کرپشن کا خاتمہ ۔۔۔دلفریب نعرہ

کرپشن کے خلاف نعرہ ہم سب کو بہت بھاتا ہے ،مختلف وقتوں میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والوں نے بارہا کرپشن کے خلاف جہاد کی نوید سنائی، اقتدار تک پہنچنے کے لیئے ہمارے سیاست دانوں اور وطن عزیز سے کرپشن کو ختم کرنے کے دعویدارغیر سیاسی حکمرانوں نے بھی یہ دلفریب نعرہ بلند کر کے اقتدار حاصل کیا اور بعض تولمبے عرصہ تک اقتدار سے چمٹے بھی رہے ،آزادی کے اکہتر سالوں میں کرپشن ہر شعبہ میں سرائیت کر چکی ہے اشیاء خوردونوش سے لے کر وطن عزیز میں جاری اور مکمل ہونے والے منصوبوں میں کرپشن کی کہانیاں آئے روز سنائی جاتی ہیں اِن میں سے بعض کرپٹ افراد جلد ہی قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں ویسے ایسا ہوتا اِکا دُکا ہی نظر آئے گا اور بچ جانے والے اپنے کام کو جلد از جلد مکمل کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ کہیں اُن پر بھی کسی کی نظر نہ پڑ جائے، اگر کرپٹ افراد ایک بار بچ نکلیں تو پھر نہ ختم ہونے والا سلسلہ بڑے دھرلے سے کیا جاتا ہے بڑی بڑی گاڑیوں کی خریداور کوٹھیوں کی تعمیر کے بعد دوستوں اور اجتماعات میں مبارک بادوں کے جواب میں الحمداﷲ کہتے یہ سُنے اور دیکھے جا سکتے ہیں،وطن عزیز میں محنتی اور مخلص ہمیشہ پچھلی قطاروں میں نظر آتے ہیں وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیئے اپنے کندھے اُن چند اشرافیہ کو پیش کرتے رہتے ہیں جنھوں نے اقتدار یا لیڈری کے لیئے ہر باراُنکی محنت اور خلوص کواستعمال کیا ہوتا ہے ،اگر ملکی سیاست کی بات کریں تو 2018کے الیکشن میں کرپشن کے خلاف الیکشن جیتنے والوں نے اپنے ارد گرد وہ ہی لوگ اکھٹے کر رکھے ہیں جو گزشتہ چند دہائیوں سے سابقہ کئی ایک حکمرانوں کا ساتھ نبھاتے رہے ہیں کیا الیکٹیبلزکا ٹائٹل حاصل کرنے والے گزشتہ تیس سال سے سیاست میں سرگرم نہیں رہے ؟ اَب کی بار ایک نئی جماعت کے دبنگ لیڈر کے ساتھ مل کر وطن عزیز کو کرپشن سے پاک کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں،کاش ایسا ممکن ہو سکے، مجھے گزشتہ دنوں ایک تقریب میں جانے کا موقع ملا تو وہاں کی چیف گیسٹ ایک خاتون آفیسر تھیں انھوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں بہت سخت انتظامی افسر ہوں میری تعیناتی کے دوران کسی کو کرپشن اور غلط کام کرنے کی جرات نہیں ہوسکے گی میں اُصول وقانون پسند ہوں وہ معزز افسر خاتون اپنی پہلی ملازمت میں بطور لیکچرر شپ میں اپنے طلبہ کو ڈسپلن کے مطابق رکھنے میں کامیابی کے دعوے بھی کرتی نظر آئیں اِس تقریب میں موجود نوجوان بہت خوش نظر آئے کہ تبدیلی کا جو پیغام انہیں چند سال سے سننے کو مل رہا ہے شاید واقعی ہی تبدیلی آ چکی ہے میری خوشی ہمیشہ کی طرح چند لمحوں کے لیئے ہی رہتی ہے جب تک میں کسی تقریب کے مقام سے نکل کر اگلے شخص سے مل نہ لوں کیونکہ اکثر ملنے والا شخص کرپشن کا ایسا داؤ پیچ مارتادکھائی دیتا ہے کہ آپ کے وہم گمان میں بھی ایسا نہیں ہوتاپھر تقاریب کی خوبصورت تقاریر بھی ذہن سے سلیٹ کی طرح صاف ہو جاتی ہیں ۔