الیکشن کی آمد آمد…… سیاسی رہنما و کارکنان اخلاقیات بھول گئے

چند روز بعد ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کی تیاری کے لیے بھرپور محنت کر رہی ہیں۔ شہر شہر جلسے کیے جارہے ہیں۔ ہر جماعت جلسوں میں عوام کو اپنے نشان کو ووٹ دینے کے لیے قائل کر رہی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام جماعتوں کے قائدین جلسوں میں مخالف جماعتوں کے خلاف بداخلاقی کی تمام حدود کراس کر رہے ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات کا فقدان اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی رسم تو بہت پرانی ہے۔ برسوں سے سیاسی رہنما اپنے مخالفین کے لیے بہت سے نامناسب الفاظ استعمال کرتے آئے ہیں، جنہیں سن کر یوں لگتا ہے کہ سیاسی اقدار میں غیر اخلاقی زبان کا استعمال، غیر حقیقی الزام تراشیاں، مخالفین پر کیچڑ اچھالنا، جھوٹ بولنا اور نفرت پھیلانا ایک آرٹ کی شکل اختیار کرچکا ہے اور سیاست دان بہترین آرٹسٹ ہیں۔ جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں، سیاسی رہنماء اخلاقی روایات کو بری طرح روندنا شروع ہوگئے ہیں۔ کوئی لیڈر سیاسی مخالفین کو گدھے قرار دے رہا ہے توکوئی سیاسی مخالفین کو بے غیرت کہہ رہا ہے۔ کسی لیڈر نے سیاسی مخالفین کو طوائف کی اولاد کہا تو کسی جماعت کے رہنما نے مخالف جماعت کے پرچموں کو آگ لگائی اور سیاسی رہنماؤں کو دیکھ کر سیاسی جماعتوں کے کارکنان بداخلاقی میں ان سے کئی ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ اپنے مخالفین کی مخالفت میں ان کی ذات اور بدقسمتی سے گھروں کی عورتوں ، بیٹیو ں، بہنوں اور بہووں سمیت سیاسی عورتوں کو بھی نہیں بخشا جارہا۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کی والدہ یا بیوی نے اپنے بیٹے یا شوہر کے حق میں بیان دیا تو مخالف جماعت کے کارکنان ان خواتین پر بھی طعن و تشنیع کرنے لگے ہیں۔ یہ رویے معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت اور انتہا پسندی کی عکاسی کررہے ہیں۔ عدم برداشت کا یہ رویہ سیاست اور معاشرے کے لیے انتہائی خطر ناک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست کے کوچے میں نہ تو کوئی اصول و ضوابط ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کا گزر ہے۔ جس پر جب چاہو الزامات کی بوچھاڑ کردو۔ جب چاہو کسی کی عزت کو داغدار کردو۔ اپنے کارکنوں کو دوسروں کے خلاف ہمیشہ نفرت سکھاؤ، تاکہ وہ اندھی تقلید میں دوسری پارٹی کی اچھی بات کی حمایت کرنے کا بھی نہ سوچ سکیں۔ حالانکہ معاشرے میں کسی بھی شخص کی کسی نہ کسی جماعت سے وابستگی ہوتی ہے، ہر انسان آزاد ہے جسے چاہے سپورٹ کرے، اس وجہ سے کسی سے بھی اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن لڑنا جھگڑنا اور بداخلاقی کرنے کو جہالت سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں ایک ہی گھرانے میں کئی افراد مختلف جماعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں، لیکن وہاں اس وجہ سے نہ تو ان کی لڑائی ہوتی ہے اور نہ ہی اخلاقیات کو پامال کیا جاتا ہے۔ آپ سیاسی جماعتوں کو ہی دیکھ لیجیے کہ ملک کی سیاست میں تقریبا سو خاندان ایسے ہیں جن کے افراد مختلف جماعتوں میں موجود ہیں۔ کوئی رشتہ دار کسی جماعت میں ہے تو کوئی دوسری جماعت میں ہے، لیکن حکومت کسی بھی جماعت کی ہو یہ خاندان ملک کر مفادات سمیٹتے ہیں، جبکہ مفادات سمیٹنے والے یہی قومی سطح کے لیڈر عوام کو لڑانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، جو پرلے درجے کی بددیانتی ہے۔

