نمازی کہاں گئے؟

ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگرمجال اس نام کی ہم لوگ لاج رکھیں ماہ رمضان آتے ہیں مسلمان ایسے مسجدوں کی طرف آتے ہیں جیسے کوئی نیا نیا مسلمان ہواور نماز کی چاہت ہواور پہلے روزے سے لیکرپندرہ روزے تک تو مسجدیں کھچاکھچ بھری ہوتی ہیں اور انکی رونقیں دوگنا ہوجاتی ہیں اور کئی مسجدیں تواپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہیں مگرجیسے جیسے رمضان گزرتا ہے لوگ بھی مسجدوں سے باہرہوتے جاتے ہیں آخرکارعیدنماز پڑھی اور سمجھ لیا کہ ہمارے فرض ادا ہوگئے اور ہم روزے کے ساتھ نماز کوبھی بھولادیتے ہیں حالانکہ نماز علیحدہ فرض ہے اورعبادات میں سے سب سے پہلے نماز کا ہی پوچھا جائے گا ہم نماز کی پابندی اس وجہ سے نہیں کرتے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ دین اسلام ہمیں کتنی قربانیاں دے کرملا ہے ۔ہماری فیملی میں اگرکوئی مرجائے تو ہم کئی کئی دن بھوکے رہتے ہیں مگرجنہوں نے اس دین کی خاطرقربانیاں دیں انکی روحوں کوتسکین بخشنے کیلئے ہم نماز ہی نہیں پڑھتے ہیں دین اسلام پھیلنے سے پہلے لوگ چھپ چھپ کرنماز پڑھتے تھے جیسے کہ ایک ایک شاعرنے کیا خوب کہا ہے :
وہ سادہ مردمجاہدوہ مومن آزاد
خبرنہ تھی اسے کیا چیز ہے نمازغلام

اب کے مسلمانوں میں نماز ایسے ہے جیسے کوئی چیزہمیں وراثت میں ملی ہواور اس کی قدرنہیں ہوتی آج کل وہ لوگ تعداد میں بڑھ گئے ہیں جو صرف عیدین اور جمعہ کے روز ہی مسجدوں میں نظرآتے ہیں ورنہ تو وہ مسجدوں کے نام تک بھول جاتے ہیں ہمیں اﷲ تعالٰی کا شکراداکرنا چاہیے کہ ہمیں انسان بنایا اور مسلمان بنایا اور دن میں پانچ باراپنے گھربلاتا ہے کیونکہ نماز انسان اور اﷲ کے درمیان تعلق قائم کرتی ہے جس سے انسان اﷲ تعالٰی سے مددطلب کرتا ہے اسی وجہ سے نماز ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے (۱)کلمہ طیبہ(۲)زکوۃ دینا(۳)ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنا(۴)حج اداکرناپرسب سے اہم عبادات نماز ہی ہے آخرت کے روز سب سے پہلے نماز کے متعلق پوچھا جائے گا اسی لیے رمضان شریف ہو یا نہ ہو ہمیں پانچ وقت نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ بلوغت کے بعد واجب ہونے والی پہلی چیز نماز ہی ہے ۔اﷲ کے محبوب بندوں انبیاء کرام،صحابہ کرام،اولیا اﷲ ہیں اﷲ تعالیٰ نے انکواپنی بے پناہ رحمتوں سے نوازا بلکہ ان میں اپنے آپ ظاہرکیا اور انہیں مقام عبدیت سے نوازاکیونکہ یہ لوگ نماز خشوع خضوع کے ساتھ اداکرتے تھے اسی وجہ سے اﷲ کے محبوب ہوگئے اﷲ کے محبوب نبی کریم ﷺ نزول قرآن سے پہلے بھی غارحرامیں کئی کئی روز عبادت کیا کرتے تھے مگر نزول قرآن کے بعدآپ کو نماز کا حکم ہوا تو آپ نے کبھی نماز ترک نہیں کی اور نہ ہی آپ کی نماز کی کوئی حدتھی کیونکہ آپ نماز پڑھتے خشیت الٰہی میں اتنے چلے جاتے کہ آپ کادامن اشکوں سے بھرجاتااور اﷲ تعالیٰ کی لگن اتنی تھی کہ آپ نماز میں ہی اﷲ کے قریب سے قریب ترہوجاتے اسی وجہ سے ایسی مقبول نمازنہ کوئی پڑھ پایا ہے اور نہ ہی پڑھ پائے گا۔حضرت عبداﷲ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا سب سے اچھا عمل کون سا ہے توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’نماز کو اسکے وقت پر اداکرنا‘‘(بخاری ومسلم)ایک اور جگہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا نمازی جب تک اپنی نماز گاہ میں رہتا ہے فرشتے اس کیلئے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ حدث نہ کرے(یعنی جب تک اس کا وضو نہ ٹوٹے۔نماز کیلئے وضو بہت اہم ہے کیونکہ وضو نہ ہوگا تونماز نہیں ہوگی اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے وضو کیااور کامل وضو کیا اور مسجدکی طرف چلا اور لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی تو اﷲ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے(مسلم)نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا اگرکسی کے گھرکے باہر صاف پانی کی نہرہواور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتنہ نہائے تو کیا اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا تو صحابہ کرام نے کہا نہیں یارسول اﷲﷺ توآپ نے فرمایا کہ نماز بھی ایسے ہی ہے انسان کے گناہوں کو صاف کردیتی ہے۔

