مظفر گڑھ کے سیاسی دنگل پر نظر

تقریباً سن دوہزار کے بعد اب ووٹرز کو اپنے ووٹ کی قدرکا پتہ چلا ہے مگرآج بھی کافی لوگ ووٹ نہیں دیتے یا گودالیگ کودیتے ہیں مطلب یہ کہ جس امیدوارکے ساتھ ان کے آباؤاجداد کھڑے تھے ان کا ہی ساتھ دیتے ہیں کیونکہ یہی لوگ ان کو تھانے کچہری یا کسی بھی مسئلے میں معاونت کرتے ہیں مگرووٹ کو عزت دو کے نعرے کا کریڈٹ ان لوگوں کو جاتاہے جنہوں نے اپنے ووٹ کی طاقت سے دکھایا کہ ایک ووٹ بھی کامیابی و ناکامی میں اہم کرداراداکرتا ہے الیکشن جیسے جیسے قریب آرہے ہیں سیاستدانوں کی سانسیں بھی پھول رہی ہیں کیونکہ جوبھی امیدوار آتا ہے اسے تسلی دے کے واپسی کا رستہ دکھاتے ہیں سوائے چندبرادریوں کے الیکشن کے اتارچڑھاؤ کی بات کی جائے تو ضلع مظفرگڑھ کہاں پیچھے رہنے والا ہے ضلع مظفرگڑھ کے این اے 183میں 16لوگوں کے کاغذات جمع ہیں جس میں 11امیدوار آزاد لڑرہے ہیں اور پی ٹی آئی،ن،پی پی پی،لبیک،ایم ایم اے،جس میں پی ٹی آئی کے امیدوارملک رفیق کھرکی جیت کے زیادہ چانس ہیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح لٹیروں کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑے ہیں تو ملک کے ساتھ ساتھ مظفرگڑھ میں بھی پی ٹی آئی ہی چھا گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ این اے 184میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا کوئی بھی امیدوارنہیں کھڑاہوکیونکہ ان کو پتا ہے کہ مسلم لیگ ن سرائیکی صوبہ کی مخالفت کرتی ہے اور پی پی پی ہمیشہ منافقت سے کام لیا حالانکہ ملتان میں الیکشن کمپین میں جلسے کی شروعات سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری آصف خان نے لاکھوں روپے خرچ کیے تاکہ جلسہ کامیاب ہو اور زرداری اور بلاول سرائیکی صوبہ کیلئے حامی بھریں یادرہے اس جلسہ میں فلیکس،اشہتار،اخباری پبلیسٹی کے علاوہ بلاول اور زرداری کواجرک پہنانے تک کا خرچ آصف خان نے کیا تھا اس جلسہ میں انہوں نے سرائیکی صوبہ کا نعرہ لگایا مگر جب پنجاب سے سندھ گئے تو اپنے رنگ دکھانے شروع کیے اور سینٹ میں سرائیکی صوبہ تو کیا سرائیکی زبان کو تسلیم کرنا بھی گورا نہ کیا جس وجہ سے آصف خان اور دیگرسرائیکی رہنما پی پی پی کوچھوڑرہے ہیں مظفرگڑھ میں مسلم لیگ ن کے دواور پی پی کے بھی دو امیدوار نیشنل اسمبلی پر الیکشن لڑرہے ہیں مگرپی ٹی آئی نے ہرجگہ میدان مارا ہوا این اے 185سے پہلے میں این اے 186کا ذکرکروں گاکیونکہ مظفرگڑھ کے دوحلقوں میں صرف پی پی پی او رن لیگ کے امیدوار ہیں ورنہ ضلع مظفرگڑھ سے ن لیگ اور پی پی پی کا صفایا ہی ہوگیا ہے اس کے باوجود علی پور حلقہ میں پی پی پی کی ٹکٹ پر عبدالقیوم جتوئی نے اپنے بیٹے کو لڑوا کر خود پی پی پی سے علیحدگی ظاہر کی ہے سننے میں آیا ہے کہ جو جاگیردار وڈیرے پی پی پی کو نہیں چھوڑرہے ان کو زرداری نے جو اربوں کھربوں لوٹے ہیں ان میں سے کچھ دیا ہے جس وجہ سے یہ لوگ پی پی پی کو مرتے دم تک نہ چھوڑنے کی قسمیں کھاتے ہیں ان کے اندرصاف نہیں ہیں نہ ہی یہ لوگوں سے مخلص ہیں بلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے ’’اندرجے کرصاف نہ ہووے ، حج وی سیرسپاٹا ھُو‘‘ اسی حلقہ میں سردار رسول بخش جتوئی اور قائم علی شمسی نے عوامی ردعمل کو سمجھتے ہوئے نہ لیا اور اس حلقہ میں مقابلہ صرف عامرطلال یعنی عاشق گوپانگ گروپ اور خضرحیات گوپانگ کے مقابلہ ہے جس میں عاشق گوپانگ گروپ کو ہرانے کیلئے جتوئی گروپ اور بخاری گروپ اہم کردار اداکرسکتے ہیں مگرعامرطلال کا ہارنا مشکل ہے کیونکہ ایک تو عاشق گوپانگ کا رویہ نرم اور محبت بھراہے جس وجہ سے وہ جیت جاتے ہیں اس سے بڑھ کرعامرطلال پی ٹی آئی کا امیدوارہے اور پی ٹی آئی کو ضلع مظفرگڑھ میں ہرانا شاید مشکل ہوکیونکہ ساراسرائیکی وسیب اب ن اور پی پی پی کا بائیکاٹ کررہا ہے کیونکہ پی پی پی نے ہمیشہ منافقت تو کی اسکے ساتھ انکے کرپٹ لیڈر آصف علی زرداری ایک ظالم جابر اور ملک کو کھوکھلا کرنے والا حکمران ثابت ہوا ۔این اے 185میں سردار معظم علی جتوئی جسے اگر پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملتا تو یقیناًاس نے ہار جانا تھا کیونکہ پچھلی مرتبہ کی ہارکے بعدانہوں نے لوگوں سے تعلق نہ ہونے کے برابررکھا اورالگ صوبہ کے حق میں ہیں مگرسرائیکی وسیب میں پیداہورکربھی سرائیکی صوبہ کے خلاف ہیں مگرقسمت نے ساتھ دیا اور انکو پی ٹی آئی کا ٹکٹ مل گیا اورایم پی اے کا ٹکٹ اپنے بھائی ضیاء اللہ خان کودلوایا اور جتوئی گروپ کے چیف عبدالقیوم خان نے پی پی پی چھوڑنے کا شوشہ ڈالا اورآزاد الیکشن لڑرہا ہے صرف پی ٹی آئی ووٹ حاصل کرنے کیلئے کیونکہ انکی ہمدردی اب بھی پی پی پی کے ساتھ ہے کیونکہ انہوں نے این اے 186میں اپنے بیٹے کو پی پی پی کی ٹکٹ پرالیکشن لڑواکرخود کو غلط ثابت کردیا کیونکہ سب جانتے ہیں عبدالقیوم خان نے جیتنے کے بعد اسمبلی میں ووٹ زرداری کی جھولی میں ڈال دینا ہے اس طرح کی کھچڑی کیا کامیاب ہوسکے گی ؟سردارمعظم خان جتوئی اپنے چیف کو راضی نہ کرسکا کہ ہو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں جبکہ عبدالقیوم جتوئی کے فلیکس پی ٹی آئی کے جھنڈے اور عمران خان کی تصویرسے بنائے گئے ہیں جو سراسرلوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے کیا گیا ہے اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے ووٹ 15000سے زائد ہیں جنہیں معظم جتوئی نے ٹکٹ لے کرکیش کروانے کی ٹھان لی ہے ۔