زبان کی لغزشیں

 ایک ایسا عضو ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی جنت اور دوزخ متعین کرتا ہے.
نبی کریم ﷺ نے ایک مسلمان کی تعریف میں فرمایا۔
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ

(بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم)

کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں۔ اس میں بھی زبان کی ہاتھ پر فوقیت بیان ہوئی ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ
زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے.
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے پو چھا انسان کیلئے سب سے زیادہ خرابی کس بات میں ہے . فر مایا
دل کا مر جانا ”مالک ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا اور دل کیسے مر جاتا ہے ؟ فر مایا دل میں دنیا کی محبت جگہ لے تو دل مر جائے گا

انسان کے تما اعضاء میں زبان و قلب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ باقی اصلاح ؤ بگاڑ کا دارو مدار بھی انسانی جسم میں موجود زبان اور دل پر ہوتا ہے۔ زبان اگر قابو میں رہے تو امان ہے ورنہ بے لگا م ہو کر چلنے والی زبان بہت سی آفتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا !!
جب صبح ہوتی ہے تو جسم کے تمام اعضاء زبان کے سامنے عجز و انکساری سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتی ۔ اس لیے کہ ہمارا دارومدارتجھ پر ہے اگر تم سیدھی رہی تو بھی سیدھے رہیں گے۔ اگر تو بھٹک گئی تو ہم بھی بھٹک جائیں گے (جامع ترمذی)۔
کیونکہ جسم کے اور اعضاء سے جوگناہ سرزد ہوتے ہیں، ان میں بھی دراصل زبان ہی ذریعہ بنتی ہے۔زبان سے نکلنے والا ایک لفظ کبھی ہاتھ کو گناہ میں ملوث کر دیتا ہے۔ اور کبھی قدم اس لفظ کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو کبھی آنکھیں گناہ آلودہ ہو جاتی ہیں۔
دل کے علاوہ جتنے اعضاء انسانی ہیں یا حو اس ان میں سب سے اہم زبان ہے۔ زبان جب تک دل کے تابع رہے اس وقت تک یہ قابو میں رہتی ہے اور جب یہ زبان دل کی حدود و قیود سے باہر آجائے اور دل زبان کا تابع بن جائے, زبان کی غلامی میں دل آجائے تو وہیں سے فساد شروع ہو جاتا ہے۔
زبان سے اگر اچھے اقوال نکلیں ، نیک کاموں میں استعمال ہو۔ اللہ کے ذکر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لوگوں کے درمیان اصلاح دین کی دعوت ،درس و تدریس ، علمی مذاکرہ وغیرہ تو یہ زبان انسان کے لیے نعمت عظمیٰ ہے، آخرت میں اعمال صالح کا ذخیرہ کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔
لیکن جب یہ زبان بُرے اقوال ، گالی گلوچ ، زبان درازی ، جھوٹ ، جھگڑے فساد فحش گوئی ، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسمیں ، وغیرہ میں استعمال ہو تو یہی زبان وبال جان ہے۔ انسان کی ہلاکت کا سامان اور اعمال کے ضائع ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اس مو قع پر سوال کسی کے ذہن میں اٹھ سکتا ہے تو اس کے لیے ایک اور حدیث مبارکہ ھے جس میں تقریباً یہی الفاظ اور اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ھے..
چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ’’جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑہ ایسا ہے کہ جب وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اور جب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ دل ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اعضاء جسم کی اصلاح اور فساد کا محور دل ہے جب کہ حضرت ابو سعید خدریؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اعضاء جسم کی اصلاح اور فساد کا محور زبان ہے اور اس سوال کا جواب یہ ہے کہ زبان درحقیقت دل کی ترجمان ہوتی ہے اور زبان کا دل کا نمائندہ ہونا ہے تو دل میں جو بھی بات آتی ہے تو صرف زبان ہی ایک ایسا عضو ہے جو دل کے خیالات کو الفاظ کا رنگ دے کر انسان کو مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے۔
چنانچہ یہ بھی درست ہے کہ انسان کے جو اعمال ہیں وہ درحقیقت دل اور زبان کی مشترکہ کوششوں سے ظہور پذیر وہوتے ہیں.
(عرب کا مشہورشاہر کہتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ انسان اور اس کے تمام اقوال و افعال دو چیزوں کا مجموعہ ہیں نصف دل ہے اور نصف اس کی زبان ہے بالفاظ دیگر انسان ایک خون کے لوتھڑے اور ایک گوشت کے ٹکڑے کا مجموعہ ہے‘‘ گویا انسان دل اور زبان کے مجموعے کا نام ہے۔ دیگر اعضاء کی بہ نسبت زبان بولتے تھکتی نہیں۔ ہاتھ کام کرتے ، پاؤں چلتے تھک جاتے ہیں۔ مگر زبان بلا موقع بلاوجہ اور بلا جھجک اور بغیر تھکن بولتی چلی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دونوں حدیثوں میں بہت باریک سافرق ہے اور وہ یہ کہ دل والی حدیث میں صرف اتنا بتلایا گیا ہے کہ دل کی اصلاح اور فساد سے انسان کی اپنی ذات متاثر ہوتی ہے۔ ایک انسان کی قلبی کیفیت اندورنی جذبات کی فطرت کی خبر دی گئی ہے۔ دل کی اصلاح سے دوسرے اعضا ء میں درستگی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس حدیث میں اعضاء کی جانب سے دل کے آگے درخواست کرنے کا تذکرہ نہیں دل کے اندر خیالات آسکتے ہیں۔