سانچ کے قارئین کرام !ہم میدان سیاست خاص طور پر سیاست دانوں کی کرپشن پر تو بہت سیخ پا ہوتے ہیں اُنھیں ہر مقام پر بُرے القابات سے نوازتے رہتے ہیں کیا کبھی اپنے ارد گرد انتہائی قربت میں بھی دیکھا کہ ہمارے دوست احباب ،قریبی رشتے دار پیسے کمانے کے چکروں میں سماجی اخلاقیات کو تو نہیں بھُلا بیٹھے ،کرپشن میں ملوث کون لوگ ہیں ہمیں اپنے ارد گرد نظر دوڑانا ہو گی اگرکرپشن دیکھنی ہے تو کسی پٹرول پمپ پر جاکر دیکھ لیں، بعض پٹرول پمپس پر دو تین سوروپے کا پیمانہ چلنے اور رُکنے کا عمل پلک جھپکنے سے پہلے مکمل ہو جاتا ہے ،چند سال پہلے تک 90%فیصد سے زائد دودھ فروش دودھ میں پانی ملاتے تھے لیکن موجودہ دور میں تو پانی میں دودھ ملانے کے ساتھ ساتھ جدید طریقہ سے مصنوعی دودھ کی تیاری بھی دھرلے سے جاری ہے اِس کام کو بند کروانے کے لیئے نہ تو مجھے اوکاڑہ کے اُصول وقانون پسندسخت انتظامی افسر کی کارکردگی کہیں نظر آتی ہے اور نہ ہے فوڈ اتھارٹی کی کوئی کارکردگی،ایک دودھ فروش جو کہ اچھا دودھ فروخت کرنے کا دعویدار تھا جب اُس سے ہم نے پوچھا کہ آپ حلفاََ کہتے ہو کہ دودھ میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کرتے تو اگلے ہی لمحہ وہ بولا نہیں باؤ جی ایسا تو نہیں ہے لیکن اگر آپ خریدنا چاہتے ہیں توجو دودھ میرے گھر میں استعمال کے لیئے جاتا ہے وہ آپکو دے سکتا ہوں میرا اگلا سوال تھا کہ کیا وہ جعلی نہیں ؟تو دودھ فروش کا جواب قارئین کرام یہ تھا کہ وہ بنایا گیا نہیں ہے لیکن ملاوٹ شدہ ضرور ہے ،اَب آپ اندازہ خود لگا لیں کہ ہمارے ہاں کرپشن کس حد تک سرائیت کر چکی ہے کہ ایک دودھ فروش اپنے گھر میں بھی ملاوٹ شدہ دودھ فراہم کرتا ہے اور ہم چلے ہیں ملک میں تبدیلی لانے کرپشن ختم کرنے، جب میں نے اُس سے پوچھا کہ اَب کی بار انتخابات میں ووٹ کس کو دیا ہے تو وہ اونچی آواز میں بولا "نئے پاکستان کی پہچان بلے کا نشان "،یہ جملہ کہ کرپشن کو ملک سے ختم کر دیں گے گزشتہ کئی دہائیوں سے سن سن کر کان پک چکے ہیں کرپشن نے ختم تو کیا ہونا ہے کم بھی نہیں ہو سکی کیونکہ کرپشن کو تحفظ دینے کے لیئے معزز پیشوں سے وابستہ افرادبھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں دفاتر میں فائلیں مکمل کر کے دینے کے باوجود کئی کئی ماہ تک کلرکوں کے میزوں کے درازوں میں پڑی رہنے کی وجہ بھی کرپشن ہی ہے کونسا ایسا محکمہ ہے جہاں ڈھکے چھپے لین دین نہ ہوتا ہو ؟