جیسا کہ اب بخاری گروپ دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ہے دونوں بھائی ہارون وباسط میدان میں مدمقابل آگئے ہیں باسط بخاری جو کہ سیاست میں اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اسی وجہ سے لوگ انہیں عبداللہ شاہ کی جگہ مانتے ہیں مگرشاید یہ بات ہارون سے برداشت نہیں ہوسکی اسی وجہ سے اس نے نہ صرف اپنے بھائی کے مخالفت کی بلکہ سرائیکی وسیب پارٹی ن لیگ کی ٹکٹ پربھی الیکشن لڑنے کا فیصلہ بھی کرلیا جوکہ 186پرن لیگ کے امیدوار ہیں اور این اے 185میں راؤ عاطف کو جتوئی گروپ کی سپورٹ حاصل ہوگئی ہے جس وجہ سے راؤعاطف کافی ووٹ لیں گے شاید جیت بھی جائیں کیونکہ جتوئی کے مضافات میں جتوئی گروپ کے زیادہ ووٹرز ہیں مگرجتوئی گروپ بھی اپنے گھرکے مسئلے نہیں سلجھاسکا عبدالقیوم جتوئی کے کزن خان محمدجتوئی سابق ایم پی اے ہیں جولوگوں کے دلوں میں جگہ بناچکے ہیں اپنے ریکارڈ ترقیاتی کام کرواکے اور ان کا اب عوامی راج پارٹی سے اتحاد ہونا ضرور بخاری لغاری اور جتوئی گروپ کیلئے پریشانی کا سبب بنا ہوگا۔ہمارے سروے کے مطابق 80فیصدپولنگ سٹیشن جتوئی گروپ کی فیورمیں آئے اور 20فیصدپولنگ بخاری گروپ کی فیور میں اس الیکشن میں سردارچنوں خان نے اپنے فرزند کو الیکشن میں کھڑاکرکے بخاری گروپ سے اتحاد بنایا ہے جس کا فائدہ ہوسکتا ہے پر زیادہ نقصان کے بادل منڈرارہے ہیں کیونکہ پچھلے دس سال میں بخاری گروپ نے کوئی خاصے ترقیاتی کام نہیں کروائے پر چنوں لغاری جو کے سیاست سے ہٹ کربھی لوگوں کے دلوں پر راج کرنا جانتے ہیں شاید وہ اسی خوش اخلاقی کی وجہ سے سیٹ نکلوا لیں اس سے بڑھ کران کو لغاری خاندان کی پوری سپورٹ حاصل ہے جن کے 5000سے 7000ووٹ ہیں اور اصغرخان لغاری اوراجمل خان لغاری جیسے نڈرلوگ ساتھ کھڑے ہیں لیکن عبدالقیوم جتوئی سے جیتنا اتنا آسان نہ ہوگا جتنا سوچنے میں نظرآتا ہے لیکن عبدالقیوم جتوئی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ جتوئی گروپ کے چیف ہیں اور ووٹ ان کی جیب میں پڑے ہیں تو غلط نہ ہو گا لیکن چیز پڑی رہی گل سڑ جاتی ہے یہ بھی سچ ہے اس لیے عبدالقیوم جتوئی نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر خود کے پاؤ پر کلہاڑی مارلی اور موضع ویداد کی ایک بستی آرائیں والا میں ایک نوجوان کے سوال کہ ہم مس کال کریں تو آپ فون کریں گے تو آپکوووٹ دیں گے ورنہ نہیں توعبدالقیوم جتوئی نے کہہ دیا ہمیں آپ لوگوں کی ضرورت نہیں اور اٹھ کرچلے گئے اور یہ مسئلہ ضیاء اللہ جتوئی نے حل کروایا اور داڑھی رکھ کے خود کو مفتی سمجھنے والے ہارون بخاری نے فتویٰ جاری کردیا کہہ’’عورت کا ووٹ ڈالنا حرام ہے‘‘ان کے اس بیان پر الیکشن کمیشن کوئی بھی کاروائی کرسکتی ہے جس وجہ سے ان کی مقبولیت میں کافی کمی آئی اور ان کی ہار سامنے دکھائی دے رہی ہے لیکن الیکشن میں کچھ وقت توپڑا ہے جس میں ضرور کچھ تبدیلی آئے گی۔سرائیکی شاعر نے کمال لکھا ہے: اج ہتھ بدھ بدھ ودامنگداہے پہچان کرواے چورہیوے
ایں سترسال نی کجھ کیتا ونج بیٹھا تخت لہورہیوے
اے خودوسیب دا قاتل ہے بلوچ نی لغور ہیوے
ہن حق کوں ووٹ ڈیوونی تاں گوداآدم خورہیوے
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 8 Articles with 10670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.