چاچا کی دلخراش باتیں

وہ ایک اَن پڑھ شخص ہے لیکن اُس کا اٹھنا بیٹھنا پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہے، یعنی ایک نجی تعلیمی ادارے میں چوکیدار کی نوکری کرتا ہیں ۔ ہم محبت اور احترام سے اُسے چا چا کہہ کر پکارتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چاچا کے ساتھ بیٹھے گپ شپکر رہے تھے کہ ذکر وطن عزیز کے نظام کی خرابی کا ہوا توچا چا نے ہمیں دو واقعات سنائے ۔ پہلا واقعہ ملک ِ چین کے ایک آفیسر کا تھا۔ جو اُس نے تعلیم کے حصول کے لئے چین جانے والے ایک پاکستانی طالب علم سے سناتھا ۔ وہاں ایک مرتبہ کسی کام کی غرض سے ایک آفس جانا ہوا۔ دفتری اوقات کار کے مطابق دفتر کھلنے میں ایک گھنٹہباقی تھا، یعنی کوئی آفیسر ابھی تک نہیں آیا تھا۔ البتہ ایک خاکروب آفس کی صفائی میں مشغول تھا۔ صفائی کرنے اور پانی کا الیکٹرک کولر آن کرنے کے بعدوہ وہاں سے چلا گیا۔ چند لمحوں بعد اُسی شکل کا ایک اور آدمی آفس میں داخل ہوا اور صاحب کی میز پر فائلیں سیدھی کر کے چلا گیا۔ جب کوئی دس ، پندرہ منٹ کا وقت باقی رہ گیا تو ایک پینٹ شرٹمیں ملبوس شخص آفس میں آگیا ۔ اُس کی شرٹ پر آفس کا بیج لگا ہوا تھا جس پر نام چی پنگ اور عہدہ اسسٹنٹ ڈائریکٹردرج تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ آفیسر کی شکل و صورت پہلے دونوں آدمیوں سے کافی ملتی جلتی تھی۔ لیکن طالب علم نے کہا کہ مجھے اسے دیکھ کر حیرت اس لئے ہوئی کہ اُن تینوں میں کافی زیادہ مماثلت پائی جارہی تھی۔ اگرچہ وہاں بسنے والے ایک ہی قد وکاٹھ اور شکل و صورت کے ہوتے ہیں اور اُن میں پہچان کرنا مشکل کام ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ ایک ہی آفس کا تھااور وہاں تینوں کی شکلوں میں حد سے زیادہ مماثلت پائی جارہی تھی۔ ہم چاچا کی باتیں انتہائی توجہ سے سُن رہے تھے اور ساتھ میں یہ تبصرہ ہورہا تھا کہ چین کے لوگ قد و کاٹھ اور شکل و صورت میں ایک جیسے لگتے ہیں جس کے متعلق لطائف بھی مشہور ہیں۔ کہتے ہیں جس عورت نے یہ جملہ دریافت کیا تھا کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دراصل اُس کا خاوند چین میں گُم ہوگیا تھا۔ ہم نے چاچا کو اپنی بات جاری رکھنے کا کہا۔ چاچا بولا کہ اُس طالب علم نے کام ہوجانے کے بعد چی پنگ سے کہا کہ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو ایک بات پوچھ سکتا ہوں۔ اُس کی رضامندی پر دریافت کیا کہ آپ کی شکل آفس بوائے اور خاکروب سے کافی ملتی جلتی ہیں۔ اس پر وہ مسکرایا اور بولا کہ یہاں ہمارے دفاتر میں ایسی کوئی آسامیاں نہیں ہیں۔ یہ میرا آفس ہے پس اس کی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھی میری خود ہے۔ رہی بات آپ کے سوال کی، تو وہ صفائی کرنے والا خاکروب اور فائلیں ترتیب دینے والا آفس بوائے میں ہی تھا۔ چاچا نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں تو دفاتر میں درجہ چہارم ملازمین ، کلرکوں ، اسسٹنٹس وغیرہ کی ایک فوج ظفر موج بھرتی ہوتی ہے۔صدارتی محل ، وزیر اعظم ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسوں میں ہزاروں ملازمین تعینات ہیں۔ہمارے صاحب لوگ تو اتنے نازک مزاج ہوتے ہیں کہ اپنا ہینڈ بیگ اور فائلیں گاڑی سے دفتر تک نہیں اُٹھا کر لے جاسکتے ہیں۔ نوکر چاکر گاڑی اور دفتر کا دروازہ ان کے لئے کھولتے ہیں۔چھوٹے موٹے کاموں کے لئے نوکروں کو سارا دن اِدھر اُدھر گدھوں کی طرح بھاگاتے رہتے ہیں۔

چاچا نے اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالتے ہوئے دوسرا واقعہ پاکستان کی ایک پبلک سیکٹر کی یونیورسٹی کا یوں سنایا۔ یہ نوے کی دہائی کی بات ہے کہ میرا یونیورسٹیکسی کام سے جانے کا اتفاق ہوا۔ ابھی یونیورسٹی کا گیٹ عبور ہی کیا تھا کہ ایک احتجاجی جلوس نظر آیا ۔ جنہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ زاُٹھا رکھے تھے جن پر اُس وقت کی حکومت اور وائس چانسلر کے خلاف نعرے درج تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ درجہ چہارم کے ملازمین نے تنخواہوں کی بندش کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا تھا۔ ہم نے چاچا سے کہا کہ یہ تو بڑی عام سی بات ہے۔ اپنے شہر کی صفائی کی ابتر حالت دیکھیں۔ ہر دوسرے ، تیسرے ماہ میونسپل کمیٹی کے صفائی کا عملہ تنخواہوں کی بندش کی وجہ سے ہڑتال پر ہوتا ہے۔ چاچا بولا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن میں آپ کو جو واقعہ سُنا رہا ہوں ، اُس کو تو مکمل ہونے دیں۔ آپ سُن کر ششدر رہ جائیں گے۔ ’’اچھا‘‘۔ ہم نے بہ یک زبان ہو کر کہا۔ چاچا نے کہا کہ اُس یونیورسٹی میں مالیوں کی تعداد سو سے زائد تھی۔ ایک ایک ڈیپارٹمنٹ میں درجنوں مالی بھرتی کئے گئے تھے۔ ایک ڈیپارٹمنٹ ایسا بھی تھا جو فسٹ فلور پر واقع تھا اور اُس میں مالیوں کی تعداد دس تھی۔ چاچا کی اس بات پر ہم واقعی ا نگشت بدندان رہ گئے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.