نماز ہی ایسی عبادت ہے جو ہرحال میں واجب الادا ہے چاہے وہ سفرہویاحضر،بیمارہویاتندرست،بارش ہویا سخت گرمی،امن ہویاخوف وہراس ماحول نماز فرض ہے البتہ حالات کے اعتبارسے اس کی رکعت میں تبدیلی ہے۔نماز ہی ہے جومسلمان اور کافرکے درمیان فرق ظاہرکرتی ہے روزمحشرنمازی کے چہرے پرنورہوگا(سورۃ البقرۃ۳۴)نمازقائم رکھوزکوۃاوررکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں انہیں نماز کی ترغیب دو جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انکومارواوربسترالگ کردو(ابوداؤد495) اسی حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگرہم اپنے بچوں کونماز کی عادت ڈالیں تو یہ بچپن کی عادت بڑے ہوکرعبادت بن جائے گی ۔آجکل یہ ٹرینڈ ہی بن چکا ہے کہ لوگ زرا سا مسجددور ہو تو گھرنماز پڑھ لیتے ہیں حالانکہ حدیث میں باجماعت نماز کو ستائیس درجے افضل کہاگیا ہے۔اﷲ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایاجوشخص اپنے گھرمیں وضوکرے اور مسجدمیں فرض نماز کیلئے روانہ ہو تو اس کا ایک قدم اسکا ایک گناہ مٹاتا ہے اور دوسراقدم ایک درجہ بلند کرتا ہے(مسلم)سیدناعبدﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ فرائض نماز بجالانارکوع سجدہ تلاوت خشوع قائم رکھنا نماز کو قائم رکھنا ہے ۔سیدناقتادہ فرماتے ہیں اوقات کا خیال رکھناوضوع اچھی طرح کرنا ،رکوع سجدہ کرنا تلاوت اچھی طرح کرناالتحیات اوردورود پڑھنا اقامت صلوۃ ہے۔ نماز کو قائم رکھنے سے مراد ہے اس میں مداوت مقررہ اوقات میں پابندی کے ساتھ اس کے ارکان پورے پورے اداکرنا اوراسے فرائض سنن مستحیات کی حفاظت کرے کسی میں خلل نہ آنے دے عقدات ومکروہات سے اسکوبچائے اور اسکے حقوق اچھی طرح اداکرے نماز کے دوحقوق ہیں ایک وہ جن کا ذکراوپر آچکایعنی ظاہری اورباطنی حقوق وہ جو دل ودماغ میں صرف اﷲ کا ڈرہواور اسی کی خوشنودی ہواور اسی کی بارگاہ میں محویت پا کے عرض ونیاز کرنا۔ہرانسان جانتا ہے کہ نماز برے کاموں اور بے حیائی سے روکتی ہے مگرتب جب سنت نبوی ﷺ کے مطابق پڑھی جائے اوراس کی صحت وقبولیت کیلئے ضروری ہے ۔صرف نماز پڑھنا کافی نہیں ہوتا اس کی شرائط نماز کا اعتبار بھی ضروری ہے یعنی اس کیلئے پہلی چیز اخلاص پھرطہارت قلب،وقت کی پابندی،نماز کے فرائض(قراء ت ،رکوع،قومہ،سجدہ وغیرہ )میں اعتدال واطمینان ہوتب جا کے قرآن کے اس حوالے کا ہماری زندگی پراثرہوں گی کہہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔

سنت ونوافل کے فوائد:روزمحشرجب اﷲ تعالیٰ نماز کے بارے میں پوچھیں گے تو جب فرض نماز کم پڑے گی تو اﷲ تعالٰی فرمائیں گے اے فرشتو دیکھو میرے بندے کے پاس نوافل نماز ہے اگرہے توانہیں بھی فرض میں ڈال کر پوراکرلو(ابوداؤد،ترمذی،نسائی) حضرت عمرفاروق جب خلیفہ ہوئے تو اپنا پہلا خط گورنروں کے نا لکھا’’بلاشبہ تمہارے کاموں میں اہم کام نماز ہے جس نے نماز کی پابندی کی اس نے اپنے دین کو بچا لیا جس نے نماز کو ضائع کیا اس نے اپنے دیگرکاموں کو بھی ضائع کیا ‘‘۔حضرت عوفؓ فرماتے ہیں ایک رات میں آپ ﷺ کے ساتھ تھا آپ نے نماز پڑھنا شروع کی اور سورۃ البقرۃ کی تلاوت شروع کردی اور جہاں رحمت کا ذکرآتا آپ ٹھہرجاتے اور اور رب تعالٰی سے دعا کرتے رہتے اسے بعد آپ نے رکوع کیا اور اتنی ہی دیر رکوع کیا جتنی دیرقیام کیا پھر کھڑے ہوئے اور اتنی ہی دیرکھڑے رہے جتنی دیر رکوع کیا پھر سجدہ کیا تو وہ بھی اتنی دیرجتنی دیرقومہ کیا یعنی آپ نے بہت آرام دہ اور ٹھہرٹھہرکرنماز ادا کی۔آج کے ہمارے معاشرے میں اگرکوئی لگاتار ایک ہفتہ نماز پڑھ لے اور داڑھی بڑھا لے تو لوگ اسے حاجی صاحب مولوی صاحب کہنے لگتے ہیں جس کیوجہ سے کچھ لوگ تکبر میں آجاتے ہیں اور تکبرتو اﷲ تعالیٰ کو ناپسند ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں میں جلد اپنی عزت گنوابیٹھتا ہے مگر جو ان باتوں پر توجہ نہیں دیتا اﷲ پاک انہیں مزیدعزت سے نوازتا ہے کیونکہ عزت وذلت اﷲ پاک کی طرف سے ملتی ہے اسی وجہ سے ہمیں لوگوں اور دنیا کو بھول کراپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے میں آخر میں ان مولویوں سے بھی التماس کرنا چاہتا ہوں جو نوجوان لڑکوں کو کہتے ہیں کہ ہاف بازو شرٹ نہ پہن کے آؤ یہاں تک کہ کئی کئی بار کہہ کے انکی عزت کو مجروح کیا جاتا ہے اسلام کی رُو سے انکو سمجھائیں کہ اسلام میں مردکے سترکا ڈھانپنا ضروری ہے جس سے نماز ہوجاتی ہے باقی جو مکروہات ہیں ان سے بھی آگاہ کریں نہ کہہ انکو اسلام اور نماز کو سخت کرکے ظاہرکریں کہ وہ ڈرکے ہی مسجدیں چھوڑ جائیں جس کی وجہ سے مسجدیں ویران ہورہی ہیں نماز صرف ماہ رمضان نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی فرض ہے ہمیں اﷲ اور اسکے حضور روز محشرحاضرہونا اور اپنے نبیﷺ کاامتی ہونا ہے تو ہمیں نماز کی پابندی کرنی ہوگی ہمارے محلے کے مولویوں اور ہمارے والدین کو یہ کردار اداکرنا ہوگا کہ وہ اپنی تنخواہ پرنظررکھنے کے بجائے نوجوانوں کو نماز کی ترغیب دلائیں تاکہ ہمارے مستقبل سنورسکیں ۔

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 8 Articles with 10698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.