حوثی باغیوں کے سرزمین حرمین شریفین پر حملے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب میں الجوف کمشنری کے الحزم شہر میں شادی کی تقریب پر گولہ باری کی گئی جس سے 5شہری جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ جا ں بحق ہونے والوں میں خواتین او ربچے شامل ہیں۔ اس سے قبل یمنی فوج نے شمال کی جانب سے حوثیوں کی دراندازی کی کئی کوششیں ناکام بنادیں اور انہیں زبردست نقصان پہنچایا۔ ایک اور واقعہ میں یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے داغے جانے والے ہتھیاروں کے ٹکڑے لگنے سے سعودی عرب کے صوبے جازان کے العارضہ ضلع میں تین افراد زخمی ہو گئے۔جازان صوبے میں شہری دفاع کے میڈیا ترجمان یحیی عبداﷲ القحطانی کے مطابق دو سعودی نوجوان شدید زخمی ہوئے جب کہ ایک دس سالہ بچہ بھی زخمی ہوا ہے۔ تینوں زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیاہے۔یاد رہے کہ حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر آئے دن میزائل حملے بھی کئے گئے جنہیں سعودی ڈیفنس فورسز کی جانب سے فضا میں ہی تباہ کر دیا جاتا رہا ہے۔

حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب کے مختلف شہروں پر داغے گئے میزائل حملوں اور سرحدی خلاف ورزیوں پر پوری مسلم امہ میں غم و غصہ کی لہر پائی جاتی ہے۔ان کی طرف سے سعودی عرب پر حملے دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔اس سے قبل وہ مکہ مکرمہ پر میزائل حملہ کی بھی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ ماضی میں حوثی باغیوں کے لیڈروں کی جانب سے واضح طور پر مکہ اور مدینہ پر قبضہ کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ یمن میں بغاوت کا آغاز ہوا تو سعودی عرب نے فوری طور پروہاں فوجی کاروائی شروع نہیں کی بلکہ چار سال تک اس مسئلہ کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں سعودی قیادت کو کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں لیکن بعض قوتیں چونکہ یمن کی سرزمین پر فوجی اڈہ بنا کر سعودی عرب کیخلاف گھیراؤ کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا تھیں اس لئے بین الاقوامی سیاست آڑی آئی اور سعودی عرب مخالف قوتوں کی شہ پر حوثی باغی جن کی تعداد یمن کی کل آبادی کا شاید پندرہ فیصد سے بھی کم ہو‘ نے یمن میں امن کیلئے کئے گئے سمجھوتہ کی خلاف ورزی کی اور یہاں امن و امان کے قیام کی سب کاوشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ عر اق پر قبضہ اور شام کی صورتحال کے پیش نظر صاف طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ سعودی عرب کا چاروں اطراف سے گھیراؤ کیا جارہا ہے اور اس سلسلہ میں صلیبیوں و یہودیوں کی باغیوں کو مکمل پشت پناہی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ جب حوثی باغیوں نے بیرونی قوتوں کی مددسے صنعا شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کیخلاف اعلانیہ طور پر مذموم عزائم کا اظہار کیا جانے لگا تو پھر سعودی عرب نے باقاعدہ فوجی اتحاد بنا کر اس بغاوت کو کچلنے کیلئے عسکری کاروائی کا فیصلہ کیا۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں نے اس وقت بھی کہا تھاکہ یمن میں اٹھنے والی بغاوت قطعی طور پر دو ملکوں کی جنگ نہیں ہے وہاں باغی ایک منتخب حکومت کیخلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور سرزمین حرمین شریفین پر حملوں کی کھلی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس لئے انہیں طاقت و قوت کے ذریعہ کچلنا بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے باغی جو بار بارسعودی سرحدوں سے دراندازی کی کوشش کرتے اور سرحد کے قریب آکر جنگی مشقیں کی جاتی ہیں کسی ڈھانچے میں فٹ ہونیو الے نہیں ہیں۔