جنہیں گر کر اٹھنا آتا ہو!

گزشتہ ہفتے میں نے تین دن مظفرآباد میں گزارے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں ہوئیں مگر سب سے دلچسپ ملاقات ایک پندرہ سالہ طالب علم ارسلان میر سے ہوئی جسکی مینٹل ایج اسکی اصل عمر سے کہیں زیادہ ہے ۔ اسکی پر اثر گفتگو نے مجھے اس حد تک منہمک کیاکہ وہ بولتا گیا اور میں خاموشی سے سنتا گیا۔ ارسلان میر لبریشن لیگ کے رہنماء عبدالطیف میر ایڈوکیٹ کے فرزند ہیں۔ یہ کشمیری میر نہیں جو بٹ قبیلے کی ایک شاخ ہے بلکہ مظفرآباد کے یہ میر سولہن راجپوت قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ محکمہ مال کے ریکارڈ میں ابھی تک انہیں سولہن راجپوت ہی لکھا جاتا ہے جبکہ میر انکا ٹائٹل ہے جو انہیں افغان دور میں میر پیارا خان کی قیادت میں سہولن قبیلے کی اعلٰی سیاسی صلاحیتوں کی وجہ سے ملا۔ جموں کشمیر کی جبری تقسیم نے ان صلاحیتوں پر وقتی طور پر منفی اثرات مرتب کیے مگر انکے اندر پائی جانے والی فہم و فراست ۔ دلیری۔ صلح جوہی۔ رواداری اور انصاف پسندی جیسی صلاحیتوں کو اجاکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صلاحیتیں ہر معاشرے کے استحکام کی بنیاد ہیں۔ تقریبا تمام ریاستی اداروں میں میر خاندان کے افراد اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ میرمحمد بشیراس قبیلے کے پہلے رکن کشمیر کونسل تھے۔ میر عبدالرحمن سابق رکن اسمبلی آزاد کشمیر اور جاوید ایوب سابق وزیر جنگلات کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے ۔میر عبدالطیف کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ یہ سب انتہائی ذہین بچے ہیں مگر مجھے صرف ارسلان میر کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا۔ گفتگو کا آغاز میر ارسلان نے ہی کیا۔ انکے والد میر لطیف صاحب نے تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ میری و ابستگی کے حوالے سے جب میرا تعارف کروایا تو اس ہونہار طالب علم نے مسلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹوں اور اسکی آئینی و عالمی حیثیت کا زکر کرتے ہوئے مجھے حیران کر دیا اتنی کم عمر میں اتنی وسیع معلومات رکھنے والے اس پندرہ سالہ طالب علم نے تاریخ کے ایسے ایسے پیچیدہ گوشوں کو چھیڑا کہ میں سنتا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔یقینا یہ بچے کی فطری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ گھر کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ارسلان نے کہا کہ کشمیریوں کو ان قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہو گی جنہیں تاریخ کے ایک موڑ پر شکست تو ہوئی لیکن شکست خوردہ نہ بنیں جسکی وجہ سے انہوں نے دوبارہ آزادی حاصل کر لی۔ وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جنہیں گر کر اٹھنا آتا ہو۔ ارسلان نے ترکی اور جرمنی کے عروج و زوال کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں قومی غیرت اور صلاحیت تھی جسکی وجہ سے آج وہ ایک بار پھر باوقار قوموں کی صف میں کھڑی ہیں بلکہ انکی بڑھتی ہوئی ترقی اور اثر و رسوخ سے سیاسی و اقتصادی اجاری داری کی سوچ رکھنے والے ممالک پریشان ہیں۔ میں نے ارسلان سے پوچھا کہ وہ اتنی کم عمر میں عالمی تاریخ پر کیسے دسترس رکھتا ہے تو اس نے کہا کہ اس میں بلا شبہ اسکے والدین کا بنیادی کردار ہے۔ میں انکے معیار اور توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں ملکی اورغیر ملکی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں۔ رٹا لگانے کے بجائے سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بزرگوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں۔ والدین میرے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں۔ ہم عمر دوستوں کے ساتھ انسان کھیل اور گپ شپ لگا سکتا ہے لیکن سیکھنے اور سمجھنے کے لیے بڑوں کی محفل میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ ارسلان کی میز پر انگریزی روزنامہ ڈان پڑا ہوا تھاْ میں نے پوچھا ڈان انکے گھر میں کون پڑتا ہے تو اس نے کہا وہ خود پڑتا ہے۔ اسکی انگریزی چیک کرنے کے لیے میں نے انگلش میں اس سے گفتگو کی تو اسکی انگریزی اتنی اچھی تھی کہ مجھے کوئی سوال یا لفظ دہرانا نہ پڑا۔

