اب نہیں۔۔۔۔ قسط 3

حریم کالج سے واپسی پر اکیلی ہی گھر آتی تھی۔ اسے واپسی کا راستہ بہت اچھا لگتا تھا ۔تھوڑا وقت مل جاتا تھا اپنے خوابوں کے بارے میں سوچنے کا اسے بہت سارا پیسہ کمانا تھا۔ڈھیر سارا پڑھنا تھا۔ اور زندگی کو مکمل طور پہ بدلنا تھا۔وہ جیسی زندگی گزار رہی تھی ویسی زندگی اسے ہرگز نہیں چاہیے تھی۔ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ واپس آ رہی تھی پر آج راستہ کٹ ہی نہیں رہا تھا قدم اتنے بھاری ہو گئے تھے کہ چلنا مشکل ہو گیا تھا یہ کیا ہو گیا یہ کیا کر دیا میں نے نہیں میں میں ایسا نہیں کر سکتی ۔اماں کو پتا چل گیا تو وہ میری شکل نہیں دیکھیں گی ۔اور ابا وہ تو پہلے ہی مجھے پسند نہیں کرتے ۔ کیا کروں میں کدھر جاؤں ۔گھر کے سوا کوئی جگہ بھی تو نہیں ہے میرے پاس ۔حریم ۔۔حریم۔۔۔ او گڈی سنتی کیوں نہیں ہے ۔ حریم ایک دم چونکی تھی۔ دادی سامنے کھڑی تھیں ۔اور اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لے رہی تھیں۔ دادی آپ آپ کب آئیں۔ میں تو کب سے کھڑی ہوں لڑکی تم کہاں گم ہو۔ دادی وہ کہیں نہیں آپ آئیں اندر چلتے ہیں۔میں آپ کو گرما گرم چائے بنا کر پلاتی ہوں۔ ہاں چلو اور ہاں یہ کپڑے بدل کر مجھے روٹی بھی ڈال دینا تمہاری اماں ساتھ والی نجو کے ساتھ گئی ہے ۔اماں نجو خالہ کے ساتھ کدھر گئی ہیں۔پتا نہیں وہ کہہ رہی تھی کہ بڑی کوٹھی میں کھانا پکانے کا کام مل گیا ہے تیری ماں کو اور ہاں پیسے بھی اچھے ملیں گے۔حریم کا دل کٹ گیا تھا پیسے کوٹھی نوکری ایسی ہوتی ہے زندگی ابا پھر بھی اماں کو کبھی عزت نہیں دیں گے تو کیا فائدہ ذلیل ہونے کا۔ اے گڈی تو بھی کیا آج روٹی کے لیے تڑپاۓ گی تیری چچی نے بھی آج روٹی نہیں دی ۔لا رہی ہوں دادی دادی بھی نہ جدھر روٹی ملے ادھر بیٹھ کے انکا بولتی ہیں اماں کی نوکری کا سن کے آج تو مجھے گڈی کہتے نہیں تھکیں گی اور اماں سے اچھی بہو تو دنیا میں کوئی نہیں ہو گی۔ ابا بلکل دادی جیسے ہیں بلکہ یہ سارے ہی حودغرض ہیں ۔یہ لیں دادی روٹی اور ساتھ چائے بھی بنا دی ہے۔ آپ روٹی کھائیں میں سکول سے رمشہ اور سعد کو لے آؤں ۔جا لے آ اور جلدی آئیں ۔

شہروز حریم نے گاڑی کا دروازہ ناک کیا تھا۔اور پھر شیشہ نیچے ہوا تھا۔ آگئی تم ٹائم دیکھ رہی ہو کتنا لیٹ ہو ۔شہروز دروازہ تو کھولیں سارے دیکھ رہے ہیں۔ کھول دیا ہے آجاؤ.حریم نے گاڑی میں بیٹھ کہ سکون کا سانس لیا تھا ۔سانس پھول رہی تھی۔ یہ لو پانی پی لو شہروز نے آنکھ بھر کہ اسے دیکھا تھا۔اور یہ چادر تو منہ سے نیچے کرو ۔نہیں شہروز ابھی نہیں کسی نے دیکھ لیا تو مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ اوہ کم آن حریم کوئی نہیں دیکھتا پانی پیو۔ حریم نے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد چادر نیچے کر دی تھی اور پانی پیتے ہوئے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے پانی حلق سے نیچے جانا ہی مشکل ہو گیا ہو ۔ حریم سارا پانی خود ہی پی لو گی یا مجھے بھی پلاؤ گی میں بھی کب سے گرمی میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ ساری دنیا کے بیزار لہجے میں شہروز کا لہجہ اسے ہمیشہ سکون دیتا تھا صرف وہی تھا جسے وہ سننا چاہتی تھی۔ کدھر گم ہو گئی ہو کیا سوچ رہی ہو یار۔ کچھ نہیں یہ لیں پانی ۔نہیں پانی کو رکھو سائیڈ پر مجھے بتاؤ ابھی کیا سوچ رہی تھی ۔ شہروز آپ مجھے کبھی چھوڑیں گے تو نہیں میں آپ کے بغیر کبھی نہیں رہ سکتی ۔گاڑی کو بریک لگی تھی گاڑی رکتے ہی شہروز نے دروازہ کھولا تھا ۔اور گاڑی سے باہر نکلنے لگا تھا ۔ شہروز کیا کر رہے ہیں واپس آئیں ۔ مین روڈ ہے آپ گاڑی میں بیٹھیں۔ نہیں حریم تمہیں میرے لفظوں پہ یقین نہیں یے نا تو میرا مر جانا ہی بہتر ہے ۔ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ مجھے یقین ہے بس ڈر لگتاہے کیسا ڈر یار میں تمہارا ہوں صرف تمہارا ۔ اچھا چھوڑیں ساری باتیں ابھی ہم کدھر جا رہے ہیں ۔کدھر جانا ہے مائی لو ۔جہاں آپ لے جائیں۔ یہ ہوئی نا بات میری جان ۔ایسے خوش رہا کرو ۔ وہ دونوں ہمیشہ کی طرح پارک گۓ تھے ۔اور بہت پیارا وقت ساتھ گزارا تھا ۔واپسی پر شہروز نے جلد شادی کا بھی وعدہ کیا تھا ۔