اگرقومی سطح کے تمام سیاست دانوں کی اپنے مخالفین کے بارے میں لب ولہجہ کا تجزیہ کریں تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ کوئی سیاسی رہنما مخالف جماعت کے لیڈر کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتا ہے تو کوئی چوک میں لٹکانے کی بات کرتا ہے۔ کوئی سیاسی رہنما مخالف کو چور اور کوئی کسی کو بے وقوف قرار دیتا ہے۔ کوئی سیاسی رہنما مخالف کو یہودی ایجنٹ قرار دیتا ہے تو کوئی منافق اعظم اور ڈیزل کہتا ہے۔ جب قومی سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کے سامنے مخالف سیاسی رہنماؤں کے لیے ایسے الفاظ بولیں گے تو یقینا کارکنوں پر بھی اس کا اثر ہوگا اور وہ بھی مخالف جماعت کے لیڈروں سے نفرت کا اظہار کریں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری سیاسی رہنماؤں پر عاید ہوتی ہے، مگر لگتا یوں ہے کہ سیاسی رہنما مخالف لیڈروں کے لیے ایسے رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے خود کوشاں ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کے طفیل ملک کے گلی کوچوں اور عوامی پلیٹ فارم سوشل میڈیا پر تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان میں آپس میں بحث و تکرار جاری ہے، جس سے نفرتیں جنم لے رہی ہیں اور ہر جانب کے افراد فریق مخالف کے حامی افراد کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جذباتی سیاست کے ذریعے دوسروں کے لیے نفرتیں پیدا کرنے کے ذمے دار سیاست ہیں۔ سیاست دان خود کو ملک و قوم کے خادم بتلاتے ہیں، لیکن اپنے مفاد کی خاطر معاشرے کے افراد کو تقسیم کردینا اور ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کردینا کسی طرح بھی ملک و قوم کی خدمت نہیں ہے، بلکہ اپنے مفادات کی خاطر عوام کو فریق مخالف کے خلاف استعمال کرنا انتہا پسندی ہے۔ اگر سیاستدان انتہاپسندی کی سیاست کریں گے تو ان میں اور کم علم افراد میں کیا فرق رہ جائے گا۔ مگر افسوسناک اب سیاست میں ہر بات کو جائز سمجھ لیا گیا ہے۔سیاست میں اخلاقی روایات عنقا ہوتی جارہی ہیں۔ مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کسی بھی حد تک گرنے کو درست تسلیم کر لیا گیا ہے اور سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک بڑھا دینا بھی عمل قبیح نہیں رہا۔ اب سیاست میں برداشت کا فقدان واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
 
سیاسی جماعتیں تو اپنے کارکنوں کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتی ہیں، جہاں کارکنوں کی تربیت کی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کا کردار ایک ریاست کی مانند ہونا چاہیے، جو اپنے کارکنوں کی اس طرح سے تربیت کرے کہ ہر جگہ ان کے سامنے ملک و قوم کا مفاد رہے، لیکن یہاں تو اکثر سیاسی جماعتیں اقتدار کی ہوس اور انتخابی پارٹی تک محدود ہیں۔ سیاسی مفاد کی خاطر مخالف جماعت کے خلاف ہر قسم کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اپنے مخالف پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان کے نقطہ نظر کو غلط صورت میں پیش کیا جاتا ہے، سیاسی اختلاف ہو تو اسے غدار اور دشمن وطن ٹھہرایا جاتا ہے۔ مذہبی اختلاف ہو تو اس کے ایمان تک پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ کارکن اپنے رہنماؤں سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دشمن آپ نہیں ہوگئے ہیں تو ہمیں مخالفت و مزاحمت کے اس اندھے جنون سے افاقہ پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور سیاست کی وجہ سے پھیلائی جانے والی نفرتوں کو ختم کرنا ہوگا۔ محض سیاسی مفادات کی خاطر اختلاف کا یہ طریقہ نہ صرف اخلاقی لحاظ سے معیوب اور دینی حیثیت سے قبیح ہے، بلکہ اس سے معاشرے میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی بدولت معاشرے کے مختلف عناصر میں باہمی عداوتیں پرورش پاتی ہیں، عوام دھوکے اور فریب میں مبتلا ہوکر اختلافی مسائل میں کوئی صحیح رائے قائم نہیں کر سکتے۔

سیاست دان سیاست کو خدمت کا درجہ دیتے ہیں، حالانکہ سیاست کو عبادت کا درجہ تبھی ملے گا جب انسانی فلاح کے لیے اور ایمانداری و دیانتداری سے سیاست کی جائے۔ ہمارے سیاستدان جس سیاست کو عبادت قرار دیتے ہیں، اس سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے اخلاقیات اور انسانیت کو بھی تاراج کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ سیاستدانوں کو اپنے اندرونی خلفشار، مفادات اور گروہی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ اپنے سیاسی مخالفین پر گھناؤنے، جھوٹے الزامات لگانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ تمام جماعتوں کے سیاست دانوں کو مل کر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آیندہ نسلوں کو کس قسم کا سماج دے رہے ہیں۔ اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ جس قسم کا رویہ تمام سیاست دان مل کر معاشرے میں پروان چڑھارہے ہیں، کیا یہ رویہ معاشرے کا امن و سکون برباد کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ کیا اس قسم کے رویے سے معاشرے میں اتنہا پسندی اور نفرتیں جنم نہیں لے رہیں؟ سب کو مل کر سوچنا ہوگا کہ سیاست میں جوش سے نہیں، بلکہ ہوش سے کام لینا چاہیے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی اور الزامات کی سیاست جاری رہی تو سیاسی رہنماؤں کی رہی سہی عزت بھی عوام کے دل سے نکل جائے گی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 625873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.