اب نہیں۔۔۔۔ قسط 4

گھر آ کے اس نے دروزاہ بند کیا تھا وہ آواز نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔میں کیا کروں کسے بتاؤں نہیں نہیں میں کسی کو نہیں بتاؤں گی ۔ہاں میں نے کچھ نہیں سنا بس۔میں تو اپنے مسئلے کو لے کے بہت پریشان ہوں ۔سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کروں اوپر سے یہ نیا مسئلہ ۔حریم سو جا صبح جانا بھی ہے تو نے کالج کہ نہیں ۔آرہی ہوں اماں ۔
صبح ناشتے پر سارے ہی موجود تھے ۔حریم کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی ۔رمشہ اور سعد کو اماں تیار کر رہی تھیں ۔اور ابا ہمیشہ کی طرح موبائل پہ لگے ہوئے تھے ۔اسے آج تک یہی سمجھ نہیں آئی تھی کہ ابا کام کیا کرتے ہیں ۔ابا نے اور چچا نے کاروبار شروع کیا تھا دادا کی زمین بیچ کہ اور وہ کاروبار بہت اچھا چلا تھا تبھی دونوں بھائیوں نے اپنے مکان بنا لیے تھے ۔چچا نے تو اس کے بعد بھی بہت پیسہ کمایا اور گھر پر لگایا تھا البتہ ابا نے اس کے بعد نہ گھر پیسہ دیا تھا نا ہی گھر پہ لگایا تھا ۔ لیکن خود پہ خوب پیسہ اڑاتے تھے ۔ایک گاڑی لے رکھی تھی ۔ابا کے ساتھ اگر ان کی اولاد اور بیوی کھڑی ہو جاتی تو ان کی فیملی کم اور نوکر زیادہ لگتے تھے۔ تبھی وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کہیں نہیں جاتے تھے ۔ آپی ناشتہ دے دیں سکول سے دیر ہو رہی ہے ۔ اچھا میری جان تم چلو میں لے کے آتی ہوں ۔اس نے سعد کا ماتھا چوما تھا ۔اسے اپنی ماں اور بہن بھائی بہت عزیز تھے ۔ جن کے لیے وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی ۔اور اسے جلد کرنا بھی تھا۔یہ لیں ناشتہ سعد رمشہ آجاو بس لڑو نہیں ۔آپی یہ سعد مجھے مارتا ہے رمشہ اس کے پہلو میں بیٹھ گئی تھی ۔نہیں آپی یہ رمشی مجھے مارتی ہے ۔سعد بری بات بہن ہے ۔او چپ کر جاؤ سویرے ہی چک چک لا دیتی اے ۔اپنی چچی کے بچوں کو دیکھا ہے کتنے تمیزدار بچے ہیں۔ یہ سب تیری گندی تربیت ہے راحیلہ تمیز نا سیکھا سکی تو انہیں ۔ ابا اس میں اماں کا کوئی قصور نہیں ہے ۔چچی کے بچوں کو چچا بھی وقت دیتے ہیں۔ بکواس کرتی ہے میرے آگے بےغیرت نا ہو تو تم جیسی گندی اولاد کو تو منہ بھی نا لگاؤں میں یہ سب تیرا قصور ہے تو ہی بے غیرت ہے اسی لیے تیری اولاد بھی گندی ہے ۔ دفعہ ہو جاؤ تم سب مر جاؤ میں جا رہا ہوں ۔رک رفیق ناشتہ کر لے بچے ہیں یہ میں سمجھاؤں گی انھیں رک جا ۔ جانے دے اماں باہر جا کے کھا لیں گے آپ ناشتہ کریں ۔ میں مر جاؤں تم سب خوش ہو جاؤ گے کتنی بار سمجھایا ہے تجھے پر نہیں تو نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے ماں کو ذلیل کروانے کی ۔ جاؤ سکول کالج سب میری جان چھوڑ دو۔ ہر دو دن بعد یہی کچھ ہوتا تھا کبھی ناشتے پر اور کبھی کھانے پر ۔خیر حریم بھی کچھ کہے بغیر سعد اور رمشہ کو لے کر نکل آئی تھی ۔انھیں چھوڑنے کے بعد وہ بھی کالج آ گئی تھی ۔آج اسے الیشا کو کچھ بتانا بھی تھا ۔کلاسز سے فری ہونے کے بعد وہ دنوں کیفے آ گئے تھے ۔الیشا یار مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔ہاں کرو وہ الیشا میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ شہروز ایک بات کی بار بار ضد کر رہے ہیں ۔ہاں بتایا تھا تو پھر میں نے تمہیں منع کیا تھا نا کہ تم ایسا کچھ نہیں کرنے والی ۔ہاں یار منع تو کیا تھا پر جب میں کل ملی تو ۔تو کیا حریم کیا تم نے مان لی اس کی بات حریم میں کیا پوچھ رہی ہوں یار ۔ ہاں الیشا میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا ہمیں ایک سال ہو گیا ہے ساتھ شہروز مجھے بہت چاہتے ہیں۔اف حریم تم کیسے کر سکتی ہو یار ایسا اتنا چاہتا ہے تو جو میں نے تمہیں کہا تھا وہ ویسا کیوں نہیں کرتا ۔یار وہ بھی کریں گے وہ بس تھوڑا سیٹ ہو جائیں ۔حریم کیا سیٹ ہونا ہے گاڑی پیسہ سب کچھ تو ہے اسکے پاس ۔ نہیں الیشا ان کی بہنیں ہیں ان کی بھی تو ذمےداری پوری کرنی ہے۔ ٹھیک ہے حریم پر تم بھی کسی کی بیٹی ہو اسے یہ بھی سوچنا چاہئیے ۔ مجھے شدید غصہ آ رہا ہے تمہاری اس بیوقوفی پہ بس اب کچھ غلط ناہو ۔

