پل

بزرگ کہا کرتے تھے ، بیٹا انسان کی زندگی میں جو دن طلوع ہوا ہے اس نے غروب ہو ہی جانا ہے ۔ چاہے اسے نفرت، حسد ، دل میں لامتناہی خواہشیں اور ناشکری کرتے گزار دو یا جو اس پل تمہارے پاس موجود ہے اس پر شکر کے گزار دو۔ دن نے تو آخر گزر ہی جانا ہے لیکن ایک دن کے اختتام پر تمہاری زندگی کا ایک دن کم ہو جانا ہے یہی نہیں بلکہ تمہارے اعمال نامے کے ایک صفحے کا مزید اضافہ ہو جا نا ہے ۔

ہر اندھیر ی رات کے بعد صبح اپنے بھر پور اجالوں کے ساتھ رونما ہوتی ہے۔ سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوتا ہے ۔ ساتھ ہی انسانی زندگی میں ایک نئے دن کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ ماضی کے دن کی گزرے کچھ خوشی کے لمحات اور کچھ تلخ یادوں کو ساتھ لیے انسان اپنی زندگی کی نئی صبح کا آغاز کرتا ہے ۔ کچھ لوگ اپنی صبح کا آغاز اپنے پرور دگار کے حضور اپنے سر بسجود کرکے کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ کی آنکھ ہی اس وقت کھلتی ہے جب ان کے ڈیوٹی شروع ہونے میں آدھا گھنٹا باقی ہوں ۔ ہر نئی صبح بہت سے لوگوں کے لیے نئی امید لے کر آتی ہے اور کچھ کے لیے بس ایک روٹین کی صبح ہوتی ہے ۔جو بس انہوں نے جیسے تیسے گزارنی ہوتی ہے ۔ کچھ لوگوں کی صبح کا آغاز بہت مایوس کن بھی ہوتا ہے ۔

ابے اٹھو! یہ تمہارا باپ کا گھر نہیں ہے جو بارہ بجے تک خراٹے لیتے رہوں گے۔ ناشتہ کرو اور جلدی سے باقی لوگوں کے ساتھ میدان میں پہنچوں۔ بیرک کے باہر کھڑے سپاہی نے قیدی کوبڑی حقارت سے ایک نئی صبح طلوع ہونے کا بتایا تھا۔ کاش مجھے اِس دن کا سورج نہ دیکھنا پڑتا ۔ قیدی نے بڑے مایوس انداز میں دل ہی دل میں سوچا۔ اس نے اپنے بیتے پل کے بارے میں سوچا ۔ زندگی تو وہ ہوا کرتی تھی۔

اٹھ جاؤ نا بیٹا !کیا ٹائم ہو گیا ہے ۔ جلدی سے ناشتہ کر لو ،ابھی تم نے آفس میں بھی جانا ہے ۔والدہ نے اس کو آواز دی تھی ۔ اچھا امی جان ! کیا ہو گیا ہے اتنا اچھا خواب چل رہا تھا !اٹھ گیا ہوں میں ۔ اُس نے بستر اٹھا کر پھینکا اور منہ ہی منہ میں بڑبڑا تا واش روم میں گھس گیا ۔ فریش ہوا اور بے دلی سے اس نے ناشتہ کیا اور اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہو گیا ۔ راستے میں اس نے دیکھا کہ کئی لوگ اپنی لگزری گاڑیوں میں آفس جا رہے ہیں ۔ اس کے ذہن میں بہت سی باتیں گھوم رہی تھیں ۔

صبح اٹھتے کے بعد اس کے ذہن میں ڈیوٹی پر جانے کے خیال سے بہت کوفت ہوتی تھی۔ یہ میری ڈیوٹی بھی عذاب ہے ۔ صبح سویرے اٹھ کر دفتر جاؤ، سارا دن کام کرو ، باس کی جھڑکیں سنو اور شام کو منہ اٹھا کر گھر واپس چلے آؤ۔ مہینے بعد پے منٹ کے نام 8ہزار روپے منہ پر مار دیا جاتا ہے ۔ کیا یہ بھی کوئی زندگی ہے ۔ زندگی تو ان کی ہے ، وہ جو وی ۔آئی۔ پی ۔گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنے آفس جا رہے ہیں ۔اپنے مہنگے اور قیمتی موبائلز سے بزنس میٹنگز کر رہے ہیں ۔ ان کے چہرے پر کوئی فکر نہیں ہے ۔ یہ لوگ تو بڑے آرام و سکون سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ کاش میری زندگی بھی ان کی طرح ہوتی ۔ اُس نے اپنی قسمت پر افسوس اور رئیسوں کی زندگی پر رشک کیا۔

