مجھے کھیلنے دو

آبادی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔لیکن بلخصوص ہمارے شہروں میں خاص طور پر آبادی کے تناسب سے کھیل کے میدان بڑھنے کے بجائے ختم ہوتے جا رہے ہیں یا پھر بااثر افراد کے زیر قبضہ پہلے کیوں کہ آبادی کم تھی تو نو جوانوں کے لیے کھیلنے کے میدان زیادہ ہوا کرتے تھے تب بے شک آپ کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے علاقے کی طرف نکل پڑتے تھے ،آپ کو کھیل کے میدان نظر لازمی آتے تھے جہاں بعداز اوقات چل چلاتی گرمیوں کی دوپہر میں بھی نوجوان کھیل کے میدانوں کو آباد کرتے نظر آتے تھے ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی انہیں کرکٹ کا جوش چڑھتا اور کبھی ہاکی اور فٹ بال کے دیوانے ہوجاتے بہر حال ان نوجوانوں کے پاس اپنے کھیل کے شوق کی تکمیل کی بنیادی ضرورت یعنی کھیل کے میدان میسر تھے ،جب کھیل کے میدان آباد تھے نوجوان کھیلتے نظر آتے تھے تو ان میں سے سب سے باصلاحیت اور بہترین کھلاڑی ابھر کر سامنے آتے جو آگے چل کر پاکستان کی قومی ٹیموں تک پہنچتے تھے اور ملک کا نام روشن کرتے تھے سیدھی سی بات ہے ،ملائی تبھی زیادہ اور بہترین ہوگی جب دودھ زیادہ ہوگا ۔خوش قسمتی جن علاقوں میں ابھی کھیل کے میدان ابھی باقی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ سوائے چھٹی والے دن خال خال ہی کوئی گروپ کھیلتا ہوا نظر آتا ہے ، کچھ تو غربت نے نوجوانوں کو پیٹ کی آگ بجانے کے لیے مجبور کر دیا ، تو دوسری طرف نئی نسل کو نئی نیکنالوجی کے منفی استعمال نے میدانوں سے دور کر دیا تو کسی جگہ بااختیار لوگوں کی وجہ سے میرے ملک کے میدان ویران ہو تے جا رہے ہیں۔ نوجوان نسل کھیل کے میدان میں آئے گی تو ہسپتال ویران ہونگے ، کھیل کے میدان آباد ہو نگے ، اور کھیل کی مثبت سرگرمیوں کی وجہ سے ملک و قوم کا نام بھی روشن ہو گا۔ اسی طرح کا ایک مسئلہ میرے شہر چیچہ وطنی کا بھی ہے کہ جہاں یونین کونسل نمبر 89وارڈ نمبر 21الفتح ٹاؤن گؤ شالہ اور اس سے ملحقہ آبادی جہاں ایک ہی میدان ہے جوکہ کامرس کالج چیچہ وطنی کاگراؤنڈ ہے۔ جہاں کے نوجوانوں کے پاس اس میدان کے علاوہ کوئی اور دوسر قریبی ا میدان نہیں کہ جہاں وہ جا کر کھیل جیسی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ کامرس کالج قیام بھی ابھی عمل میں نہیں آیا تھا کہ وہاں کے نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت فٹ بال کے گراؤنڈ کو کھیل کے قابل بنایا، کامرس کالج کے قیام کے بعد یہ میدان کالج کا حصہ بن گیا اور مختلف ادوار میں مختلف پرنسپل صاحبان اور سٹاف کالونی کے رہائشی چند ایک شرائط کی بنا ء پر کھیلنے کی اجازت دے دیتے تھے لیکن اب عرصہ تقریبا ً دو سال سے کامرس کے نئے پرنسپل جناب نثار قریشی صاحب نے ملکی حالات کوجواز بنا کر نوجوانوں کو کھیلنے سے روک دیاجوکہ سراسر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ گراؤنڈ میں کھیلنے والے کھلاڑی جن میں محمد شاہد ، محمد عمر ، رانا حماد ، طارق محمود ، محمد بلال، محمد کاشف، محمد طارق ، سیف عباس ، احمد علی، رمضان عرف جانی وغیرہ نے بتایا کہ ہم لوگ تب سے اس میدان میں کھیلتے ہیں جب کامرس کاوجود بھی نہیں تھا۔ اس میدان کو تیار کرنے کے لیے ہم نے اپنے ہاتھوں اور سروں سے پتھروں اور اینٹوں کو اٹھایا تاکہ میدا ن کھیلنے کے قابل ہو سکے۔ اس سلسلہ میں میری بات کالج کے تین پروفیسرز صاحبان سے ہوئی جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بس ایک بے معنی سی ضد ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ کالج کے پرنسپل صاحب جناب نثار قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ بچوں کو کھیلنے کی اجازت دے کر میں کوئی سیکورٹی رسک نہیں لینا چاہتا ہے۔ وارڈ نمبر 21کے کونسلر رانا جواد صاحب بھی نوجوانوں کے کہنے پر تحصیل چیئرمین رانا اجمل صاحب اور رائے حسن نواز صاحب کے ذریعے بات کر چکے ہیں مگر کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ اور اس کے علاوہ تقریباً پندرہ بیس دن پہلے ضلعی چیئرمین چوہدری زاہد اقبال صاحب ٹیلیفون پر پرنسپل صاحب سے بات کر چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ اخذ نہ ہو سکا۔ان حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ احکام سے اپیل کی جاتی ہے کہ نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار ہونے سے بچاتے ہوئے بچوں کو کھیل کے میدان میں کھیلنے کی اجازت دی جائے یا تحریری طور پر پرنسپل صاحب کو آگاہ کیا جائے جہاں تک سیکورٹی رسک کا معاملہ ہے تو اسے پنجاب حکومت ڈکلیئر کرے تاکہ پرنسپل صاحب بلا جھجک بچوں کو گراؤنڈ میں کھیلنے اجاز ت دے سکیں، اس سے نہ صرف گراؤنڈ ویران اور کھنڈ ر ہونے سے بچ جائے بلکہ مختلف غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی کم ہو جائیں گی۔

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455361 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More