آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا

میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لندن سے ابو ظہبی ہوتے ہوئے کل رات لاہور ائر پورٹ پہنچے ، نیب آفیسرز نے جہاز سے انہیں بہت عزت و احترام کے ساتھ اتارا اور ایک چھوٹے طیارے میں اسلام آباد لے جایا گیا اور اسلام آباد کے نئے ائر پورٹ سے بذریعہ بلٹ پروف گاڑی اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ اس طرح پاکستان پر تین بار حکمرانی کرنے والے وزیر اعظم میاں محمدنواز شریف لندن سے آئے بھی جیل بھی پہنچ گئے لیکن فسانہ ابھی ختم نہیں ہوا میاں صاحب کافسانہ اب تو شروع ہوا ہے۔خوشی کی بات بھی اللہ کا شکر بھی کہ نہ تو میاں صاحب اور مریم نواز نے گرفتاری کے دوران مزاحمت کی ، اہل کاروں کے ساتھ جانے سے منع کیا اور نہ ہی متعلقہ اہل کاروں نے دونوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی گستاخی نہیں کی۔ ہوائی جہاز سے اڈیالہ جیل تک کا مرحلہ خیر و خوبی بغیر کسی بد مزگی کے طے پایا گیا۔میاں صاحب کی آمد سے قبل میں نے جو کالم لکھا اس میں شیر کی آمد کا ذکر تھا، یہ ایک شعر کا مصرعہ تھا جسے بعض ساتھیوں نے پسندنہیں کیا ، بعض کرم فرما جو از خود شاعر اور ادیب بھی ہیں رائے دی کہ اس میں کوئی ہرج نہیں ایسا کیا جاسکتا ہے۔ان محترم ادیبوں میں ملتان کے سرور صمدانی ، پرویز صمدانی اور دیگر شامل ہیں ۔ میں فیس بک پر سوال در سوال اور جوادب در جواب سے گریز ہی کرتا ہوں اور نہ ہی سوشل میڈیا پر چٹکلے لکھتا ہوں۔ مجھے اس پر اعتراض بھی نہیں ، ان چٹکلوں اور مختصر باتوں کو پڑھتا ہوں لطف بھی لیتا ہوں۔ بات آگے نہ بڑھے اس لیے میں نے اپنے کل کے عنوان میں تبدیلی کردی، اگر میرے کسی کرم فرما کو اچھا نہیں لگا تو کوئی بات نہیں ، دلائل کے بغیر بات کہی گئی تھے پھر بھی میں نے ان کی رائے کا احترام کیا ۔ میرے کل کے کالم سے دوسری بحث نواز شریف کی سزا پر قانونی بحث کا آغاز بھی ہوا، بعض محترم لکھاریوں خاص طور پر ڈاکٹر امیر محمد خان ، ڈاکٹر شکیل احمد صمدانی اور مبین خان صاحب نے اپنی اپنی رائے بہت ہی شائستگی، ادب و احترام سے دلائل سے گفتگو کی جس میں وزن بھی ہے،ا س طرح دلائل دینے والے کی علمیت و قابلیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج کے موضوع پر بات کرنے سے قبل عنوان کی وضاحت ضروری ہے، یہ ہندوستانی شاعر’ مدھوک‘ کا لکھا ہوا گانا ہے جو اس نے فلم ’نمستہ ‘ کے لیے لکھا ، موسیقی نوشاد نے کمپوز کی تھی۔ مجھے تو انڈین گانوں کے سننے کی حدتک ہی تھوڑی بہت دلچسپی ہے اس سے زیادہ نہیں۔ فخر پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ایک کالم اسی عنوان سے لکھا تھا جو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔یہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے تھا جب وہ کنیڈا سے پاکستان آئے اور پھر واپس چلے گئے تھے۔ گانے کی تفصیل بھی ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے کالم میں لکھی ہے۔ مکمل شعر کچھ اس طرح ہے ؂
آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا
میرے لیے تو موت کا اِک بہانہ ہوگیا

