افعال ِ حج کی حکمتیں

بندوں پر جو عبادتیں فرض کی گئیں ہیں انمیں بے شمار حکمتیں پنہاں ہیں یہاں حج کے افعال کی کچھ حکمتیں ذکر کی جارہیں ہیں۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے افعال حج کی حکمتوں اور مناسک حج کے باریک معانی کے متعلق پوچھا گیا توآپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا: ''افعال حج اور لوازم حج میں سے ہر ایک میں حکمت بالغہ،نعمت کاملہ اور کئی راز ہیں جن کی تعریف کرنے سے ہر زبان عاجز ہے ۔

احرام کے وقت سلا ہوا لباس نہ پہننے کی حکمت:
احرام کے وقت(سلا ہوا ) لباس نہ پہننے کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کی عادت ہے کہ جب مخلوق کے پاس جاتے ہیں تو عمدہ اورفخریہ لباس زیب تن کرلیتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: ''میری بارگاہ میں حاضری کا ارادہ مخلوق کے پاس جانے کے ارادے کے خلاف ہو تاکہ میں ان کے لئے اجر وثوا ب بڑھا دوں اور اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ بندہ احرام کے وقت کپڑوں کی کمی سے موت کے وقت دنیا سے رخصتی کی حالت کو یاد کرے جیسا کہ پہلے دن تھاجب ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا۔ اور اس حالت میں حساب کے دن برہنہ کھڑا ہو نے سے مشابہت بھی ہے(اور یہ کوئی ظلم نہیں) چنانچہ،
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ :اللہ ایک ذرہ بھر ظلم نہیں فرماتا ۔( پ 5 ، النساء: 40)

اور محشر کے دن اٹھنے کے بارے ميں ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ :اور بے شک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔(پ 7،الانعام:94)

احرام باندھنے سے قبل غسل کرنے کی حکمت:
احرام کے وقت (یعنی باندھنے سے پہلے) غسل کرنے کی حکمت بالکل ظاہراور واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ حجاج کو ملائکہ پر ظاہر کرے تاکہ ان کے سبب فخر کرے، لہذا حجاج ملائکہ کرام کے سامنے گناہوں اور میل کچیل سے پاک و صاف کرکے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس میں دوسری حکمت یہ ہے کہ حجاج انبیاء کرام علیہم السلام کے قدموں کی جگہ اپنے قدم رکھتے ہیں تو اس سے پہلے غسل کر لیتے ہیں تاکہ ان آثار کی برکات حاصل کرلیں۔ جیسا کہ،
اصدق الصادقین(یعنی سب سے زیادہ سچا) رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ :بے شک اللہ پسند رکھتاہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتاہے ستھروں کو ۔ (پ2،البقرۃ:222)

تلبیہ کہنے میں حکمت:
تلبیہ کہنے میں حکمت یہ ہے کہ ایک انسان کو جب کوئی معزز انسان بلاتاہے تووہ اس کو لبیک اور اچھے کلام سے جواب دیتا ہے۔ لہذا اس شخص کاجواب کیا ہونا چاہے جس کو خود ملک العلام عزوجل پکا رے اوراسے اپنی جانب بلائے تاکہ اس کے گناہ اور برائیاں مٹا دے۔جب بندہ لبیک کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ''ہاں! میں تیرے قریب ہوں اور تجھ پر تجلی فرمانے والا ہوں،پس تو جو چاہتا ہے ما نگ لے، میں تیری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔

قیام عرفات میں حکمت:
مزدلفہ سے کنکریاں لینے اور عرفہ میں ٹھہرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس میں صاحب علم ومعرفت کے لئے پوشیدہ باتیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا بندہ عرض کرتا ہے : میرے مولی ! میں نے گناہوں اور خطاؤں کی کنکریاں اٹھا ئیں اور تیرے حکم پر عمل کرتے ہوئے جمروں کو کنکریاں ماریں۔ بے شک تو کرم وبخشش والا ہے۔

مشعرحرام کے پاس ذکر کی حکمت:
مشعرحرام کے پاس ذکر کی حکمت اور اجر عظیم کے متعلق گویا اللہ تعالیٰ فرما رہاہے: ''تم میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا، جومجھے اکیلا یاد کرے میں بھی اسے اکیلا یاد کرتا ہوں اور جو مجھے کسی اجتماع میں یاد کرے تومیں اسے اس سے بہتر اجتماع میں یاد کرتا ہوں۔ پس جب تم مشعر حرام کے پاس مجھے یاد کرتے ہو تو میں تمہیں معزز فرشتوں میں یاد کرتا ہوں اور تمہارے لئے انتقام کے بدلے امان کی مہرلگا دیتا ہوں۔''

منی میں سرمنڈوانے کی حکمت:
منی میں سرمنڈوانے میں ایسی حکمت ہے جس سے بندے کی تمام امیدیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بیداری اور نصیحت ہے جسے صرف عالم ہی سمجھ سکتاہے،کیونکہ حاجی جب عر فہ میں ٹھہرتا ہے ،مشعرحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا، منی میں قربانی کر کے حلق کرواتا اور اپنے بدن کو میل کچیل اور گناہوں سے پاک و صاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ثواب لکھ دیتا، درجے بڑھا دیتا اور جہنم سے پناہ دے دیتاہے۔اور بروز قیامت اس کے ہر بال کے عوض ایک نوربنائے گا اوراسے امن کا پروانہ عطا فرمائے گا۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:
ترجمہ:اپنے سروں کے بال منڈاتے یا ترشواتے بے خوف۔ (پ26، الفتح: 27)

طواف میں حکمت:
طواف میں کئی حکمتیں اور لطیف اشارے ہیں، بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والا گڑگڑاتے اوردعا کرتے وقت زبان حال سے کہتا ہے: ''اے میرے مولی!توہی مقصودہے، توہی مرتبہ کمال تک پہنچانے والا معبود حقیقی ہے۔ میں تمام لوگوں کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضرہوا، تیرے گھر کا طواف کیا اور تیری رحمت کے دروازے پر جود وکرم کی امید لئے کھڑا ہوں اور تو خود اپنے خلیل حضرت سیدنا ابراہیم علی نبیناوعلیہ الصلوۃوالسلام کو اپنی لاریب کتاب میں فرما چکاہے:
ترجمہ:اور میرا گھر ستھرا رکھ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع سجدے والوں کے لیے ۔(پ 17،الحج:26)

وقوف عرفات میں حکمت:
وقوف عرفات میں حکمت اور انوکھے معانی ہیں، بلاشبہ اس میں بندے کے لئے تنبیہ ہے اور یہ کہ بندے بروز قیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ننگے پاؤں، ننگے بدن اوربرہنہ سر حسرت و ندامت کے قدموں پر کھڑے ہوں گے، گریہ و زاری کرتے ہوں گے اور اپنے رب سے اس طرح دعا کرتے ہوں گے جس طرح ایک ذلیل غلام دعاکرتاہے۔

سبحان اللہ !ان لوگوں کو دیکھوجنہیں ان کے رب نے اپنے گھر کی طرف بلایا تو انہوں نے وجدو شوق کے عالم میں اس کی دعوت پرلبیک کہا اور تصدیق کے قدموں پر اس کی طرف پیدل چل پڑے، اور ہر دبلی اونٹنی پر دور دور سے حاضر ہوگئے ۔

اے ہمارے رب! ہمیں بھی حج کی سعادت نصیب فرما۔ آمین

Rabi Ul Alam
About the Author: Rabi Ul Alam Read More Articles by Rabi Ul Alam: 15 Articles with 29928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.