آپ انتخابات جیت چکے ہیں


ظلم کے خلاف جدوجہد انسان کی فطرت ہے، ۱۶دسمبر ۲۱۰۴ کو دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاورمیں داخل ہوکر تقریباً ڈیڑھ سو بچوں کو شہید کردیا۔ یہ دہشت گردوں کی پہلی یا آخری کارروائی نہیں تھی، اور یہ ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ اب تک ہمارے ہاں دہشت گردوں نے معصوم بچوں سمیت متعدد محب وطن سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور فوج و پولیس کے اعلی افیسرز کو شہید کیا ہے۔

یہ ملک ہمارے پاس اللہ رب العزت اور ہمارے اباو اجداد اور شہدا کی امانت ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس امانت کی قدر کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کو بہترین شکل میں منتقل کریں۔
دمِ تحریر ڈیرہ سماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں پاکستان تحریک انص
اف کے امیدوار اکرام اللہ خان گنڈہ پور بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔سیاستدانوں کی مسلسل یہ شہادتیں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر طمانچہ ہیں اور شہدا کےورثا اس مسئلے پر انگشت بدنداں ہیں کہ اتنی لاشیں اٹھانے کے باوجود اس ملک میں قاتلوں ، وحشیوں، درندوں اور دہشت گردوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

ایسی صورتحال میں بحیثیت قوم ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر ہم اس ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ ، جمہوریت کا بول بالا ، کرپشن سے نجات ، معیاری نظامِ تعلیم، مساوی انسانی حقوق، صحت کی سہولیات اور اخوت و رواداری کے خواہاں ہیں تو ہمیں پہلی فرصت میں لاتعلقی اور کنارہ کشی کے بجائے اپنے ووٹ کے ذریعے دہشت گردوں، کرپٹ عناصر، اشرافیہ اور کالعدم ٹولوں کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم اپنے ووٹ کے ذریعے تکفیری عناصر، پاکستان آرمی کے دشمنوں، آئین پاکستان کےمخالفین اور قائداعظم سے بغض و عناد رکھنے والوں کو اسمبلیوں میں پہنچنے سے روک دیتے ہیں تو یہی ہماری جیت اور فتح ہے۔ اسی میں پاکستان کی بقا اور سلامتی ہے اور اسی میں پاکستان دشمن طاقتوں کی شکست ہے۔

پاکستان کی بقا اور امت مسلمہ کی اصلاح و سلامتی کی نیت سے ووٹ ڈالنےکے لئے نکلنا وقت کی ضرورت اور عقل و شعور کا حکم ہے ۔جو لوگ پاکستان کو سنوارنے کی نیت سے میدان میں اتر کر ووٹ ڈالتے ہیں وہی اس ملک و قوم کے حقیقی خیر خواہ اور مخلصین ہیں۔ اس وقت ہار اور جیت کا معیار یہ نہیں کہ کس نے کتنی سیٹیں لیں بلکہ اب معیار یہ ہے کہ کس نے ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے اسمبلیوں تک پہنچنے کے راستے میں کس قدر مزاحمت ایجاد کی۔

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ سرکاری اداروںمیں دہشت گردوں کے سہولتکاروں کی وجہ سے دہشت گردوں کو انتخابات لڑنے کے لئے کلیرنس دے دی گئی ہے لہذا دانش مند طبقے کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ وہ اس کلئیرنس کے مسئلے پر بات کریں اور اسی طرح عوام کی ووٹ کی اہمیت بھی پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔

اس وقت انتخابات سے لا تعلق اور کنارہ کش ہوجانا یعنی ملک دشمن عناصر کے اسمبلیوں تک پہنچنے کے لئے راستہ کھلا چھوڑنا ہے۔

اس وقت ملک بچانے کاواحد راستہ یہی ہے کہ ہم اپنے ووٹ اور شعور کی طاقت سے ملک دشمنوں کی طاقت اور چالوں کو ناکام بنا ئیں۔ایسے نازک وقت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے آئی ایس آئی کے خلاف بیانات نے صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ اس سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ ملک دشمن عناصر دو طرح کے خطوط پر عمل کر رہے ہیں۔ ایک تو پہلے مرحلے میں انتخابات کے زریعے اسمبلی تک پہنچنا چاہتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں الیکشن کے بعد ملک کے اداروں کے درمیان عدمِ اعتماد کو ہوا دے کر اداروں کے انسجام اور وحدت پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی اور فوج ،عالمی کفر کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے، آئی ایس آئی اور فوج کو کمزور کرنے کی کوششیں در اصل دہشت گردوں کو مضبوط کرنے کی چالیں ہیں۔اگر ملکی اداروں کا باہمی انسجام ختم ہوگا تو الیکشن کے بعد دہشت گردوں اور دیگر ملک دشمن عناصر کو سر اٹھانے کا موقع ملے گا۔ بصورت دیگر اگر ہماری فوج اور ایجنسیاں مضبوط ہوئیں تو الیکشن کے بعد دہشت گردوں اوران کے سہولتکاروں کو اپنی کارروائیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بحیثیت پاکستانی ہمیں الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد بھی اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنی ایجنسیوں اور فوج کی پشت پناہی اور حمایت کرنی چاہیے۔ اگر اس مشکل وقت میں ہم نے اپنے ووٹ کا اصلا ًاستعمال نہ کیا اور یا پھر استعمال تو کیا لیکن دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے خلاف استعمال نہ کیا تو اس کا خمیازہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

قابلِ ذکر ہے کہ ہمیں انتخابات کے بعد ان عناصر کا بھی احتساب کرنا ہو گا کہ جنہوں نے انتخابات میں دہشت گردوں کے لئے سہولتکاری کا فریضہ انجام دیتے ہوئے انہیں انتخابات لڑنے کی اجازت دلوائی ہے۔ ہمیں یہ سب کچھ کرنا ہوگا چونکہ ظلم کے خلاف جدوجہد انسان کی فطرت ہے، اور جوملت فطرت کی آواز پر لبیک نہیں کہتی فطرت ایسی ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔اگر آپ ظلم اور دہشت گردی کے خلاف فطرت کی آواز کے مطابق ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں تو آپ انتخابات سے پہلے ہی انتخابات جیت چکے ہیں۔

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 64166 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.