اگر بعض اداروں میں کمپیوٹر سے کیے گئے اندراج کو کرپشن کے خلاف بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے تو تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھیں تو کمپیوٹر آپریٹرز نے اندراج کو اپنے مطابق کروانے کے ریٹ بھی مقرر کر رکھے ہیں ،سانچ کے قارئین کرام ! سر کاری ،نیم سرکاری ،پرائیویٹ اداروں میں پسند نا پسند کرپشن نہیں ہے کیا بعض انتہائی قابل لوگ دیوار سے لگا دیئے جاتے ہیں اور بعض نااہل لوگ اعلی عہدوں پر بیٹھا دیے جاتے ہیں ،کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر بڑے بڑے پراجیکٹ خاص طور پر سڑکوں ، پُلوں کی تعمیر میں جائز کمیشن سے کئی گنا زائد حاصل کر جانے والے کیاکرپشن کے زمرے میں نہیں آتے ؟مٹھائیوں ،بیکریوں،ہوٹلوں ،تنوروں کی دوکانوں پر فروخت ہونے والی اشیاء پر آئے روز فوڈ اتھارٹی کی جانب سے کاروائیوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں لیکن کیا وہاں سے ملاوٹ کاخاتمہ ممکن ہو سکا؟؟ ؟زمینی حقائق کے مطابق جواب نہ میں ہی ملے گا کیونکہ کرپشن کسی بھی شکل میں ہو ہمارے معاشرے میں اس حد تک شامل ہو چکی ہے کہ بعض کو اَب یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کرپشن کر رہے ہیں یا نہیں ؟میڈیا نے معاشرہ میں رہنے والے افراد کی سوچ کو انفرادی طور پر بدلنے کی حقیقی کوشش نا ہونے کے برابر کی ہے اس شعبہ سے وابسطہ افرادمقامی وعلاقائی صحافیوں (نمائندگان)کو اشتہارات اکٹھے کرنے پر لگا رکھا ہے اِن نمائندگان کو کسی قسم کا اعزازیہ تک نہیں دیا جاتا بلکہ اِن سے بزنس کی توقع زیادہ سے زیادہ رکھی جاتی ہے کبھی کسی نے سوچا کہ اِن نمائندگان کے گھر کا راشن کیسے پوراہوتا ہو گا؟ وہ مثبت صحافت کے لیئے اپنی توانائیاں اور وقت کیسے نکال سکتے ہونگے؟ جب ادارے دو تین ماہ بعد ہی ہزاروں روپے کا بزنس(اشتہارات) اکٹھا کرنے کے لیئے نمائندے کی گردن پر تلوار رکھے ہوئے ہونگے کہ اگر یہ ٹارگٹ پورا نہ ہوا تو تم نمائندگی سے گئے تو مجھے درد دل رکھنے والے صاحب علم اور کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والے بتائیں کہ کیا نمائندے سے ایسا سلوک کرنے والے صحافتی ادارے معاشرہ میں کرپٹ افرادنہیں بنا رہے؟ عام قاری تو اخبار کی قیمت بڑی مشکل سے ادا کرتا ہے وہ تو بزنس اخبارات کو دینے سے رہا پھر اشتہارات کے لیئے نمائندہ ہاتھ کس کے سامنے پھیلائے گا ؟ بلکل جی اُن لوگوں کے سامنے جنھوں نے ٹیکس چوری کیایا دیگر جگہوں پر کرپشن سے روپیہ پیسہ بنایا، صحافی کرپشن کے خلاف کیسے لکھے گا؟، نہیں لکھ سکتا کیونکہ اُسے اپنے ادارے کے مالکان کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے اشتہارات کی صورت میں ،مختصریہ کہ نئی حکومت بننے میں چند دن رہ گئے ہیں جن کا انتخابی نعرہ تھا کرپشن کا خاتمہ، میری آنے والی حکومت سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ روزمرہ کے استعمال میں آنے والی خوردونوش کی اشیاء سے ملاوٹ ختم کر کے دیکھا دیں ،اگر ایسا سچ میں ہو گیا تو اگلے کئی برسوں تک حکمرانی کا تاج آپکے سر پر سجارہے گا ٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.