اماں آپ آ گئی ہیں۔ ٹائم دیکھیں رات کے دس بج رہے ہیں کیوں اپنی جان ہلکان کر رہی ہیں کوئی نہیں خوش ہو گا آپ سے یہاں ۔ چپ کر جا حریم کیوں جلتی رہتی ہے یہ زندگی ہے میری بچی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے ۔سب کدھر ہیں اور تو کیوں جاگ رہی ہے سوئی کیوں نہیں ۔اماں میں آپکا انتظار کر رہی تھی باقی سب سو گئے ہیں ابا دادی کے گھر سے نہیں آئے ابھی چلیں آپ منہ ہاتھ دھو لیں میں کھانا لگاتی ہوں پھر دادی کو رات کی چائے دے آؤں گی۔ چل ٹھیک ہے ۔اماں کو کھانا دے کہ حریم چچی کے گھر آئی تھی ۔ساتھ ہی گھر تھا۔دادی رہتی تو چچی کے پاس تھیں پر کھانا پینا سب اماں کے پیسوں سے ہوتا تھا۔ دروازہ ہمیشہ کی طرح کھلا تھا ۔دادی کا کمرہ دروازےکے ساتھ ہی تھا ۔دادی سو رہی تھیں۔اب اٹھانا مناسب نہیں تھا ۔ حریم کو یکدم خیال آیا تھا کہ ابا تو دادی سے ملنے آئے تھے ۔پر دادی تو سو رہی ہیں اور چچا بھی اسلام آباد گۓ ہوئے ہیں پھر ابا کہاں گئے ہیں ۔ خیر مجھے کیا جہاں بھی جائیں میں چچی سے مل کہ انھیں کہہ دوں دروازہ بند کرنے کا ان کو بھی اپنے فیشنوں سے فرصت نہیں ملتی اللہ نے اتنا پیارا گھر دیا ہے پر کبھی جو صفائی کا خیال رکھا ہو ۔حریم نے نیچے والا پورشن دیکھ لیا تھا بچے بھی نیچے سو رہے تھے ۔اب چچی کدھر چلی گئی ہیں اتنی رات میں اوپر والے پورشن میں نہ ہوں ۔ ہاۓ اب اوپر جانا پڑے گا چھوڑ حریم دفعہ کر جب انھیں فکر نہیں ہے تو تو کیوں فکر کر رہی دروازہ بند کر کے واپس چلتی ہوں۔ حریم ابھی واپس جانے کے لیے مڑی ہی تھی کی کوئی چیز نیچے گرنے کی آواز آئی تھی اور ساتھ ہی کسی مرد کی بھی آواز تھی جیسے کوئی کچھ کہہ رہا ہو۔ کیا چچا واپس آگئے ہیں ۔نہیں نہیں وہ تو ابھی شام کو ہی گۓ ہیں ۔پھر اوپر کون ہے۔ حریم آہستہ سے سیڑھیاں اوپر چڑھی تھی ۔ اوپر کے پورشن میں دو کمرے تھے اور ان میں سے ایک کمرے کا دروازہ بند تھا ۔اور اس کمرے میں سے آوازیں آرہی تھیں ۔نگین تم نے کیا کیا جان دیکھو نا گلاس ہاتھ پہ لگ گیا ہے اتنے نازک ہاتھ ہیں تمہارے ۔ یہ آواز نہیں نا ایسا نہیں ہو سکتا یا اللہ اسکے قدموں تلے زمین نکل گئی تھی وہ فورا واپسی کے لیے بھاگی تھی۔(آگے جاری ہے)

Sana
About the Author: Sana Read More Articles by Sana: 13 Articles with 23315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.