آج سعودی عرب کا حوثی باغیوں کو کچلنے کا موقف بالکل درست ثابت ہو رہا ہے اور اس امر کی بھی واضح تصدیق ہوتی ہے کہ یمن میں بغاوت کھڑی کرنے کا اصل مقصد سرزمین حرمین شریفین کو نشانہ بنانا اور اسے کمزور کرنا ہی ہے۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جہاں ملکی سطح پر اہم سیاسی فیصلے کئے وہیں یمن میں قیام امن اورحوثی باغیوں کی مکہ ، مدینہ پر حملوں کی دھمکیوں کے پیش نظر فیصلہ کن طوفان آپریشن شروع کرنا بھی انتہائی اہم فیصلہ تھاجس میں برادر اسلامی ملک کونمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ بہرحال حوثی باغیوں کی طرف سے سرزمین حرمین شریفین پر حملے حالیہ جاری جنگ کی ایک نئی اور خطرناک پیش رفت ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھاکہ اﷲ کی قسم! اے مکہ تو اﷲ کی ساری زمین سے بہتر اور اﷲ تعالیٰ کو ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے اگر مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں ہرگز نہ جاتا۔اپنے گھر بیت اﷲ کی حفاظت اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ وہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کو چھوٹے پرندوں کے ذریعہ نیست و نابود کرسکتا ہے تو آج بھی صلیبیوں ویہودیوں کی پشت پناہی پر اس مقدس سرزمین کیخلاف سازشیں کرنے والوں کو ایک لمحے میں تباہ وبرباد کر سکتا ہے۔تاہم اصل امتحان تو دور حاضر میں موجود مسلمانوں کا ہے کہ وہ اس موقع پر کیا کردار ادا کرتے ہیں؟۔حقیقت یہ ہے کہ سرزمین حرمین شریفین پر حملہ کی کوششیں مسلمانوں کے دل پر ہاتھ ڈالنے والی بات ہے۔ یہ مسئلہ سیاسی یا علاقائی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے عقیدے و ایمان کا مسئلہ ہے۔اس لئے دل میں ذرہ بھر ایمان رکھنے والا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی ایسی ناپاک جسارت پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ مسلم حکمرانوں کو اس معاملہ پر ہر قسم کے ذاتی و سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے اور سرزمین حرمین شریفین کو نشانہ بنانے کی کوششیں کرنے والے باغیوں کو بزور قوت کچلنے کیلئے سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہیے۔ حوثیوں کے حالیہ حملوں سے اس پروپیگنڈا کی بھی قلعی کھل گئی ہے کہ یمن میں عرب اتحاد کی کاروائی سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ اگر سعودی عرب کی زیر قیادت عرب ممالک کی فضائیہ حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن کا آغاز نہ کرتی تو اس وقت حالات بہت مختلف اور امت مسلمہ کے دینی مرکز کیلئے اور زیادہ سخت خطرات کھڑے ہوجاتے۔اس لئے یہ بات طے شدہ ہے کہ حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے یمن کی سرزمین پر موجود بغاوت کا کچلنا بہت ضروری ہے۔ حق اور باطل کی اس لڑائی میں سب مسلم ملکوں کو متحد ہو کر دشمنان اسلام کے مذمو م منصوبے ناکام بنانے کیلئے بھرپو رکرداراد ا کرنا چاہیے۔ پاکستان پر جب کبھی بھی کوئی مشکل وقت آیا ہے سعودی عرب ہمیشہ ہمارے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ہے۔ اس وقت جب وہ مشکل صورتحال سے دوچار ہے توپاکستانی حکومت کابھی فرض بنتا ہے کہ وہ دیگر مسلمان ملکوں کو بھی ساتھ ملا کربرادر اسلامی ملک کے ساتھ کھڑاہواور ان کی ہر ممکن مددوحمایت کی جائے۔سعودی عرب کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ جو ملک یمن کے حوثی باغیوں کو میزائل فراہم کر رہا ہے اس کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے۔کچھ عرصہ قبل عرب اتحاد کی طرف سے اسمگل کئے جانے والے میزائل پکڑے گئے جس سے ساری حقیقت کھل کر واضح ہو گئی ہے کہ سرزمین حرمین شریفین پر میزائل حملوں کے پیچھے اصل قوت کونسی ہے۔پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب پر ہونے والے حملوں کی مذمت کی ہے۔ یہ اچھی بات ہے تاہم پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کو چاہیے کہ وہ اس انتہائی حساس مسئلہ پرمتفقہ اقدامات اٹھائیں اور سرزمین حرمین شریفین پر حملے کر کے مسلمانوں کے دینی مرکز کا امن برباد کرنے کی سازشیں کرنے والوں کا ہاتھ روکا جائے۔ سعودی عرب پر حملے پورے عالم اسلام پر حملہ کے مترادف ہیں۔ اس پر مسلم امہ کسی طور خاموش نہیں رہ سکتی۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.