مناظر دیکھ کرخدا تعالیٰ کے جمال و جلال کا عقیدہ مزید پختہ ہوتا ہے۔دیوسائی جھیل سے پانچ کلومیٹر کی مسافت پر کالا پانی کی طرف سفرکرکے ہم گاڑی سے اترے اور دائیں بائیں نظریں گھمانا شروع کیا۔پوری دیوسائی کے کناروں میں بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے تھے اور ہوا میں ہلکی سی خنکی تھی۔ میرے بالکل سامنے انڈیا کے حدود کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔اورکالاپانی کا بہتا پانی , بڑا پانی کا پانی سیدھا جاکر انڈیا میں گرتا ہے۔

دیوسائی کو1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں ہر قسم کی شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ کا تحفظ کیا جا سکے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دیوسائی نیشنل پارک میں بیس سے تیس کے درمیاں بھورے ریچھ پائے جاتے ہیں۔سنا یہ ہے کہ یہ ریچھ دنیا کے دوسرے علاقوں میں نہیں پائے جاتے۔یہ ریچھ گوشت بھی کھاتے ہیں اور سبزی بھی۔ سال کے چھ ماہ سرمائی نیند(Venter Sleep )میں چلا جاتا ہےیعنی اپنی غار میں سویا رہتا ہے۔اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ،تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ ہجرتی پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔مرموٹ سب سے زیادہ ہیں۔ مرموٹ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ونٹر سلیپ میں چلا جاتا ہے۔ مرموٹ بڑی بڑی گزنیں اور بلیں بناتا ہے۔ ایک بل میں گھس کر دور کسی بل سے باہر نکل رہا ہوتا ہے۔ علاقائی لوگوں کا کہناہے کہ یہ گھاس اور پھولوں کا اسٹاک بھی کرتا ہے سردیوں میں خوراک کے لیے۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے دیوسائی میں درخت نہیں پائے جاتے تاہم بویانٹ نامی درخت چھوٹی جسامت کے ساتھ کافی مقدار میں ہے۔ یہاں پرندے زمین پر ہی گھونسلا بنالتے ہیں۔مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ دیوسائی میں ہزاروں قسم کے پھول پائے جاتے ہیں ۔ ہم نے خود ہرطرف سبزوں اور بہتے پانیوں میں ان پھولوں اور جڑی بوٹیوں کا مشاہدہ کیا۔

آپ جوں جوں دیوسائی نیشنل پارک کی اترائی و چڑھائی چھڑتے ہیں ، تو بہتے پانیوں، بچھے سبزوں اور اُگے پھولوں کے وسیع وعریض میادین نظرنواز ہوتے ہیں اور آپ خود کو دیوسائی میں فطرت کا مہمان محسوس کرتے ہیں۔شیوسر جھیل میں ایک چھوٹی سی کشتی کا ہونا ضروری ہے تاکہ سیاح لوگ اس کشتی کے ذریعے جھیل کا چکر بھی کاٹ سکیں۔دیوسائی نیشنل پارک اور شیوسر جھیل کے چاروں طرف سینکڑوں چوٹیاں ہیں۔ دیوسائی کی بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔دیوسائی کے درمیان کھڑے ہوکردور تک نظریں دوڑائیں جائیں توبہت ساری چوٹیاں چھوٹی چھوٹی چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں مگر انسان خود بہت انچائی پر ہوتا ہے اس لیے یہ چوٹیاں چھوٹی دکھتی ہیں۔

بہر صورت اونچائی پرپھیلے یہ حسین مناظر دل و دماغ پر روزانہ دستک دے رہے ہیں میرا اللہ جانتا ھے کہ میں ان مناظر کو بھولنا چاہتا ہوں لیکن یہ مناظر مجھے خواب میں بھی تنگ کرتے ہیں اور میں نیند میں بھی خود کو دیوسائی میں پاتا ہوں اور ہر محفل میں اس کا ذکر کرتا ھوں ۔

بےشک!یہ مالک کائنات کا شاہکار ھے
آ سمان سے متصل دیوسائی کے ان حسین مناظر اور فطرت کی تخلیقات میں’’ صاحبان عقل ‘‘ ’’صاحبان بصیرت ‘‘ اہل دانش ؤ حکمت کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔قدرت کا روئے سخن بھی ہمیشہ ’’اولوالالباب ‘‘ اور ’’اولوالابصار‘‘کی طرف رہا ہے۔

دریائے چلم میں نوجوان لڑکے مچھلیاں پکڑرہے تھےاور ہوٹلوں میں سستے داموں فروخت کررہے تھے۔ استور سے دیوسائی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔گدائی نسبتا ایک معروف اور بڑی آبادی والا گاوں ہے۔ یہاں انگریز کے دور کا تعمیر کیا ہوا ایک ریسٹ ہاوس بھی ہے۔ چلم چیک پوسٹ سے دوراستے نکلتے ہیں۔ ایک برزل ٹاپ کی طرف جبکہ دوسرا راستہ دیوسائی نیشنل پارک کی طرف۔ چلم چیک پوسٹ پر پاکستان آرمی متعین ہے۔آرمی کی بڑی چھاونی بھی ہے ۔اس روڈ پر بلکہ برزل ٹاپ تک آرمی کے بڑے بڑے ٹرک سامان سے لدے روڈ کنارے گزر رہے ہوتے ہیں۔ آرمی سیاحوں کو برزل ٹاپ کی طرف آسانی سے جانے نہیں دیتی۔ بارڈ ایریا ہے۔کارگل بارڈر بھی یہی قریب ہے انصار بھائی کی زبان سے بتائی گئ کارگل کہانی ابھی باقی ھے........ بس تھوڑا انتظار..... جاری ھے

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455300 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More