میاں نواز شریف کے لندن سے لاہور تک کے سفر کی داستان اور ان کا اڈیالہ جیل جانے تک کی لمحہ بہ لمحہ تفصیل تو سب نے دیکھی اس کی تفصیل لکھنا غیر ضروری ہے۔ میاں صاحب کا جیل جانا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی جیل گئے تھے، اس وقت بھی انہیں عدالت نے سزا دی تھی ، طیارہ سازش کیس میں انہیں عمرقیدہوئی تھی، میاں صاحب نے کتنے دن قید سزا کاٹی، آخر ڈکٹیٹر سے ڈیل کر کے 10سال کا معاہدہ کیااور سعودی عرب میں جائے پناہ حاصل کر لی تھی۔اس وقت انہوں نے نہ پارٹی کا خیال کیا ، نہ اپنے ساتھیوں کا اور نہ ہی اپنے ووٹرز کا ۔ اب بھی انہیں عدالت سے ہی سزا ہوئی ہے۔ دونوں مرتبہ جیل جانے میں بنیادی فرق ہے ،1999ء میں انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا تھا ، جیل میں اس مرتبہ بھی ڈالا گیا لیکن فرق یہ کہ اس بار انہوں نے اپنی مرضی سے جیل کا انتخاب کیا،وہ اپنی بیٹی کے ہمراہ لندن سے پاکستان تشریف لائے۔ گرفتاری دی اور جیل گئے۔ اگر وہ چاہتے تو اکیلے ہی پاکستان آجاتے ، مریم کو لندن میں ہی رہنے دیتے تاکہ وہاں رہتے ہوئے ایک تو اپنی ماں کا خیال کر لیتے دوسرے سیاست میں میاں صاحب اور پارٹی کے لیے طاقت ور آواز پاکستان پہنچاتی رہتی ، لیکن انہوں نے یہ بہتر جانا کہ دونوں ایک ساتھ جیل جائیں۔ اب ان کا نعرہ ’ووٹ کو عزت دو‘‘ ہے، سابقہ تاریخ اپنے آپ کو دھررہی ہے۔ اس لیے کہ اس کیفیت کو انہوں نے اپنے لیے از خود منتخب کیا ہے۔ سزا ہوتی نظر آرہی تھی، پھر بھی انہیں لندن جانے کی اجازت مل گئی ، وہ لندن چلے بھی گئے، لندن میں ان کی شریک حیات موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں وہ چاہتے تو لندن میں اپنا قیام طویل کر سکتے تھے ۔لیکن اس فیصلے سے انہیں سیاسی نقصان ہوجانا تھا، پارٹی سیاسی اعتبار سے پیچھے چلی جاتی، نون لیگ کا ورکر بد دل ہوجاتا، حوصلے پست ہوجاتے ، انتخابات میں خسارہ ہی خسارہ ہونا تھا۔ جب کہ جیل جانے والے فیصلے نے نواز شریف ، مریم نواز کو مشکل میں ضرو ر ڈال دیا لیکن اس فیصلے سے سیاسی فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ نون لیگ کے متوالوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، سیاست اور انتخابات میں نون لیگ کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔نون لیگ کا ورکر میدان نکل سکا ہے،البتہ نون کے لیڈر مشکل میں دکھائی دیے، اکثریت میں ائر پورٹ پہنچنے کی لگن اور جستجو کا فقدان دکھائی دیا، ورکر نے مار کھائی، وہ دیوانا وار باہر نکلا، نعرے لگائے لیکن لیڈروں میں سے چند ہی ائر پورٹ پر دکھائی دیے۔ کیا وجہ تھی ، کیا انہیں کسی قوت نے رک جانے کا کہا، ڈرتھا یا خوف، نہیں معلوم۔ نون لیگی ورکرز کی رہنمائی کرنے والے کوئی لیڈر گراؤنڈ پر دکھائی نہیں دیے۔

میاں صاحب جیل پہنچ گئے ، اب ووٹ کو عزت دو کی تحریک ان کی ٹیم نے چلانی ہے، میاں صاحب نے اب قانونی جنگ لڑنی ہے، ان پر بے شمار مقدمات ہیں،کچھ اور بھی قائم ہوجائیں گے۔ اگر اس مقدمے میں ان کی سزا کل عد م ہوبھی جاتی ہے یا ان کی اپیل پر ہائی کورٹ سزا کل عدم کردیتا ہے تو انہیں کم از کم انتخابات تک رہائی ملنا مشکل ہوگا۔ انتخابات کے نتائج فیصلہ کریں گے کہ میاں صاحب کا مستقبل کیا ہوتا ہے۔مجھے جو زمینی حقائق نظر آرہے ہیں ، مفکرین سیاست کا بھی کچھ اسی قسم کی سوچ ہے ،ممکن ہے غلط ہو ان میں اب نون لیگ انتخابی دوڑ میں اگلی صف میں نظر نہیں آرہی۔ انتخابی سرگرمیوں کی جو ہوا چل رہی ہے ، جو شواہد ،اقعات ، ماہرین و مفکرین ، تجزیہ نگار وں کا تجزیہ سامنے آرہا ہے اس سے لگتا ہے کہ انتخابی ریس میں کپتان نے زرداری اور نوازشریف کو کہنی مار کر پیچھے کردیا ہے۔ لیکن سیاست ایک ایسا انوکھا کھیل ہے کہ اس میں آخری لمحات تک کچھ بھی کسی طرح بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ لوگ دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مریم نواز کی مستقبل کی سیاست کیا ہوگی؟ انہیں 8سال کی سزا ہوئی، سیاست سے نہ اہل، اگر انتخابات کے بعد جو بھی قیادت سامنے آتی ہے اگر اس قیادت سے این آر او یا ڈیل ہو جاتی ہے اور مریم نواز کی سزا اور نہ اہلیت ختم ہوجاتی ہے تو اس صورت میں مسلم لیگ جو ابھی تک مسلم لیگ (نواز) یا نون لیگ کہلاتی ہے ممکن ہے کسی اور نام سے مسلم لیگ (م) یا مسلم لیگ(مریم) ہوجائے ۔ اس صورت میں اس پارٹی کی نکیل مریم نواز کے ہاتھ میں ہوگی۔انتخابات کے بعد شہباز شریف کا مستقبل اس جماعت میں اب مجھے وہ نظر نہیں آرہا جو شہباز شریف یا ان کے بیٹے حمزہ کو دکھائی دے رہا ہے۔ نواز شریف کی آمد اور نون لیگیوں کے ائر پورٹ پہنچنے کی خبر سے بہت سے خدشات جنم لے رہے تھے لیکن شکر ہے کہ بہت بڑا واقعہ بغیر کسی بہت بڑے حادثے کے گزر گیا لیکن حادثے شاید اب پاکستان کی قسمت میں لکھے ہیں پشاور کے مستونگ میں130 اور بنو5شہید ہوگئے، ہارون بلور کی شہادت اور ان کا سوئم تھا کہ یہ دو واقعات رونما ہوگئے ۔ اللہ پاکستان پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274328 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More