پاکستان اسٹیل ملز کی خستہ حالی

پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد ۱۹۷۴ میں ذولفقار بھٹو نے رکھا ۔۱۹۵۹ میں اسٹیل ملز بنا نے کا خیال ظاہر ھوا جس کی ایک وجہ ملک کی بڑھتی ھوئ صنعتی ترقی اور دوسرا چترال اور کالا باغ کے قریب لوہے اور کو ئلے کے ذخائر تھے ۔شاید یہ منصوبہ اس وقت عمل میں آجاتا تو آج مزید کئی اور صنعتیں لگ جاتیں مگر ہمارے اس وقت کے آقا امریکہ نے ہماری یہ کوشش پوری نا ہونے دی اور ۱۹۶۹ تک ٹال مٹول کرتا رہا اس کے بر عکس روس نے پاکستان کو اسٹیل ملز بنانے میں مدد کی پیشکش کی جو ۱۹۷۴ میں عملی صورت میں سامنے آئی اور روس کی مدد سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ پاکستان اسٹیل ملز ۱۹۹۲ سے پہلے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا ۱۹۹۲ میں جنرل صبیح القمر زماں کو بطور چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز تقرر کیا گیا۔ انھوں نے اس وقت کے انتظامی امور کو درست کیا اور ادارے کی کارکردگی میں اضافہ کیا اور تمام قرضے ختم ہونے پر ملازمین کو بونس بھی دیا جب تک یہ ادارہ فائدے میں رہا تب تک ملازمین کو بونس اور اچھی تنخواہیں ملتی رہیں۔ لیکن بعد میں آنے والی حکومت نے اپنی من مانی کے تحت سیاسی بھرتیاں کیں جس سے ادارے کو شدید نقصان پہنچا ۔۱۹۹۹ میں اسٹیل ملز کے خسارے کے وقت کرنل افضل نے پاکستان اسٹیل ملز کے باک ڈور سمبھالی ۲۰۰۳ میں جب ان کا انتقال ہوا تو نہ ادارہ اتنے منافع میں تھا کہ اپنے تمام قرضے اتارنے کے بعد بھی ایک کثیر رقم بچ رہی تھی ۔

اسٹیل ملز ماضی میں ایسا ادارہ تھا جو اپنے ملازمین کو دوسرے اداروں سے زیادہ تنخواہیں ، ٹرانسپورٹ ،تعلیم اور دوسری مراعات کئی اداروں کے مقابلے میں بہت زیادہ دیتا تھا ۔۲۰۰۸ تک اپنے ملازمین کو تمام تر سہولیات دینے کے باوجود یہ ادارہ ایک منافع بخش ادارہ تھا لیکن ۲۰۰۹ میں غیر متوقع طور پر خسارے میں جانے لگی اس وقت تک پاکستان اسٹیل ملز کا خسارہ ۴۰۰ ارب سے زیادہ ہو چکا ہے ۔ ہر بار آنے والی حکومت اسٹیل ملز کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی بس ہر چار ماہ بعد ایک پیکج دے دیا جاتا ہے جس میں کچھ ماہ کی تنخواہ دے دی جاتی ہے۔ اسٹیل ملز ایسا ادارہ تھا جس کے ملازمین کو کبھی ہر سہولت میسر تھی آج خسارے میں ہونے کی وجہ سے وہی ملازمین اپنی زندگی غربت اور مشکلات میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی حکومت اس معاملے کو کتنا سنجیدگی سے لیتی ہے .میری جناب چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کے باےمیں ازخود نوٹس لیں اور اس ادارے کے ملازمین کا معاشی قتل ہونے سے بچائیں تاکہ یہ ادارہ پہلے کی طرح اپنی آب و تاب سے چلتا رہے اور ملک کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

Kamran Ahmed Siyal
About the Author: Kamran Ahmed Siyal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.