چلو اب کلاس لیں پھر آج مجھے گھر بھی جلدی پہنچا ہے وہ میں نے بھی تمہیں کچھ بتانا تھا ۔مجھے آج دیکھنے آرہے ہیں ۔کیا سچی کون ہیں وہ۔ یار بابا کے دوست ہیں کوئی تمہیں تو پتا ہے بابا کا فرینڈ سرکل کتنا بڑا ہے ۔ اللہ پاک تمہارے نصیب اچھے کریں الیشا تم ڈھیروں خوشیاں دیکھو۔ آمین اور تم بھی ڈھیروں خوشیاں دیکھو ۔اب بہت سنبھل کے چلنا ہے تمہیں حریم پلیز اب کوئی مزید بیوقوفی مت کرنا ۔ٹھیک ہے تم پریشان نا ہو ۔ گھر آ کے اس کا دل بہت ہلکا ہو گیا تھا کوئی تو تھا جو اسکے دل کا حال جانتا تھا ۔نا ابا گھر آئے تھے نا ہی اماں ۔وہ اکیلی جاگ کہ دونوں کا انتظار کر رہی تھی آج تو دادی بھی نہیں آئیں تھیں اور چچی وہ تو اسے بہت منحوس لگنے لگی تھیں ۔اچانک فون کی رنگ ٹون بجی تھی ۔شہروز کالنگ موبائل سکرین پر نمودار ہوا تھا ۔ اس نے فورا فون ریسو کر لیا تھا ۔ہیلو مائی لو شہروز کی آواز آئی تھی ۔یہ الفظ اسے ہمیشہ سکون دیتے تھے ۔جی جناب کیسے ہیں آپ ۔میں ٹھیک ہوں آج یاد ہی نہیں کیا میری شہزادی نے مجھے۔ نہیں ایسا نہیں ہے بس گھر میں مصروف تھی ۔اماں نے کام شروع کر دیا ہے نا تو گھر کا کام سارا میں دیکھ رہی ہوں ۔ میں صدقے جاؤں میری ننھی جان کو اتنا کام کرنا پڑ رہا ہے ایک بار تمہیں اپنے گھر لے آؤں رانیوں کی طرح رکھوں گا ۔ اچھا سنو میری جان کل ملیں ۔شہروز ابھی تو ملے تھے ہم ۔اچھا اب تم ہمارے ملنے کا بھی حساب رکھو گی ۔کیسی باتیں کرتے ہیں آپ میں ایسا کیوں کروں گی ۔یہ ہوئی نا بات اب کل پیارا سارا تیار ہو کے آنا کچھ سپیشل سرپرائز ہے تمہارے لیے ۔اچھا ابھی بتائیں نا کیا سرپرائز ہے ۔نہیں کل بتاؤں گا ۔ چلیں ٹھیک ہے ابھی باہر کوئی آیا ہے میں فون رکھتی ہوں ۔اوکے باۓ لو یو ۔لو یو ٹو باۓ۔

آج اماں صبح ہی کوٹھی چلی گئی تھیں ۔آج کوئی بڑی دعوت تھی ۔خوب کام تھا کھانا پکانے کا ابا دو دن سے گھر آئے نہیں تھے ۔ رمشہ اور سعد کو وہ پنکی خالہ کے گھر چھوڑ آئی تھی آج اسے شہروز کے ساتھ ڈھیر سارا وقت گزارنا تھا ۔اماں کو کہہ دیا تھا اس نے کہ آج اسے الیشا کے گھر جانا ہے کالج سے واپسی پر اماں کو کونسا پتا لگنا تھا۔ وہ کونسا الیشا سے کبھی ملی تھیں۔ ہاۓ جلدی سے تیار ہو جاؤں لیٹ ہی نا ہو جائے۔ گھر سے نکل کر تیز قدموں سے راستہ طے کر کے بس وہ جلدی سے شہروز کے پاس پہنچنا چاہتی تھی اور بالآخر وہ پہنچ ہی گئی تھی۔اس کے انتظار میں گاڑی پہلے سے وہیں کھڑی تھی ۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا کوئی تو تھا جو اس کا بھی انتظار کرتا تھا۔یہ احساس ہی مکمل کر دیتا تھا۔ شہروز نے ہمیشہ کی طرح اسے نظر بھر کے دیکھا تھا۔ حریم یار چادر تو اتارو یار ۔نہیں ابھی نہیں پارک پہنچ کر اتاروں گی ۔پارک نہیں آج ہم کہیں اور جا رہے ہیں ۔کہاں حریم نے حیرانگی سے پوچھا تھا ۔بس ہے ایک جگہ جہاں صرف میں اور تم ہوں گے ۔ پر شہروز ۔پر کیا جہاں میں لے کے جاؤں گا تم نہیں جاؤ گی ۔ جاؤں گی مجھے آپ پہ پورا یقین ہے آپ مجھے کبھی کسی غلط جگہ نہیں لے کے جا سکتے ۔ شہروز نے مسکرا کے اسکی طرف دیکھا تھا ۔ پھر کافی ٹائم گزرنے کے بعد گاڑی کسی گھر کے آگے رکی تھی ۔علاقہ بہت زیادہ سنسان تھا ۔ شہروز نے کسی کو کال ملائی تھی ۔ ہاں ہم پہنچ گئے ہیں دروازہ کھولو ۔

Sana
About the Author: Sana Read More Articles by Sana: 13 Articles with 23313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.