مگر دل خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا ۔ دل زبان کا محتاج ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دل میں بُرے خیالات ہوں لیکن وہ کسی وجہ سے زبان سے اس کا اظہار نہ کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
چنانچہ اس وجہ سے جب ایک صحابیؓ نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہم سے اپنے دل میں آنے والے خیالات کا مواخذہ کیا جائے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں جب کے زبان والی حدیث میں اس بات کا تذکرہ بھی ہے کہ تمام اعضاء زبان کے آگے دست سوال پھیلاتے ہیں کہ تو سنوری رہے تو ہم بھی سنورے رہے گئے اگر تو بگڑ گئی تو ہم بھی بگڑ جائیں گے۔
حضرت سہل بن سعدؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔
جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ ایک اس کی جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے(زبان) اور دوسری وہ جو اس کے دونوں قدموں کے درمیان ہے(شرمگاہ) صحیح بخاری
ایک جگہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ! جو شخص اپنی زبان اپنے پیٹ اور اپنی شرمگاہ کے شر سے بچ گیا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ (اکنزالعمال)
اگر کائنات کے مسلمان صرف اسی حدیث پر عمل کرے تو اس کی دینوی اور اخروی نجات کے لیے کافی ہے۔ اس لیے کہ انسان سے جو گناہ ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ اس کے اقوال ، حرام مال، ناجائز حیوانی خواہش وغیرہ ہوتے ہیں۔ جو ان کے شر سے بچ گیا وہ جنت کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ حفاظت لسان کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث میں واضح ہے کہ محض زبان کی حفاظت کرتے پر نبی کریم ﷺ جیسی مبارک ہستی نے جنت جیسی مقدس نعمت کی ضامن بن رہی ہے۔
حضرت بلا لؓ بن حارثؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا!
انسان خدا کی پسندیدگی کا کوئی جملہ ایسا بولتا ہے کہ جس کی اہمیت کا اندازہ اس کو نہیں ہوتا لیکن خدا تعالیٰ اس سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو جاتاہے۔ اور کبھی وہ خدا کی ناراضگی کا ایسا جملہ بولتا ہے جس کا اندازہ اسکو نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ اس سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاتے ہیں۔ (موطا امام مالک، ترمذی، ابن ماجہ )
ایک جگہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا!
انسان کوئی کلمہ اپنی زبان سے نکالتا ہے جس کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کوہنسانے لیکن اس کلمہ کی وجہ سے وہ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں کی طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ اور زبان کی لغزشیں قدم کی لغزشوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ (کنز العمال)
ایک عربی شاعر نے بھی بہت خوب کہا ہے کہ جس کا ترجمہ ہے کہ نیزے کے زخموں کا مداوا ہو سکتا ہے لیکن زبان کے زخم جو لگائے جاتے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہو سکتے ۔ارشاد نبوی ﷺ بھی ہے کہ ’’ جو خاموش رہا اس نے نجات پائی‘‘۔
امام غزالی ؒ اپنی کتاب (احیاء العلوم) میں تحریر فرماتے ہیں۔
انسان جو بات بھی کرتا ہے وہ چار حالتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو وہ بات شر ہی شر ہے، برائی ہے یا وہ خیر ہی خیر ہے۔ یعنی اچھی باتیں ہیں، یا اس بات میں خیر اور شر دونوں میں یا اس بات میں نہ تو خیر ہے اور نہ شر محض فضول ہے۔ پہلی حالت میں یقیناخاموش رہنا ہی ضروری ہے۔ دوسری حالت میں بولنا بہتر ہے۔ تیسری حالت میں جب انسان کا کلام خیر اور شر پر مشتمل ہو تو شر کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس وقت بھی خاموشی بہتر ہے اور جب کلام نہ خیر ہو نہ شر ہو تو ایسی فضول بات کرنے سے بہتر ہے کہ انسان خاموش رہے۔
اس پس منظر میں ایک عربی شاعر کہتا ہے کہ میں کبھی بھی خاموش رہنے کی وجہ سے شرمندہ نہیں ہوا جبکہ بولنے کیوجہ سے میں ، کئی مرتبہ شرمندہ ہو اہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اپنی زبان کی لغزشوں سے محفوظ فرمائے۔
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455219 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More