وقت گزرتا گیا ۔ وقت کے ساتھ اُس نے بھی کچھ سمجھوتہ کیا ۔ وہ ایک عہدے تک پہنچ گیا تھا ۔ اب اس کی تنخواہ معقول تھی۔ مگر وقت کی رفتار کے آگے خواہشوں کی رفتار کہیں زیادہ تھی۔ اب وہ سوچا کرتا تھا ۔ کیا یار صبح صبح کن لوگوں کے منہ لگنا پڑتا ہے ۔ ناجانے کون سے مسائل لے کر یہ کمبخت لوگ میرے آفس آجاتے ہیں ۔ شائد یہ دنیا چاہتی نہیں ہے کہ میں کچھ آرام و سکون سے رہ سکوں ۔ کیا یہ ذمہ داریاں ہیں ؟ کیا ساری دنیا کی اصلاح کا میں نے ٹھیکا لے رکھا ہے ؟ وہ لوگ بھی تو ہیں جو صبح دس بجے اپنی لال بتی والی سرکاری گاڑی میں دفتر میں آتے ہیں ۔ ایک آدھ گھنٹہ بڑے لوگوں کے ساتھ میٹنگز کرتے ہیں ۔ پھر ہوٹر بجاتی گاڑی ان کی واپسی کا اعلان کرتی ہے ۔ نجانے کب میری زندگی میں سکون آئے گا؟

اب وہ لوگوں کی عجیب نظروں سے دیکھتا تھا۔ اس کی اس عجیب نظر میں بھی منافقت تھی۔ وہ رئیسوں کو تو بڑے رشک سے دیکھا کرتا تھا اور عام لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اس کا معمول بن گیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ بہت زیادہ دولت اور رتبہ حاصل کر لے تو اس کی زندگی میں سکون ہی سکون ہو جائے گا ۔ اس نے دولت ، رتبے اور سکون کے شارٹ کٹ راستے ڈھونڈنا شروع کر دیے ۔

وہ کام اس کے لیے بہت آسان تھا ۔ اس نے لمحہ بھر کے لیے سوچا ۔ اس کے ضمیرکو یہ دلاسے دلا کر سلا دیا کہ یہ جو آج تگڑی پوسٹ پر بیٹھے راج کر رہے ہیں ، یہ کون سا ایمانداری کے جھنڈے گاڑ کر آئیں ہیں ۔ اگر یہ سب کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کر سکتا ۔ بس اس نے کاغذات پر اپنے دستخط دیے ۔ اپنا لفافہ وصول کیا ۔ کچھ دیر بعد وہ ایک پراپرٹی آفس میں بیٹھا ایک خوبصورت بلڈنگ خرید چکا تھا ۔ اس نے کاغذات پر دستخط کیے اور گھر کی چابی لی ۔ آج وہ خوش تھا۔ آج اس نے زندگی کی سب سے بڑی خواہش کو پورا کیا تھا ۔ لیکن وہ زندگی ہی کیا جس میں خواہشات ختم ہو جائیں ۔ ابھی اس نے اپنے نئے گھر کا دروازہ کھولا ۔اس نے اندر داخل ہونے کے لیے اپنا قدم اندر رکھا ۔ دوسرا قدم اٹھایا ہی تھا کہ سامنے والی بلڈنگ کے سامنے ایک لینڈ کروزر رکی ۔ اس کے پاؤں جہاں تھا وہی رہ گیا ۔

اس نے اپنی گاڑی پر نظر ڈالی ۔ اسے اپنے گاڑی لینڈ کروزر کے آگے بڑی حقیر نظر آئی۔

کل کی اخبار کی سرخی پر جس پر لکھا تھا کہ ’’غریبوں کی بستی پر غیر قانونی قبضہ ،بستی خریدنے والے مالکا ن کا کہنا ہے انہوں نے اس زمین کو اپنی فیکٹری بنانے کے لیے خریدا ہے اور یہ بستی والوں کی رضا مندی سے ہوا ہے اور وہ لوگ بستی کے مکین لوگوں کو رہنے کے لیے متبادل گھر اور روزگار مہیا کریں گے‘‘ اس نے طائرانہ نظر دوڑائی ۔ یہ لوگ اسی قابل ہوتے ہیں کہہ کر ضمیر کو دلاسا دیا اور لینڈ کروزرکیسے خریدنی ہے ، اسی سو چ میں گم ہو گیا ۔