ارسلان میر کے والدمیر عبدالطیف ایڈووکیٹ نے ہماری گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ مظفرآباد آنے والے ایک امریکی نے انہیں کہا کہ یہ ایک غیر معمولی بچہ ہے جس کے آگے بڑھنے کے یہاں مواقع کم ہیں اس لیے وہ اسے امریکہ لے جانے کی اجازت دیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن میں ہی رہ کر وطن کی خدمت کرے۔ بلا شبہ یہ ایک عظیم جذبہ ہے اور یہی جذبہ مجھے یورپ میں ہی جوان ہو کر اپنی نصف عمر وحدت کشمیر کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے قید فرنگ میں گزار کر وطن واپس لے آیا۔ قید سے پہلے قید کے دوران اور بوقت رہائی بھی مجھے اعلی تعلیم یافتہ با وسائل۔ باصلاحیت اوراہم پوسٹوں پر فائز غیر ملکی خواتین سے شادیوں کا موقع ملا لیکن میں نے اپنی اور مستقبل میں ہونے والے اپنے بچوں کی مسلمانیت اور کشمیریت کو خالص رکھنے کے لیے ان باوسیلہ آسودہ حال غیر ملکی خواتین کے ساتھ شادیوں کے متوقع مالی آسودگی کو ٹکھرا دیا لیکن وطن واپس آ کر دیکھا کہ جو مسلمانیت و کشمیریت میرے دل و دماغ میں بستی تھی وہ آج مجھے اس معاشرے میں نظر نہیں آ رہی ہے اس لیے میں میر لطیف صاحب کے امریکی آشنا سے اتفاق کرتا ہوں کہ ان کے ذہین و فطین اور محب وطن ارسلان جیسے بچوں کے لیے یہاں بڑے مسائل ہیں جہاں کردار کی کوئی قدر نہیں لیکن اس معاشرے کو ارسلان جیسے بچوں نے ہی درست کرنا ہے جس کے لیے طویل ذاتی قربانیوں کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے اس ملک کے بگڑتے ہوہے تعلیم نظام کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ غلامانہ سوچ کے مالک حکمران سامراجی قوتوں سے تعلیم کے نام پر رشوت لے کر غیر ملکی زبان میں غیر ملکی نصاب مسلط کر رہے ہیں جسکی وجہ سے ہماری نوجوان نسل اپنی تاریخ و ثقافت اور تحقیقی و تخلیقی قوتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ غیر ملکی نصاب میں فطری طور پر اس ملک کی تاریخ و ثقافت کا زکر ہو گا جس ملک کا وہ نصاب ہو گا اور چونکہ اپنے ملک میں غیر ملکی انگلش زبان کو تدریسی زبان بنانے سے رٹا سسٹم مزید مضبوط ہو رہا ہے اس لیے بچوں کے اندر تحقیقی و تخلیقی قوتیں بھی جنم نہیں لے سکتیں۔مسلمانوں کی تدریسی زبانیں جب انکی اپنی مادری زبا نیں تھیں تو اسلامی دنیا میں الفرابی ۔ الغزالی۔ ابن رشد۔ ابن خلدون۔ جلال الدین رومی۔ ابو سینا۔ اقوام متحدہ کے انٹری گیٹ پر درج نام سعدی شیرازی۔ اقوام متحدہ کی کلچرل سیکشن میں درج ہونے والے سید علی شاہ ہمدانی ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اور مولانا مودودی جیسی ہستیاں پیدا ہوئیں اور جب غیر ملکی زبان ہماری تدریسی زبان بنی تو ہمارے ہاں فلسفیوں اور سائنسدانوں کا یہ سلسلہ رک گیا اور طوطا مینا کی کہانیاں و قصے سنانے والے کرپٹ سیاستدان پیدا ہوئے جنہیں سامراجی قوتیں ریموٹ کنٹرول کے زریعے چلا کر ہمیں تیسرے درجے کا انسان بنا رہے ہیں لہذا ہمیں واپس اپنی بنیاد کی طرف لو ٹ کر طوطوں کے بجائے کردار پیدا کرنے ہونگے تاکہ دنیا میں ہمارا وقار بحال ہو سکے اور یہ کام ارسلان میر جیسے نوجوان ہی کریں گے۔
 

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 40729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.