میڈیا نے اس غیر قانونی قبضہ پر طوفان کھڑا کر دیا تھا ۔ میڈیا کی آواز ایوانوں تک پہنچ گئی تھی ۔ جب ایوان کے در و دیوار میں دراڑیں آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اس غیر قانونی قبضے کے خلاف ایکشن لے لیا ۔ ایکشن سب سے نچلی سطح سے شروع کیا گیا۔ لینڈ کروزر خریدنے کے خواب دیکھنے والے کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی جب اس کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے ۔ اس چیخنے چلانے کا موقع بھی نہ دیا گیا ۔ عدالت نے چار دن میں اس کے خلاف فیصلہ کر دیا ۔ اسے دس سال قید بامشقت ہو گئی ۔اسے بدنام زمانہ جیل میں بھیج دیا گیا ۔

جیل میں ایک رات گزارنے کے بعد اُسے احساس ہوا کہ یہاں کی ایک رات اس کی آٹھ ہزار کی نوکری سے بھی بدتر تھی ۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ کتنا نا شکرا تھا ۔ جب وہ آٹھ ہزار کی نوکری کرتا تھا ، تب بہت سارے لوگ تھے جو آدھا دن دھوپ میں جل کر اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ انہیں کوئی ایک دن کی نوکری کے لیے لے جائے۔جیل میں ملنے کھانا دیکھ کر اسے پتا چلا کہ اس سے تو وہ کھانا اچھا تھا جو اس گھر پر ملتا تھا اور وہ اسے براسا منہ لے کر دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ بھی کوئی کھانا ہے ۔ اگر کوئی روٹی غلطی سے جل جاتی تو وہ اسے کھانے سے انکاری ہو جاتا تھا ۔ جیل میں وہ پوری جلی ہوئی روٹی بھی سکون سے کھا جاتا تھا ۔ آفس میں اگر اسے خود اٹھ کر پانی پینا پڑتا تو اسے بڑی حقارت ہوتی تھی۔ اب اسے وہ پانی بھی قسمت سے نصیب ہوتا تھا۔ اسے کسی بزرگ کی کہیں بات اب یاد آتی تھی۔ بزرگ کہا کرتے تھے ، بیٹا انسان کی زندگی میں جو دن طلوع ہوا ہے اس نے غروب ہو ہی جانا ہے ۔ چاہے اسے نفرت، حسد ، دل میں لامتناہی خواہشیں اور ناشکری کرتے گزار دو یا جو اس پل تمہارے پاس موجود ہے اس پر شکر کے گزار دو۔ دن نے تو آخر گزر ہی جانا ہے لیکن ایک دن کے اختتام پر تمہاری زندگی کا ایک دن کم ہو جانا ہے یہی نہیں بلکہ تمہارے اعمال نامے کے ایک صفحے کا مزید اضافہ ہو جا نا ہے ۔اعمال نامے کے صفحے میں تم کس طرح اضافہ کرتے ہوں وہ تمہاری سوچ پر ہے ۔بزرگ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ہمیشہ اپنے سے نیچے لوگوں کو دیکھا کرو ۔ تب وہ کہتا تھا کہ بابا ان لوگوں کو دیکھ میں بھی ان کی طرح نیچا ہو جاؤ۔ بزرگ کہتے تھے کہ نہیں پتر تم نیچے نہیں ہو گے ۔ تمہاری زندگی میں سکون آ جائے گا۔

دس سال اس نے جہاں سے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا ، وہی پر کھڑا تھا۔ جو کچھ اس نے حاصل کیا تھا وہ سب کھو چکا تھا ۔ اُسے سب کچھ کھونے کا افسوس بہت تھا۔ مگر اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا۔دس سال جیل میں گزرا ایک ایک پل اسے یاد تھا۔ اس کی زندگی کے یہ سب سے برے دن تھے ۔وہ پچھتانا چاہتا تھا مگر ایک جذبہ اسے ایسا نہیں کرنے دے رہا تھا ۔ اسے بزرگ کی باتیں اب اچھی طرح یاد تھیں ۔ وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ ابھی تک اس سے زندگی کی بیش قیمت نعمت چھینی نہیں گئی ۔ ابھی اس کے ہاتھ پاؤں کام سلامت تھے ۔ وہ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ دن تو ان کے بھی گزر رہے ہیں جو زندہ تو ہیں مگر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ ان کے ہاتھ پاؤں ان کا ساتھ نہیں دے رہے ۔ ان کے پاس دولت تو ہے مگر ان کے کسی کام کی نہیں ہے ۔ وہ اب کفرانِ نعمت نہیں کر رہا تھا بلکہ خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ خدا نے اسے جینے کا دوسرا موقع دیا ہے ۔ شائد یہ اس کی زندگی کے بہترین پل تھے جو وہ خدا کا شکر ادا کرنے میں گزار رہا تھا۔

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 37638 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More